مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے کے بعد بلقیس نے کہا – جو غلط ہے، اس  کے خلاف پھر لڑوں گی

01:47 PM Dec 06, 2022 | دی وائر اسٹاف

بلقیس بانو نے 2002 کے گینگ ریپ  اور قتل معاملے میں 11 مجرموں کوسزا میں چھوٹ  اور ان کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی  سزا   پر فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات  میں  2002 کے دنگوں  کے دوران گینگ ریپ  کی سروائیور بلقیس بانو نے سپریم کورٹ  میں ان کے ساتھ ہوئے جرائم کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘جو غلط ہے اور جو صحیح ہے، اس کے لیے میں پھر سے لڑوں گی۔’

بتادیں کہ 2002 کے متعلقہ جرائم  کے وقت بانو 21 سال  کی تھیں اور پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔ ان کے خاندان کے 14 افراد کے ساتھ ان کی تین سالہ بچی  کو بھی تشدد کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔

بانو نے 2002 کے گینگ ریپ  اور قتل معاملے  میں مجرموں کو سزا میں چھوٹ دینے اور ان کی رہائی کو چیلنج کرتے ہوئے بدھ کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی  دائر کی ہے ۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے پہلے دیے گئےاس  فیصلے پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی سزا کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

انھوں نے جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا، ‘ایک بار پھر کھڑے ہو نے اور انصاف کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ میرے لیے آسان نہیں تھا۔ میرے پورے خاندان اور میری زندگی کو تباہ کرنے والے لوگوں کی رہائی کے بعد، میں لمبے عرصے تک صدمے میں تھی۔ میں اپنے بچوں، اپنی بیٹیوں اور سب سے بڑھ کر امید کے کھو جانے سے مفلوج ہو گئی تھی۔

بانو نے کہا کہ ان کی  خاموشی کے دوران انہیں ملک کے مختلف حصوں سے حمایت کی آوازیں ملیں، جن سے انہیں امید جگی ہے، اور انہیں احساس کرایا گیا  کہ وہ اپنے دکھ میں تنہا نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ اس حمایت کا ان کے لیے کیا مطلب ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں سے ملنے والی حمایت نے ان کا انسانیت پر بھروسہ  دوبارہ بحال کیا ہے اور انصاف کے تصورپر دوبارہ یقین کرنے کے لیے ان کے حوصلہ کو نئی طاقت ملی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اس لیے، میں ایک بار پھر کھڑی ہو کر لڑوں گی،اس کے خلاف جو  غلط ہے  اور  جوصحیح ہے۔ میں آج  اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور ہر جگہ کی خواتین کے لیے یہ کر رہی ہوں۔

بتادیں کہ مجرموں کو 15 اگست 2022 کو یوم آزادی کے موقع پر 2002 میں ہوئے  بلقیس بانو گینگ ریپ  اور اس کی بچی سمیت خاندان کے سات افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے  تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کر دی گئی تھی اور ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما کی طرف سے قصورواروں کی رہائی کے خلاف ایک پی آئی ایل دائر کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا تھاکہ قصورواروں کو مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا۔ گجرات حکومت نے کہا تھا کہ اس فیصلے کو مرکزی وزارت داخلہ نے منظوری دی تھی، لیکن سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ، ممبئی اور سی بی آئی عدالت نے سزا معافی کی مخالفت کی تھی۔

اپنے حلف نامے میں حکومت نے کہا کہ ،ان کا [مجرموں کا] سلوک اچھا پایا گیا تھا، اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  قید میں  چودہ سال گزار چکے تھے۔

  تاہم، ‘اچھے سلوک’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پر پیرول کے دوران کئی  الزام لگے تھے۔

ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ، 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ  اور اس کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 قصورواروں میں سے کچھ کے خلاف پیرول پر باہر رہتے ہوئے ‘عورت کی توہین’ کے الزام میں ایک  ایف آئی آر درج کی گئی اور دو شکایتیں بھی پولیس کو موصول ہوئی تھیں۔ ان پر گواہوں کو دھمکانے کا  الزام  بھی لگاتھا۔

دریں اثنا، مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے سزا معافی کے خلاف دائر عرضیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے اس کو ‘غیر عملی اور سیاسی’ بتایا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اسی رادھے شیام شاہ پر کچھ دن پہلے کیس کے ایک اہم گواہ کو دھمکانے کا بھی الزام لگاتھا۔ اس کیس کے کلیدی گواہ امتیاز گھانچی نے اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کو خط لکھا تھا جس میں اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

گھانچی نے اپنی جان کو لاحق خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے گجرات کے ہوم سکریٹری اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی ایک کاپی بھیجی تھی۔

بی جے پی لیڈروں نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی

گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے چندر سنگھ راؤل جی گجرات حکومت کی اس کمیٹی کے چار ارکان میں سے ایک تھے جس نے بلقیس بانو کے ساتھ  ریپ  اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے 11 مجرموں  کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اتنا ہی نہیں، راؤل جی نےبےحد متنازعہ تبصرہ کرتے ہوئے اس فیصلے کادفاع بھی کیاتھا۔

ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھاکہ 2002 کے گجرات فسادات کے اس معاملے میں قصورواروں میں شامل کچھ لوگ’برہمن’ ہیں جن کے اچھے ‘سنسکار’ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان کو پھنسایا گیا ہو۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے گناہ  ہوں کیوں کہ فرقہ وارانہ صورتحال میں ایک کمیونٹی کی طرف سے دوسری کمیونٹی  کے بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جیل میں قیدیوں کا برتاؤ اچھا تھا۔

راؤل جی چھ بار گودھرا سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور اس بار بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر گودھرا سے ہی  میدان میں ہیں۔

اکتوبر کے مہینے میں مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے بھی مجرموں کے دفاع میں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں اچھے برتاؤ کی وجہ سے رہا کیا گیا تھا۔

ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے سے بات کرتے ہوئے، پارلیامانی امور اور کوئلہ کے وزیر نے کہا، جو بھی ہوا ہے، وہ قانون کے اہتماموں کے مطابق ہوا ہے۔ کسی بھی شخص کو ایک خاص وقت جیل میں گزارنے کے بعد رہا کرنے کا اہتمام ہے۔ اس معاملے میں وہی قاعدہ اختیار کیا گیا ہے جو پوری طرح سے قانون کے مطابق ہے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)