اتر پردیش حکومت کے نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے تمام ریستورانوں اور کھانے پینے کی دکانوں کو آپریٹروں، مالکان، منیجروں اور ملازمین کے نام اور پتے لکھنے ہوں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ قدم کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
یوگی آدتہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/MYogiAdityanath)
نئی دہلی: وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے منگل (24 ستمبر) کو ایک نیا فرمان جاری کرکے ایک بار پھر نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس نئے فرمان کے مطابق، اب اتر پردیش کے تمام ریستورانوں اور کھانے پینے کی دکانوں کو آپریٹرز، مالکان، منیجروں اور ملازمین کے نام اور پتے نمایاں طور پر ظاہر کرنے ہوں گے اور اس حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی جانب سے تصدیقی مہم بھی چلائی جائے گی۔
ہندوستان ٹائمز رپورٹ کے مطابق، حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ قدم کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ حکومت کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے اس حکم امتناعی کے تقریباً دو ماہ بعد آیا ہے، جس میں ریاستی حکومت نے کانوڑیاترا کے روٹ پر واقع کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے تمام دکانداروں سے اپنی دکانوں پر اپنا نام اور ملازمین کا نام لکھنے کو کہا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس حکم کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ بنیادی تشویش کھانے کی قسم پر ہونی چاہیے نہ کہ اسے تیار کرنے یا بیچنے والوں کی کمیونٹی کے بارے میں۔
معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ دکان کے مالکان یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے یہاں کس قسم کا کھانا پیش کیا جاتا ہے، لیکن انہیں دکان پر اپنا اور اپنے ملازمین کا نام اور ذات لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم، حکومت کی جانب سے منگل کو دوبارہ اسی طرح کا فرمان جاری کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں، سی ایم آدتیہ ناتھ نے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی اور ریاست کے تمام ہوٹلوں، ڈھابوں، ریستورانوں اور کھانے پینے کی دکانوں کی مکمل جانچ اور تصدیق کی ہدایت دی۔ میٹنگ کے بعدیوپی حکومت کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے عام لوگوں کی صحت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے پر بھی زور دیا۔
بیان کے مطابق، ‘ ڈھابوں اور ریستورانوں جیسی کھانے پینے کی جگہوں کو اچھی طرح سے چیک کرنا ضروری ہے۔ ان اداروں کے آپریٹرز سمیت تمام ملازمین کی تصدیق کے لیے ریاست گیر مہم چلائی جائے۔ اس تصدیقی عمل کو فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن، پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مشترکہ ٹیم کے ذریعے تیزی سے مکمل کیا جانا چاہیے۔‘
اپوزیشن نے اٹھائےسوال
ریاستی حکومت کے اس تازہ فرمان نے ایک بار پھر تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کو توجہ ہٹانے کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔
اس فرمان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یوپی کانگریس کمیٹی کے سربراہ اجئے رائے نے کہا، ‘یہ فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت وہ کام نہیں کر پا رہی ہے جس کے لیے اسے منتخب کیا گیا تھا۔ پولیس ویریفکیشن کے نام پر اب غریبوں کوپریشان کیا جائے گا۔ تعمیل کے نام پر چھوٹے دکانداروں سے جبراً وصولی کی جائے گی۔‘
سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی نے بھی اس فرمان کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ملاوٹ کو ختم کرنے اور اشیائے خوردنوش کی کوالٹی کو برقرار رکھنے کے اقدامات ضروری ہیں۔ لیکن ڈھابے اور ریستوراں مالکان کے نام اور دیگر تفصیلات لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے کون سا مقصد پورا ہوگا؟ یہ اور کچھ نہیں بلکہ اس سے قبل جاری کیے گئے احکامات کی واپسی ہے جس کے تحت میوہ فروشوں اور ڈھابہ مالکان سے اپنا نام ظاہر کرنے کو کہا گیا تھا۔‘
واضح ہو کہ حکومت کا یہ فیصلہ ان بے بنیاد الزامات پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے پس منظر میں آیا ہے، جس میں کہا جا رہا تھا کہ کچھ دکاندار مبینہ طور پر کھانے پر تھوک رہے تھے یا پھلوں کے جوس میں پیشاب ملا رہے تھے۔
اسی طرح کے ایک معاملے میں 11 ستمبر کو سہارنپور پولیس نے ایک وائرل ویڈیو کے بعدایک ہوٹل کے ملازم کو وقت گرفتار کیاتھا، جس میں مبینہ طور پر اسے روٹیوں پر تھوکتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اسی دوران 14 ستمبر کو غازی آباد میں ایک جوس بیچنے والے اور اس کے آؤٹ لیٹ پر کام کرنے والے ایک 15 سالہ لڑکے کو بھی جوس میں پیشاب کی ملاوٹ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دکان سے پیشاب سے بھرا پلاسٹک کا کین برآمد کیا ہے۔
اس سلسلے میں 19 ستمبر کو گورکھپور کے رام گڑھ تال میں ایک فلوٹنگ ریستوراں کا افتتاح کرتے ہوئے سی ایم آدتیہ ناتھ نے اس تنازعہ کا حوالہ دیا تھااورکہا تھا ،’یہ اچھی بات ہے کہ یہاں کے لوگوں کو کم از کم ہاپوڑ والا جوس نہیں ملے گا اور نہ ہی تھوک والی روٹیاں دی جائیں گی،یہاں جو کچھ بھی پیش کیا جائے گا وہ خالص ہوگا۔‘
چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے منگل کو فوڈ سیفٹی اور کوالٹی سے متعلق کئی رہنما خطوط جاری کیے، جس میں انہوں نے کہا کہ اس حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز ایکٹ میں ضروری ترمیم کی جانی چاہیے۔
حالیہ تنازعہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں سے جوس، دال اور روٹی جیسی کھانے پینے کی اشیاء میں انسانی فضلہ یا غلاظت کی ملاوٹ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ حرکتیں گھناؤنی ہیں اور صحت عامہ کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اس طرح کے بدنیتی پر مبنی عمل مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ اتر پردیش میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیےفوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے اور عام آدمی کی صحت کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیے۔
انہوں نے عہدیداروں سے کہا کہ سی سی ٹی وی کیمرے نہ صرف ان علاقوں میں نصب کیے جائیں جہاں گاہک کھانا کھاتے ہیں بلکہ دکانوں کے دیگر حصوں میں بھی۔
بیان کے مطابق، ‘یہ ضروری ہے کہ ہر آپریٹر سی سی ٹی وی فوٹیج کی سکیورٹی کو یقینی بنائے اور درخواست پر اسے پولیس یا مقامی انتظامیہ کو فراہم کرائے۔’
اسے عوامی حفظان صحت اور تحفظ کا سوال قرار دیتے ہوئے سی ایم نے کہا، ‘کھانے پینے کی تمام جگہوں پر صفائی کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کھانا تیار کرنے اور پیش کرنے میں شامل تمام اہلکار ماسک اور دستانے پہنیں، اس میں لاپرواہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عوام کی صحت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ ‘جو بھی صحت عامہ کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ عملیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیائے خوردونوش کی پیداوار، فروخت اور دیگر متعلقہ سرگرمیوں سے متعلق قوانین کو مزید سخت بنایا جانا چاہیے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
تاہم اپوزیشن لیڈروں نے اس فرمان کو اس منطق کی توسیع قرار دیا جس میں کانوڑ یاترا کے دوران پہلی بار کھانے پینے والوں کے مالکان کی تفصیلات ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
پہلے اتر پردیش پھر اتراکھنڈ اور پھر مدھیہ پردیش کی حکومتوں کی جانب سے منظور کیے گئے ان ہدایات کا مبینہ طور پر مقصد ہندو تیرتھ یاتریوں کی غذائی ترجیحات کا احترام کرنا اور کانوڑ یاترا کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنا تھا۔
اس فیصلے کی سخت تنقید کی گئی تھی اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ضرورت سے زیادہ سرکاری اختیارات اور ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو فروغ دینے والا قرار دیا تھا۔ انہوں نے ممکنہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور کچھ گروہوں، خاص طور پر مسلمانوں، جو یاترا کے روٹ میں بہت سے کھانے پینے کی جگہوں کے مالک ہیں، کو الگ کرنے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔