تذکار و تنقید: ڈاکٹر عبدالحی نے پوری اردو برادری کی طرف سے ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ یقیناً اس کتاب سے زبیر رضوی پر کام کرنے والوں کو بہت مدد ملے گی کیونکہ اس میں بہت سے وہ مضامین شامل ہیں جو پرانے بوسیدہ رسائل میں محفوظ تھے جو اب تلاش بسیار کے باوجود شاید ہی مل سکیں۔
یہ عہد فراموش کاری کا ہے۔ ہم نے انھیں بھی بھلا دیا جنھوں نے ماضی کی تاریخ، تہذیب وثقافت کو ہمارے ذہنوں میں نقش کیا۔ ہمیں فراموش کردہ افکار و اقدار کا آموختہ یاد کرایا اور عالمی ادبیات و رجحانات کے بہت سے روشن ابواب سے روبرو کرایا۔
یہ بہت المیاتی صورت حال ہے کہ وہی شخصیتیں اب ہمارے انفرادی اور اجتماعی حافظہ سے محو ہوتی جا رہی ہیں۔ ماضی بعید کی بہت سی معتبر اور مقتدر شخصیات کو ہم نے تقریباً فراموش کر دیا ہے۔ ٹریجڈی یہ ہے کہ ماضی قریب کے بہت سے ادیبوں اور فنکاروں سے ہمارا ذہنی اور جذباتی رشتہ بھی منقطع ہوگیا ہے اور ان کا علمی، ادبی اور تخلیقی سرمایہ بھی ہمارے حافظہ سے محو ہوتا جا رہا ہے۔
زبیر رضوی کے تعلق سے بھی مجھے کچھ کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ شاید گزرتے وقت کے ساتھ لوگ انھیں بھی مکمل طور پر فراموش نہ کردیں کیونکہ انھیں زندگی میں جو شہرت و مقبولیت حاصل تھی ان کی موت کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی شہرت پر گرہن لگتے جار ہے ہیں اور جو شخص کبھی شاعری کے بیشتر تنقیدی مقالوں میں مرکزی حوالے کے طو رپر نظر آتا تھا اب وہ محض اپنے حلقہ کے حوالوں میں ہی شامل ہے۔
گزشتہ چار پانچ سال کے عرصے میں نظمیہ شاعری کے تعلق سے جو مقالے شائع ہو ئے ہیں، ان میں بھی زبیر رضوی کا نام شاید باید نظر آتا ہے۔ اتنی تیزی سے تنقیدی منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا مجھے اس کی قطعی توقع نہ تھی۔
میرا یہ احساس غلط ہو سکتا ہے یا ممکن ہے صحیح ہو کہ زبیر رضوی کا حال بھی جوش ملیح آبادی جیسا ہوتا جا رہا ہے کہ جس جوش کی شاعری کی دھوم پورے برصغیر میں تھی اور جس کی مقبولیت اور شہرت کا ڈنکا بجتا تھا، جس کا کلام زبان زد خاص و عام تھا۔
وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی جوش جیسا بلند قامت شاعر عوامی ذہن و شعور سے غائب ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جوش کی عصری معنویت پر سوالات بھی کھڑے کیے جانے لگے اور انھیں ناقدین نے روایتِ پارینہ بنا دیا۔
زبیر رضوی بھی جب تک زندہ رہے ان کی شہرت کا سورج نصف النہار پر تھا اور ہر طرف زبیر رضوی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ کیا دلی، کیا حیدر آباد، کیا کشمیر کیا کنیاکماری ہر طرف زبیر رضوی کا نغمہ ’یہ ہے میرا ہندوستان‘ گونج رہا تھا۔
مشاعروں میں اتنی مقبولیت تھی کہ بیشتر مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت زبیر رضوی سمجھے جاتے تھے۔ ان کی زندگی میں ہی رسائل و جرائد میں ان کے اعترافیہ گوشے شائع ہوئے۔ رسائل کے بڑے بڑے مدیران اور مقتدر ناقدین نے ان کی شاعری پر طول طویل مضامین لکھے۔
خلیل الرحمن اعظمی، عمیق حنفی، شمس الرحمن فاروقی، باقر مہدی، فضیل جعفری، شمیم حنفی، مخمور سعیدی، محمود ہاشمی، بلراج کومل، مضطر مجاز، مہدی جعفر اور نہ جانے کتنی بڑی بڑی شخصیتیں تھیں جنھوں نے زبیر رضوی کی شاعری پر خامہ فرسائی کی۔
مگر20 فروری 2016 میں ان کی وفات کے بعد تنقیدی سطح پر تحرک میں بہت کمی محسوس کی جانے لگی اور ایسا لگنے لگا کہ نیو انڈیا میں ’یہ ہے میرا ہندوستان‘ دم توڑتا جا رہا ہے۔ جب کہ اس نغمے میں پورے ہندوستان کی آتما بسی ہوئی تھی؛
یہ ہے میرا ہندوستان
میرے سپنو ں کا جہان
ا ِس سے پیار ہے مجھ کو
غالب اور ٹیگور یہیں کے
یہیں کے میرا، کالی داس
یہیں ہورہا تھا سچائی کا گوتم کو احساس
یہیں لیا تھا ساتھ رام کے سیتا نے بن باس
یہ ہے میرا ہندوستان!
زبیر رضوی کی ’علی بن متقی‘ بھی بھلا دیے گئے۔ شاید زبیر رضوی کے تعلق سے تنقیدی رویے میں تبدیلی یوں بھی آئی ہوگی کہ زبیر رضوی آل انڈیا ریڈیو سے بہ حیثیت براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ ڈائرکٹر جیسے اعلیٰ عہدے اور منصب پر فائز تھے اور دہلی اردو اکادمی کے سکریٹری بھی رہے۔
ان کی ذات سے ادیبوں، تخلیق کاروں کی بہت سی منفعتیں بھی وابستہ تھیں۔ مگر جب منفعتوں کا یہ سلسلہ معدوم ہوگیا تو زبیر رضوی بھی لوگوں کے ذہن میں موہوم ہوتے گئے۔ ایسے میں یقیناً ایک ایسی کتاب کی شدید ضرورت تھی جس سے زبیر رضوی کے تخلیقی وجود کے تسلسل کو زندہ رکھا جاسکے اور ان کے ادبی اعمال نامہ سے اس نسل کو روشناس کرایا جائے جو ان سے مکمل طور پر واقف نہیں ہے۔
ڈاکٹرعبدالحی نے شاید فراموشی کی اس آہٹ کو بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور انھیں یہ پتہ چل گیا تھا کہ زمانہ شاید انھیں بھلا نہ دے، اسی لیے ان کی موت کے کچھ عرصے بعد ہی خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے زبیر رضوی کے تعلق سے مضامین کے جمع و ترتیب کا بیڑا اٹھایا اور شب و روز کی محنت کے بعد انھوں نے زبیر رضوی کی متنوع اور مختلف الجہات شخصیت پر پرانے رسائل و جرائد اور دیگر ذرائع سے مضامین اکٹھا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
اس عمل میں انھیں کتنی صعوبتوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ ہم لوگوں کو اچھی طرح ہے کہ اس وقت وہ قومی اردو کونسل کے شعبہ ادارت سے وابستہ تھے اور یہاں سے شائع ہونے والے چار رسائل ’سہ ماہی فکر و تحقیق‘، ’ماہنامہ اردو دنیا‘، ’ماہنامہ بچوں کی دنیا‘، ’ماہنامہ خواتین دنیا‘ کی ادارت ان کے سپرد تھی۔
بے پناہ مصروفیات کے باوجود انھوں نے ان تمام اشخاص سے رابطہ کی کوشش کی جو زبیر رضوی کے حلقہ احباب میں شامل تھے یا جنھوں نے زبیر رضوی کے حوالے سے مضامین تحریر کیے تھے، انھیں اپنی اس کوشش میں کامیابی بھی ملی اورانھوں نے زبیر رضوی کے تعلق سے اچھا خاصہ ذخیرہ اکٹھا کر لیا۔ یقیناًیہ ان کی بے پناہ محنت اور مشقت کا ہی ثمر ہے کہ بہت بیش قیمت مضامین انھیں حاصل ہوگئے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب صرف ایک زاویے یا جہت پر مرکوز و منحصر نہیں ہے۔ جہاں ان کی شخصیت کے حوالے سے مجتبیٰ حسین، سید خالد قادری، حمید سہروردی، آفتاب رضوی، رفعت عزمی، غلام نبی کمار، تالیف حیدر وغیرہ کے مضامین ہیں وہیں ان کی شاعری پر لکھنے والوں میں انتظار حسین، بانو قدسیہ، شمس الرحمن فاروقی، باقر مہدی، شمیم حنفی، ندا فاضلی، مخمور سعیدی، بلراج کومل، یوسف سرمست جیسی مقتدر ادبی ہستیاں بھی ہیں۔
زبیر رضوی کی خودنوشت ’گردشِ پا‘ بھی ایک زمانہ میں بہت مقبول اور معتوب ہوئی اور ادبی رسائل و اخبارات میں اس خودنوشت پر بہت سے منفی اور مثبت تبصرے بھی آئے۔ اس خودنوشت کی عرصے تک بہت دھوم رہی کہ اس میں زبیر رضوی نے اپنی زندگی سے جڑی ہوئی ایسی سچائیوں کو پیش کیا ہے جسے لوگ عام طور پر پردہ خفا میں رکھتے ہیں۔
اس خودنوشت کی نثر نہایت مقناطیسی اور جادوئی ہے اور جرأتِ رندانہ کی بہترین مثال بھی ہے کہ اس میں بہت سی زہرہ جبینوں کی داستانیں بلا کم و کاست بیان کی گئی ہیں۔
اس خودنوشت کے حوالے سے اسلم پرویز، محمد نوشاد عالم، تالیف حیدر کی تحریریں شامل ہیں۔ زبیر رضوی کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ ان کا مجلہ ’ذہن جدید‘ بھی ہے۔ اس تعلق سے غلام نبی کمار اور ڈاکٹر عبدالحی کی مبسوط تحریریں شامل کتاب ہیں۔ زبیر رضوی سے لیے گئے شہپر رسول، خوشنودہ نیلوفر، غضنفر اقبال کے لیے گئے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔
اس کتاب میں ذہن جدید جیسے رسالہ پر ڈکٹر عبدالحی کا خاص فوکس رہا ہے کہ یہ مجلہ بنیادی طور پر ادبی صحافت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واحد رسالہ تھا جس میں فلم، فنون لطیفہ، مصوری، موسیقی، رقص، تھیٹر اور فوٹوگرافی جیسے موضوعات کو مرکزیت عطا کی گئی تھی۔دراصل ’ذہن جدید‘ نے اس سناٹے کو توڑا ہے جو بہت سے رسائل پر عرصے سے طاری تھا۔
زبیر رضوی نے شاعری اور صحافت دونوں میں جو تجربے کیے وہ قدرو منزلت کی نگاہ سے اس لیے دیکھے گئے کہ یہ تجربے ڈَگر سے ہٹ کر تھے۔ان کے رسالہ میں عمومی راہ و روش کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ’ذہن جدید‘ نے عالمی سطح پر بہت جلد اپنی شناخت قائم کرلی اور شاید یہی وہ رسالہ تھا جو زبیر رضوی سے میری شناسائی کا بھی وسیلہ بنا۔
میں اس زمانہ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ’فلسطین کے چار ممتاز شعرا‘ محمود درویش، ابراہیم طوقان، فدویٰ طوقان، سلمیٰ خضرا الجیوسی پر ریسرچ کر رہا تھا اور مجھے فلسطینی شاعری پر مواد کی تلاش تھی۔ میں نے اس سلسلے میں دلی اور کالی کٹ تک کا سفر کیا۔ بہت سے جامعات میں بھی گیا۔ مگر مجھے خاطر خواہ مواد نہ مل سکا۔
اتفاق سے ’ذہن جدید‘ کے ایک شمارے پر نظر پڑی جس میں فلسطینی شاعری کے کچھ ترجمے تھے۔اس کے بعد سے میں ذہن جدید کا نہ صرف شدت سے انتظار کرنے لگا بلکہ میں اس مجلہ کا باضابطہ خریدار بھی بن گیا اور فلسطینی شاعری کے بارے میں زبیر رضوی سے میں نے مراسلت بھی کی۔ انھوں نے نہایت مشفقانہ اور مثبت جواب دیا۔ یہ ان کی شخصیت کا پہلا گہرا نقش تھا جو میرے دل پر ان کی وفات تک قائم رہا۔
دہلی آنے کے بعد ان سے ملاقاتوں کے سلسلے جاری رہے۔ ماہنامہ’آج کل‘ کے دفتر میں بھی ملاقاتیں رہیں اور جب مجلہ ’استعارہ‘ سے میری وابستگی ہوئی تو زبیر رضوی سے مراسم اور بھی مستحکم ہوگئے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی محبتوں میں شامل رکھا۔
میرے لیے تو ہمیشہ مخلص اور مہربان ہی رہے۔ یہ اور بات کہ صلاح بھائی سے ان کی شدید ناراضگی تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اسی زمانے میں زبیر رضوی کی خودنوشت پر پروفیسر کوثر مظہری کا ایک منفی تبصرہ استعارہ میں شائع ہوا جس سے وہ بددل ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ اکثر شام کے وقت ذاکر باغ صلاح بھائی کے فلیٹ میں بھی تشریف لاتے تھے مگر بعد میں یہ سلسلہ ٹوٹ سا گیا۔
ان تمام واقعات کے باوجود میرے ساتھ ان کا تعلق نہایت مشفقانہ اور مخلصانہ رہا۔ وہ جس محبت سے دہلی میں پہلی بار ملے تھے اسی والہانہ جوش کے ساتھ آخر وقت تک ملتے رہے۔ ان کے گھر آنے جانے کا سلسلہ بھی جا ری رہا۔ ٹیلی فون پر بھی باتیں ہوتی رہیں اور جب قومی اردو کونسل سے وابستگی ہوئی تو یہاں بھی کئی ملاقاتیں رہیں۔
زبیر رضوی وسیع النظر شاعر تھے۔ دامن، خشت دیوار، لہر لہر ندیا گہری، مسافت شب، پرانی بات ہے، دھوپ کا سائبان، انگلیاں فگار اپنی، سبزہ ساحل کے ذریعے انھوں نے شعری منظرنامے پر اپنی مضبوط شناخت قائم کی تھی۔
فنون لطیفہ پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی، خاص طور پر مصوری، موسیقی اور تھیٹر سے خاص دلچسپی تھی۔ غالب اور فنون لطیفہ، عصری ہندوستانی تھیٹر، آزادی کے بعد اردو اسٹیج ڈرامے، اردو فنون اور ادب، ہندوستانی سنیما: سو برسوں کا سفر، ترقی پسند اور ان کے معاصر پینٹر اس کا ثبوت ہیں۔
وہ انگریزی رسائل و اخبارات سے مصوری، موسیقی، تھیٹر اور فلم سے متعلق مضامین کے ترجمے کرتے تھے اور اردو قارئین کی معلومات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کرتے۔
اردو سے ان کا بہت ہی گہرا ذہنی اور جذباتی لگاؤ تھا اور شاید اردو سے ان کی بے پناہ محبت ہی تھی کہ دہلی اردو اکیڈمی میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
ڈاکٹر عبدالحی کی مرتب کردہ کتاب پڑھتے ہوئے زبیر رضوی کی شخصیت کے کئی ابعاد روشن ہوئے۔ وہ نظمیہ شاعری کے ایک معتبر نام تھے اور ایک زمانے میں ان کی نظم ’علی بن متقی‘ کی بڑی دھوم تھی۔ یہ شاید واحد ایسی نظم تھی جو نہ صرف ان کی شناخت کا مضبوط حوالہ بنی بلکہ ’علی بن متقی‘ایک معروف نظمیہ کردار بن گیا جس کے حوالے سے کئی اور نظمیں بھی لکھی گئیں۔
ان کے کئی شعری مجموعے ادبی حلقوں میں موضوع بحث بھی بنے اور تمام ناقدین نے زبیر رضوی کی شاعرانہ انفرادیت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ یقیناً زبیر رضوی کا لب و لہجہ ان کے معاصرین سے مختلف اور منفرد تھا اور اسی وجہ سے انھیں صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان اور اردو کی نئی بستیو ں کے ادبی حلقوں میں بھی وقارو اعتبار حاصل ہوا۔
مشاعرے کے حوالے سے بھی زبیر رضوی کی ایک الگ پہچان تھی۔ وہ مشاعروں کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے، اسی لیے وہاں ان کے شعروں کا انتخاب ادبی شاعری سے ذرا مختلف بھی ہوا کرتا تھا۔ ان کے اس طرح کے شعر کالج کے طلبا/طالبات اور عوام میں بہت مقبول ہوئے؛
زبیر چھوڑ کے اب رام پور آجاؤ
اداس دیکھی ہیں دلی کی لڑکیاں ہم نے
وہ دور بھی تھا اپنا جب شوق ہمیں بھی تھا
کالج کی کتابوں پہ لڑکی کا پتہ لکھنا
مگر زبیر رضوی کا اصل تخلیقی جوہر ان کی ادبی شاعری ہے جو رسائل اور کتابوں میں موجود ہیں۔
زبیر رضوی کا تعلق امروہہ جیسی مردم خیز زمین ممتاز علمی خانوادے سے ہے۔ زبیر رضوی کے نام کی وجہ سے عموماً بہت سے لوگوں کو یہ اشتباہ رہا ہے کہ شاید وہ شیعہ ہیں یا بریلوی مکتب فکر سے ان کا تعلق ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ زبیر رضوی دراصل مولانا احمد حسین محدث امروہوی کے پوتے تھے جو یک از بانیانِ دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے شاگردِ رشید اور شیخ الہند مولانا محمود حسن کے معاصر تھے۔
زبیر رضوی ادب کا ایک بڑا نام ہے جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں تو کیا گیا۔’متاعِ سخن‘ کے عنوان سے پروفیسر اسلم پرویز نے زبیر رضوی کے ادبی سفر کا ایک ادبی جائزہ پیش کیا تھا جس میں ان کی تمام نگارشات کے حوالے سے مقتدر ناقدین نے تحریریں اور تاثرات شامل تھے ۔
اور بہت سے رسائل نے ان پر گوشے بھی شائع کیے تھے، خاص طور پر حسیب سوز، خان فہیم نے سہ ماہی ’لمحے لمحے‘ بدایوں کا ایک گوشہ شائع کیا تھا جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوا، مگر زبیر رضوی کا کارنامہ بہت وقیع اور وسیع ہے، اس لیے عصری جامعات میں انھیں تحقیقی مقالوں کا موضوع بنایا جانا چاہیے اور بہت ممکن ہے کہ کچھ یونیورسٹیز میں ان پر تحقیقی اور تنقیدی کام بھی ہو رہے ہوں گے۔
پھر بھی ضرورت ہے کہ ان کے مکمل ادبی اور علمی کارناموں سے اردو دنیا کو روشناس کرایا جائے۔
ڈاکٹر عبدالحی نے پوری اردو برادری کی طرف سے ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ یقیناً اس کتاب سے زبیر رضوی پر کام کرنے والوں کو بہت مدد ملے گی کیونکہ اس میں بہت سے وہ مضامین شامل ہیں جو پرانے بوسیدہ رسائل میں محفوظ تھے جو اب تلاش بسیار کے باوجود شاید ہی مل سکیں۔
اس کے علاوہ زبیر رضوی کا اچھا خاصہ غیر مطبوعہ تخلیقی اور ادبی سرمایہ بھی ہے۔ جس تک رسائی شاید اب آسان نہ ہو۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر عبدالحی کی کتاب زبیر رضوی کے تعلق سے جامع اور مکمل ہے کہ اس میں زبیر رضوی کی ادبی، علمی اور صحافتی خدمات کے تمام پہلوؤں کا مکمل استقصا کیا گیا ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جو تشنہ رہ گیا ہو۔ ڈاکٹر عبدالحی نے اس کتاب کے لیے بڑی عرق ریزی کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ ریاضت رائیگاں نہیں جائے گی۔یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ وفورِ محبت و عقیدت اور قدر شناسی کاایک روشن باب ہے۔