راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونے کے بعد سے بننے والے ماحول میں کانگریس اس نئی اور مثبت شبیہ کی مدد سے صرف اپنے آپ کو اور مضبوط کر سکتی ہے۔ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ بنائے اور کسی بھی اپوزیشن محاذ میں خود کو مرکزی رول دیے جانے کے مطالبے کو آڑے نہ آنے دے۔
سورت کی مجسٹریٹ عدالت کی جانب سے ہتک عزت کے ایک معاملے میں مجرم ٹھہرائے جانے کے ایک دن بعد لوک سبھا سکریٹریٹ نے راہل گاندھی کی پارلیامنٹ رکنیت ختم کردی۔ ان کو قصوروار ٹھہرائے جانے سے پہلے کی پیش رفت قدرے عجیب ہے کہ – جس شخص نے راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، اس نے خود اس کیس میں روک لگانے کی اپیل کی تھی، لیکن اس سال فروری میں اس نے یہ عرضی واپس لے لی۔ عدالت نے تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے راہل گاندھی کو دو سال قید کی سزا سنا دی۔
اب راہل گاندھی کو ایک ماہ کے اندر اپنا سرکاری بنگلہ خالی کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اگر حکام کی مرضی ہو تو یہ واقعی بہت تیزی سے کام کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسی تیزی سے ا ن کو جیل بھی بھیج دیں گے؟
راہل گاندھی سے چڑیا خوف کی وجہ سے بی جے پی نے انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش شروع کردی ہے تاکہ وہ اگلے الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں۔ یہ برسوں سے انہیں ‘پپو’ کہنے اور ا ن کو غیر متعلق کہہ کر مسترد کرنے کی پوری مشق کے باوجود ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ مقتدرہ جماعت جس کے پاس پارلیامنٹ میں ناقابل شکست اکثریت حاصل ہے اور جس کے پاس ووٹ دلانے والا لیڈرہے ، ان سے ڈرتا ہے۔ یہ آمرانہ حکومت نہیں ہے–یہ ڈری ہوئی سرکار ہے۔
اور راہل پر اپنی پوری طاقت سے حملہ کرکے حکومت نے شاید انہیں اور زیادہ طاقتور بنا دیا ہے – اور اگر انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے، تو وہ ایک بہت بڑے نمائندہ کے طور پر ابھریں گے، جس کی مدد سے پوری پارٹی متحد ہوجائے گی۔
راہل گاندھی کو پارلیامنٹ سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کی مذمت صرف کانگریس نے نہیں کی، بلکہ پنارائی وجین سے لے کر اکھلیش یادو اور اروند کیجریوال تک کئی اپوزیشن لیڈروں نے اس کی مذمت کی ہے۔ یہ کسی بھی معاملے پر اپوزیشن کی طرف سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا بہت ہی کمیاب موقع ہے۔
کیا اسے 2024 سے پہلے بی جے پی کے خلاف ایک محاذ بنانے کی سمت ایک نیک شگون مانا جا سکتا ہے اور کیا یہ اتحاد پائیدار ثابت ہو گا؟ اور کیا اس سے کانگریس کو فائدہ ہوگا؟
جنوری میں راہل گاندھی کی قیادت میں تقریباً پانچ ماہ لمبی بھارت جوڑو یاترا پوری ہوئی۔ اس سے ان کے اور ان کی پارٹی کے حق میں بہت مثبت ماحول بنا۔ یہ اور بات ہے کہ مین اسٹریم میڈیا نے یاترا کو پورے طور پر نظر انداز کیا یا کسی بھی طرح ان کا مذاق بنانے کی کوشش کی۔
راہل گاندھی نے ‘حقیقی ہندوستان’ سے جڑنے کے عزم کے ساتھ اپنی یاترا کی اور اس یاتراکے ہر قدم پر سینکڑوں پرجوش حامیوں کا ایک کارواں ان کے قدم سے قدم ملاتا ہوا نظر آیا۔ یاترا کے اختتام پر کشمیر کے لال چوک پر ہندوستانی قومی پرچم لہراناعلامتی طور پربہت بڑی بات تھی۔ کانگریس نے یہ دعویٰ کیا کہ یاترا نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے۔
فروری میں راہل گاندھی نے پارلیامنٹ میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے ساتھ میں بیٹھے نریندر مودی اور گوتم اڈانی کی تصویر لہراتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ دونوں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ اس تبصرے کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے ایوان کے ریکارڈ سے خارج کردیا۔
اس کے فوراً بعد وہ انگلینڈگئے، جہاں انہوں نے اراکین پارلیامنٹ، صحافیوں اور این آر آئی سے ملاقات کی۔ بی جے پی نے ہندوستان کی جمہوریت کو بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری کی ‘مداخلت’ کی ضرورت پر دیے گئے ان کے ایک مبینہ بیان پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ حقائق بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، لیکن یہ جھوٹ بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشین نے پوری طاقت سے پھیلایا اور دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے ہندوستان کی توہین کی ہے۔
یہ واضح تھا کہ راہل گاندھی بی جے پی کے لیےپریشانی کا باعث بن رہے ہیں اور ان کی نااہلی کے بعد انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ پارلیامنٹ میں اڈانی کے ساتھ مودی کے تعلقات پر آواز اٹھائی جائے۔
آج کے دور میں راہل گاندھی واحد سیاست دان کے طور پر ابھرکر سامنے آئے ہیں جو نریندر مودی سے براہ راست دو دو ہاتھ کرنے اور ان کے کمزور اعصاب پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ گاندھی کی تقریر کے بعد پارلیامنٹ میں حکمراں پارٹی نے خلل ڈالا، جو کہ کافی عجیب ہے، کیونکہ پارلیامنٹ میں ہنگامہ کرنے کا کام عام طور پر اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ بہت پرجوش نظر آئے – حالانکہ ان کی طرف سے ایک صحافی کی توہین کرنا ،بالکل غیر مناسب تھا۔ وہ ایسی باتیں کہنے کے لیے تیار ہیں جو دوسرے نہیں کہیں گے یا نہیں کہہ سکتے۔ اور سب سے بڑی بات – ان کی ایک قومی شناخت ہے۔
کیا یہ اپوزیشن کو متحد کرے گا؟
اس مقام سے کانگریس اس نئے اور مثبت امیج کی مدد سے اپنے آپ کو اور زیادہ مضبوط کر سکتی ہے۔ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ بنائے اور کسی بھی اپوزیشن محاذ میں خود کو مرکزی کردار دیے جانے کے مطالبات کو آڑے نہ آنے دے۔
وہ چاہے گی کہ ایسےکسی محاذ کی قیادت راہل گاندھی کو دی جائے۔ ایک قومی پارٹی ہونے کے ناطے اور اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی ہونے کے ناطے – یہ ایک حد تک قابل فہم بات ہے۔ اس کے پاس لوک سبھا میں بی جے پی کے بعد دوسری سب سے زیادہ سیٹیں ہیں – حالانکہ یہ محض 50 سے کچھ زیادہ ہے۔
کچھ مبصرین نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ واقعات ان کی قیادت کے پیچھے اپوزیشن کو متحد کر دیں گے اور انتخابات میں مودی کو ایک مشترکہ چیلنج دیں گے۔ خاص طور پر اگر انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
لیکن کیا اپنی سیاسی زمین کو ہر قیمت پر بچانے میں مصروف علاقائی جماعتیں اس کے لیے تیار ہوں گی؟ سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو، جنہوں نے ماضی میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا ہے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کانگریس نے پہلے لچیلا پن نہیں دکھایا ہے۔ 2019 میں پارٹی نے مہاراشٹر میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور رضاکارانہ طور پر مہاوکاس اگھاڑی میں، شیو سینا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بعد تیسرے نمبر کے پارٹنر کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ لیکن قومی سطح پر وہ اس چیز کے لیے تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں کانگریس پر گھمنڈی ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔ کیا یہ اس امیج سے آزاد ہو سکتی ہے؟
کانگریس کے تھنک ٹینک کو اب ایک ایسی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جو راہل گاندھی کو مرکز میں رکھتے ہوئے بھی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کی گنجائش رکھتی ہو، تاکہ مقامی سطح پر بی جے پی کو چیلنج کرنے کے لیے ایک مشترکہ محاذ بنایا جاسکے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن میں کانگریس کے دوست نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ اور بھی آ سکتے ہیں۔
دوسری طرف، کٹر کانگریس مخالف پارٹیوں کو بھی کانگریس مخالف اپنے پرانے راگ کو ترک کرنا ہوگا اور بڑی پارٹی کے ساتھ کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ کیا ندی کے دوکنارے آپس میں مل سکتے ہیں؟
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)