روپیش کمار سنگھ: 731 دن کی اسیری، جبر و استبداد اور جیل کے استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد

05:47 PM Jul 18, 2024 | اپسا شتاکشی

جھارکھنڈ کے آزاد صحافی روپیش کمار سنگھ کو 17 جولائی 2022 کو ماؤ نوازوں سے مبینہ تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دو سالوں میں انہوں نے اب تک چار جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ پڑھیے جدوجہد کی یہ کہانی …

روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

جھارکھنڈ کے آزاد صحافی روپیش کمار سنگھ کی گرفتاری کو17 جولائی کو 2 سال یعنی 731 دن مکمل ہو جائیں گے۔ 17 جولائی 2022  کو دوپہر 1.30 بجے اپنے گھر سے گرفتار ہونے کے بعد،  روپیش نے ان  2 سالوں میں چار مختلف جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان تمام جیلوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بھی جدوجہد کی ہے۔

ان کے جیل جانے کی شروعات 18 جولائی 2022 کو جھارکھنڈ کے سرائے کیلا-کھرسانوا کے جیل سے ہوئی، جہاں روپیش کو تمام خانہ پری کے بعد شام  5.30 بجے کے قریب عدالت میں پیش کرنے کے بعد سرائے کیلا جیل بھیج دیا گیا تھا۔

وہاں سب سے پہلے انہیں متعدی امراض میں مبتلا قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا۔ بعد میں اعتراض کرنےپر ایک خستہ حال اور پرانے خاتون سیل میں رکھا گیا، جسے وہاں کے قیدی بھوت بنگلہ کہتے تھے اور جہاں بارش ہوتے ہی تقریباً پوری چھت سے پانی ٹپکنے لگتا تھا۔ روپیش نے کئی بار اس بارے میں جیل سپرنٹنڈنٹ سے بات کرنا چاہی، لیکن ان کی بات  کبھی سنی ہی نہیں گئی۔

روپیش ہمیشہ استحصال اور جبر واستبداد کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں، وہ جیلوں کے اس استحصالی نظام کے خلاف بھی آواز اٹھا رہے تھے۔ تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد جیل کے بڑے جمعدار  سیارام شرما کے سامنے 9 اگست کو ہی اپنے تین مطالبات رکھتے ہوئے روپیش نے 15 اگست سے بھوک ہڑتال کرنے کی بات کہی  اور 15 اگست کو وہ بھوک ہڑتال پر  بیٹھ بھی گئے ۔ جس کے بعد ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

پھر ان کے وارڈ کی چھت پر پلاسٹک باندھ دیا گیا اور ایک قیدی لڑکے کو بھی ان کے ساتھ رہنے کو بھیجاگیا، بعد میں کچھ اور لوگوں کو بھی۔ لیکن کچھ دنوں  بعد صورتحال پھر سے ‘ڈھا ک کے تین پات’ جیسی ہو گئی۔ رہنے، کھانے پینے سے لے کر بات کرنے، ملاقات کرنے تک ہر جگہ کرپشن اور استحصال کا بول بالا تھا۔ بالآخر،  روپیش نے اس سلسلے میں قیدیوں کے لیے 5 مطالبات کے ساتھ صدر جمہوریہ کو ایک درخواست تحریر کی۔ 13 ستمبر کو شہید جتیندر ناتھ داس کے 93 ویں یوم شہادت پر بھوک ہڑتال کرنے کی بات بھی بتائی اور جیل کی حالت ٹھیک  نہ ہونے پر غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال پر جانے کے بارے میں بھی لکھا اور یہ درخواست جیل سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کر دی۔ نتیجہ کے طور پر، 12 ستمبر کو روپیش کو برسا سینٹرل جیل، ہوٹوار، رانچی بھیج دیا گیا، جس کے بارے میں گھر والوں کو بھی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

اب دوسرے جیل کے اندر بھی استحصال شروع ہو گیا۔ چونکہ منتقلی کے وقت پہلا جیل انتظامیہ قیدی کے بارے میں اگلے جیل انتظامیہ کو جانکاری دے دیتا ہے، نئے جیل میں اسی حساب سے اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ ہوٹوار جیل انتظامیہ کو  روپیش کی جانب سے صدر کو دی گئی درخواست اور ان کی بھوک ہڑتال کی بھی خبر مل چکی تھی۔ اس لیے یہاں روپیش کو تقریباً 8.5×7 فٹ کے کمرے میں، جس میں تقریباً 6×2 فٹ کا پختہ بیڈ بنا تھا، ایک ہفتے تک رکھا گیا۔ نہ کسی انسان کو دیکھنا (سوائےکھانادیتے ہوئےسپاہی کو دیکھنے کے)، نہ کسی سے بات ، نہ کوئی باہری نظارہ، نہ ملاقات ، نہ کال کرنے کا حق، نہ کوئی دوسری سہولت،مکمل ایک  ہفتہ ایک بند کمرے میں رات دن، بالکل تنہا۔

یہاں روپیش نے تقریباً 50 گھنٹے بھوکے پیٹ گزارے (سرائےکیلا جیل میں12 ستمبر کی صبح  10 بجے ہی کھانا کھایا تھا، پھر یہاں 14 ستمبر کو 1.30 بجے کھانا ملا)۔ پینے کا پانی مانگنے پر بتایا گیا کہ اندر لیٹرین والے  نل سے ہی  نہانا، دھونا اور پینا ہے۔ روپیش نے پانی پینے سے انکار کر دیا۔ پھر چند گھنٹوں کے بعد باہر سے بوتل میں صاف پانی لا کر دیا گیا۔ پورے ایک ہفتہ تک  کمرے سے باہر نہیں نکالا گیا، جس کی وجہ سے ان کے پیروں میں کھنچاؤ آ گیا۔ اس دوران ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں تھا،یہ بھی نہیں کہ  روپیش کہاں ہیں؟ میں اپنی سطح پر پتہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن کچھ بھی صاف نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایک دن میں نے محسوس کیا کہ میرا سر واقعی  پھٹ جائے گا۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیسی اذیت تھی۔ یہ ایک پیشہ ور مجرم کے ساتھ نہیں کیا جا رہا تھا، عوام کی زمینی حقیقت لکھنے والے صحافی کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ یہ اس وقت کیا جا رہا تھا جب انہوں نے صدر جمہوریہ کو جیل کے اندرکی  اپنی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے اپیل لکھی تھی۔

اس دوران ہم پرانے جیل میں جب ان کا سامان پہنچانے گئے تو ایک سپاہی نے بتایا کہ روپیش کو کہیں اور بھیج دیا گیا ہے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ  ہوٹوار جیل بھیجا گیا ہو گا، لیکن جب ہم ملاقات کے لیے ہوٹوار جیل (برسا سینٹرل جیل) پہنچے تو ہمیں کہا گیا کہ ابھی ملاقات کے لیے نہ آئیں اور پہلی ملاقات جوسرائےکیلا میں ہوئی تھی، اس کے17ویں دن آنے کو کہا گیا۔

میں ملاقات میں پھل لے کر گئی تھی۔ اس جیل میں گھر والے چاہیں تو ہر روز قیدی کو پھل یا کچھ چیزیں بھجوا  سکتے تھے، لیکن میرے لائے گئے پھل بھی جیل انتظامیہ نے روپیش کو نہیں بھجوائے۔ اس کی وجہ شاید روپیش کو اس  سے لاعلم رکھنا تھا کہ ہم ان سے ملنے گئے تھے، تاکہ  پنشمنٹ سیل میں رکھنے کا مقصد بہتر طریقے سے پورا  ہو ۔ 19 ستمبر کو روپیش کو پنشمنٹ سیل سے سرکلر سیل میں بھیجا گیا۔

ہمارے بیچ اس سےپہلے ہفتے میں 3 دن بات ہو رہی تھی، لیکن اب 9 ستمبر کے بعد ابھی تک نہ بات ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کے ذریعے کوئی خبر ہی ملی تھی۔ 17 ستمبر کو جیل میں ملاقات کے لیے رجسٹریشن والی کھڑکی پر کافی منت سماجت کےبعد تصویر دکھا کر متعلقہ سپاہی  نے تصدیق کی کہ اس شخص کو اس جیل میں لایا  گیا ہے اورسیل میں رکھا گیا ہے، اسی لیے 17ویں دن (جو 22ستمبر کو پورا  ہو رہا تھا)آئیے۔

بیس (20 )ستمبر کو سرائےکیلا کورٹ میں ویڈیو کانفرنسنگ کا دن تھا، جہاں روپیش نے ایک کمرے میں بند کیے جانے کے بارے میں بتایا۔ میرے لائے گئے پھلوں، جوجھولے میں بند ہونے کی وجہ سے سڑ گئے تھے، اسی دن روپیش کو دیے گئے تھے۔ دو دن بعد جب میں ملاقات کے لیے گئی تو مجھے ایک ہفتے تک کمرے میں بند کیے جانے  کی پوری بات  معلوم ہوئی۔

کافی جدوجہد کے بعد انہیں اس بند کمرے سے نکال کر سرکلر سیل میں رکھا گیا،  لیکن وہاں بھی مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے والے قیدیوں کے ساتھ۔ وہاں بھی ملاقات کے دوران روپیش نے جیل کی حالت کے بارے میں بتایا کہ انہیں سرکلر سیل (جہاں قیدیوں کے لیے 25 کمرے تھے) میں رکھا گیا تھا، جس میں روپیش کے علاوہ صرف چار اور قیدی رہتے تھے، سبھی بڑے مجرمانہ مقدمات میں ملوث تھے۔

روپیش کا کمرہ تقریباً 6×6 تھا، جس میں بیت الخلا بھی الگ تھا۔ اس کے علاوہ پورا دن گزارنے کے لیے 20×30 کا برآمدہ تھا،  جہاں پانچوں  قیدی گھوم سکتے تھے۔ پڑھنے کے لیے کتابوں کی ایک فہرست دی جاتی تھیں، جن میں اکثر مذہبی نوعیت کی ہوتی تھیں، ایک سیکولر ملک کو منہ چڑھاتی ہوئیں۔

ملک کے بڑے بڑے مصنف یا غیر ملکی مصنفوں کی کوئی کتاب شاید ہی یہاں مل سکتی تھی، باہر سے کتابیں بھیجنے کی بات پربتایا جاتا تھا کہ اندر لائبریری ہے اور باہر سے کتابیں نہیں جا سکتی ہیں۔ تاہم،  روپیش کو نہ لائبریری جانے کا حق تھا اور نہ ہی کینٹین جانے کا۔ایک پڑھنے لکھنے والے انسان کے لیےیہ واقعی میں ایک  ٹارچر چیمبر تھا۔

جب گھر والے ان سے ملنے جاتے تھے تو انہیں آنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ پوچھنے پر سپاہی  نے بتایا کہ ان کا سیل سب سے آخر میں ہے، جہاں جانے  میں وقت لگتا ہے۔

ہوٹوار میں بڑے بڑے مجرموں کو بھی عام سیلوں میں رکھاگیا تھا، لیکن ایک صحافی کو ایسے سیل میں رکھا گیا تھا، جہاں وہ ان چار قیدیوں کے علاوہ کسی اورسے مل بھی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی کہیں باہر جا سکتے تھے۔ اس سیل میں ہونے کی وجہ سے انہیں 17ویں دن پر ملنا تھا اور ہفتے میں ایک بار فون پر بات کرنی تھی۔ یہ وہی جیل تھا جہاں سنگین الزامات میں قید بااثر افراد کو موبائل فون تک استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ مسلسل جدوجہد کے بعد یہاں کھانے پینے کی صورتحال بہتر ہونے لگی اور روپیش نے یہاں ‘ماسٹرس ان جرنلزم’ اور ‘ماسٹرس ان ہسٹری’ کورسز میں اگنو میں داخلہ لے کر پڑھائی  شروع کر دی تھی۔

لیکن تب تک تیسرے جیل میں منتقلی کی تاریخ آگئی اور 17 اپریل کو روپیش کو جھارکھنڈ کے ہوٹوار جیل سے بہار کے پٹنہ کے آدرش سینٹرل جیل بیور بھیج دیا گیا۔ یہ قدم روہتاس کے ایک کیس، جسے این آئی اے نے ٹیک اوور کر لیا تھا، میں عدالت میں پیش ہونے کے بعد اٹھایا گیا تھا ۔

اس بار بھی ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔وہ تو  اتفاق سے پٹنہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیشی کے لیے جاتے ہوئے ہم روپیش کے جاننے والے ایک وکیل دوست سے ملے اور ہمیں اسی دن اس منتقلی کا علم ہوا۔ یہاں سے روپیش نے اور ان کےتقریباً 800  سے زیادہ قیدی ساتھیوں نے فلسطین پر اسرائیل کے حملوں کو روکنے اور متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے میں ملک کے فعال کردار کی حمایت اور امید میں صدر جمہوریہ کو خط بھیجا تھا۔

وہاں انہوں نے ‘ماسٹرز ان ہسٹری’ کا جون سیشن اور دسمبر میں ‘ماسٹرز ان جرنلزم’ کا امتحان بھی دیا۔

یہاں ایک غریب قیدی کو دبنگ قیدی کے ذریعے پیٹ پیٹ کر مار ڈالے جانے کے واقعہ ، جس کو ایک  حادثہ کے طور پر دکھایا گیا تھا، کےخلاف بھی  روپیش اور اس کے ساتھی قیدیوں نے احتجاج کیا اور جیل انتظامیہ کو اس کی تحقیقات کی درخواست دی۔ یہاں پڑھائی بھی چل رہی تھی، اور جیل کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے درخواستیں دینے جیسے اقدامات بھی۔

لیکن پھر چوتھی بار جیل منتقلی کا وقت آیا۔

آخرکار، 22 جنوری 2024 کو، تقریباً 8.30 بجے، روپیش کو پٹنہ سے بھاگلپور منتقل کر دیا گیا (ان کے ساتھ، 2 دیگر لوگوں کو بھی اسی خط کے ذریعے اسی الزام کے تحت منتقل کیا گیا تھا)۔ روپیش کو ٹرانسفر کے بارے میں ایک دن پہلے ہی پتہ چل گیا تھا کیونکہ اسے ایک دن پہلے ہی لے جانا تھا، لیکن آخری وقت پر گارڈ کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

اگلا دن روپیش سے بات کرنے کا دن تھا تو مجھے بھی اس کے بھاگلپور بھیجے جانے کی خبر مل گئی۔ 23 جنوری کو میں نے روپیش کے کزن سے ،جو بھاگلپور میں ہی رہتے ہیں، سے پتہ کرنے کو کہا  کہ روپیش کو کہاں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ روپیش کو شہید جبہ ساہنی سینٹرل جیل لایا گیا ہے۔

روپیش سے یہاں میری پہلی ملاقات 30 جنوری 2024 (منگل) کو ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہونے والی بات چیت  میں انکشاف ہوا کہ 23 جنوری 2024، جب روپیش کو آدرش سینٹرل جیل پٹنہ سے شہید جبہ ساہنی سنٹرل جیل بھاگلپور لایا گیاتھا، سےانہیں سیل نمبر 3 میں رکھا گیا، جہاں تقریباً 20 فٹ کی اونچائی پر  9 واٹ کا ایک بلب سیل کے ایک طرف لگا ہے، جو سیل کو برائے نام ہی پر روشن کرپاتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی،  روپیش سے ان کی ملٹن تھرمواسٹیل کی بوتل بھی لے لی گئی۔ میڈیا میں ان  باتوں کے سامنے آنے کے بعد اور متعلقہ مقامات پر میل بھیجنے کے بعد اس صورتحال کو سدھار لیا گیا۔ اس جیل میں کھانے پینے کی اشیاء میں بہت دھاندلی کی جاتی  رہی ہے۔ باہر سے کرپشن سے پاک نظر آنے والا یہ جیل پوری طرح کرپشن میں ملوث ہے۔ یہاں بھی روپیش نہ صرف اپنے لیے بلکہ تمام قیدیوں کے حقوق کے لیے بولنے اور لڑنے لگے۔ پتہ چلا کہ یہاں لائے گئے بیشتر قیدیوں کو لاتے ہی پہلے مارا پیٹا جاتا ہے، تاکہ  قیدیوں پرخوف و دہشت طاری رہے۔کئی  ساتھی قیدیوں نے یہ بات بتائی۔

یہاں ہر ملاقات میں کھانے کی ابتر حالت کا علم ہوتا تھا۔ یہاں ہماری ویڈیو کانفرنسنگ بھی نہیں کروائی جا رہی تھی اور 350 کلومیٹر دور آنے جانے  کی وجہ سےہر طرح سے پریشانی ہو رہی تھی۔

عدالت کے زبانی حکم پر صرف ایک دن (23 فروری) کے لیے ای ملاقات کروائی  گئی اور پھر اسے روک دیا گیا جو  کافی تگ و دو کے بعد دوبارہ شروع ہوا ہے۔

اس جیل میں 18 مارچ کو روپیش سے ملاقات کے دوران ہم نے ان کی آنکھوں کے رنگ میں ہلکی سی تبدیلی دیکھی، ہم نے جیل انتظامیہ کو اس بارے میں مطلع کرنے کو کہا۔ روپیش نے جیل اسپتال میں دکھایا بھی، جہاں سے انہیں باہر کے اسپتال مایا گنج ریفر کردیا گیا۔ لیکن جیل انتظامیہ نے اس معاملے میں کوئی پہل نہیں کی۔

دریں اثنا، 11 اپریل کی ملاقات میں روپیش نے بتایا تھا کہ 10 اپریل کو انہیں جیل میں ایک سیل گارڈ نے  جان سے مارنے کی دھمکی دی اور ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔ اس سلسلے میں میں نے انسپکٹر جنرل جیل اور دیگر متعلقہ حکام کو ای میل بھیجا۔ اس دوران ہفتے میں دو بار آنے والےفون بھی 8 اور کبھی 10 دن گزرنے کے بعد بھی نہیں آرہے تھےتو بعض اوقات آواز بھی نہیں آتی تھی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ کوئی تکنیکی خرابی آگئی  ہے۔

آخر کار، تمام خطرات کے باوجود، روپیش نے 7 مئی کو جیل سے ہی بھاگلپور کلکٹر (ڈی ایم) کو ایک درخواست لکھی، جس میں انہوں نے جیل میں ہونے والی تمام بدانتظامیوں کی کہانی سنائی۔ اس کی کاپی انسپکٹر جنرل جیل، چیف جسٹس، پٹنہ ہائی کورٹ، بہار کے وزیر اعلیٰ اور ہوم سکریٹری، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن اور بہار اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی بھیجی گئی۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے 3 جون کو ہوم سکریٹری کو اور 12 جون کو قومی انسانی حقوق کمیشن نے جیل کے انسپکٹر جنرل کو ایک خط بھیجا ہے۔

ساتھ ہی 29 مئی کو ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے بھی جانچ کرائی گئی تھی، جس کے بعد کچھ حد تک بہتری آئی تھی۔ روپیش اس موجودہ جیل سے  14 جون سے ‘ماسٹرس ان ہسٹری’ کے دوسرے سمسٹر یعنی فائنل ایئر کے امتحان میں بھی شامل ہوئےتھے۔

ان سب کے درمیان، پچھلے دو سالوں سے سات سال کےہونے والے ایک  بچے کی  ہر صبح اس  امید میں ہوتی ہے کہ  اس کے پاپاکو جیل سے رہائی مل جائے گی  اور وہ موٹر سائیکل سے گھر لوٹیں گے، پھر باپ بیٹا دکان سے بیٹے کی پسندیدہ شاپنگ کریں  گے اور پھر ہم مل کر خوب کھیلیں گے اور کبھی کبھی ساتھ مل کر  ماں کو بے وقوف بھی بنائیں گے۔

(اپسا شتاکشی، روپیش کمار سنگھ کی شریک حیات ہیں۔)