پارلیامنٹ کے ذریعےزرعی قانون کو رد کرنے سے کسانوں کی کوئی مانگ پوری نہیں ہوگی وہ بس وہیں پہنچ جا ئیں گے، جہاں وہ اس قانون کےبنائے جانے سے پہلے تھے۔
کسانوں اورسرکار کے بیچ ایک سال سے زیادہ چلی رسہ کشی کے بعد وزیر اعظم نے سب کو حیران کرتے ہوئے 19تاریخ کی صبح گروپرب کے موقع پر ایک لمبی جدوجہدکی وجہ رہےزرعی قوانین کورد کرنے کے اپنی سرکار کےمنصوبے کا اعلان کیا۔
عجلت میں لایا گیابل
جون2020، جب کورونا وائرس کی پہلی لہر اپنےعروج پر تھی، سرکار نے آرڈیننس کے راستے سے تین زرعی قوانین کونافذکیا تھا۔ کسانوں نے اس کے ٹھیک بعد سے اپنا احتجاج شروع کر دیا۔
اتنےاہم مسئلے پر آرڈیننس لانے کی اتنی کیا عجلت تھی؟ واضح طور پر پر کارپوریٹ سیکٹر کی مدد کرنا اس سرکار کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے اور ایک ایسےوقت میں جب احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں تھی، اس قانون کو تھوپا جا سکتا تھا۔پارلیامنٹ کےاگلے اجلاس میں سرکارمناسب بحث کے بغیر ہی اس آرڈیننس کی جگہ لینے کے لیےبل لےکر آئی۔
سوال پھر اٹھتا ہے کہ جب ان قوانین کے خلاف مظاہرےشروع ہو چکے تھے، تب ان بلوں کو اتنی عجلت میں لانے کے لیے سرکار اتنی بے چین کیوں تھی؟ ایک بار پھر اسے ایک موقع کے طور پر دیکھا گیا۔ کسانوں نےاپنی تحریک کو تیز کر دیا اور نومبر، 2020 میں اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے دہلی کے بارڈر کی جانب کوچ کیا۔
انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اپنے صوبوں میں مظاہرہ کرنے سے ان کی خبر کوئی نہیں لےگا اور اپنی بات سنانے کےلیےانہیں دہلی جانا ہوگا۔ وہ رام لیلا میدان میں احتجاج کرنا چاہتے تھے، لیکن انہیں دہلی کے بارڈر پر روک دیا گیا اور پچھلےتقریباًایک سال سے وہ وہیں ہیں۔
پارلیامنٹ میں ان قوانین کو رد کرانے کا حالیہ اعلان کسانوں کی ایک جیت ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ موجودہ حکومت اپنی غلطیوں کوتسلیم نہیں کرتی ہے اور اپوزیشن اور جمہوری آوازوں کی ذرا بھی پرواہ کیے بغیر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے کوئی گریز نہیں کرتی۔
مثال کےطور پر، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذکی غلطیوں کے بارے سب کو پتہ تھا، لیکن سرکار اپنی غلطی مانے بغیر ان راستوں پر آگے بڑھتی گئی۔ کورونا سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر لگائے گئے لاک ڈاؤن کےباعث معیشت تباہ ہو گئی اور یہ صاف تھا کہ مانگ میں کمی ہے اور غریبوں کے ہاتھوں میں پیسے کی سخت ضرورت ہے،لیکن سرکارسپلائی سینٹرک پالیسیوں کے طور پر اپنے کاروباری ایجنڈہ کو آگے بڑھاتی رہی۔
پہلی پالیسی مداخلت ایک قلیل مدتی طریقہ ہی ہوتا، لیکن اس کا فوراً اثر پڑتا، جبکہ دوسرا ایک طویل مدتی طریقہ ہے جس کے کامیاب ہونے کے لیے مانگ میں بہتری ہونا ضروری ہے۔ لیکن سرکار نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی ہے۔
انتخابی مجبوریوں کی وجہ سےقلب ماہیت
تو کیا کسانوں کو جشن میں ڈوب جاتے ہوئے اپنی تحریک کو واپس لے لینا چاہیے؟ کسان لیڈروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ قدم شمالی ہند،بالخصوص اتر پردیش کے بےحد اہم انتخاب کے مد نظر اٹھایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ایک حالیہ بیٹھک میں آر ایس ایس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اتر پردیش انتخاب بےحداہم ہے اور کسانوں کی تحریک کے باعث ہو رہے نقصان کو کم کرنے کے لیے اس مسئلے کا جلد از جلدحل تلاش کیا جانا چاہیے۔
بی جے پی نے یہ محسوس کیا کہ اگر وہ اتر پردیش گنوا بیٹھتی ہےتو 2024 میں اس کےامکانات کو کافی نقصان پہنچےگا۔
واضح طور ر پر سرکار کی قلب ماہیت کے پیچھے کی وجہ انتخابی ہے، نہ کہ اس نے کسانوں کی یہ دلیل تسلیم کر لی ہے کہ تین زرعی قانون اصلاحی نہ ہوکر، ان کی بربادی کا وارنٹ ہیں۔ یہ قانون ان کی حالت کو بہتر کرنےکے بدلے، اسے اور بگاڑ دیں گے۔ ان کامارکیٹائزیشن اور زراعت کے کارپوریٹائزیشن کو بڑھاوا دینے کے لیے کیا گیا ہے جس کاواحد نتیجہ زیادہ تر کسانوں کی حالت کو اور خراب کرنے کے طور پر ہی نکل سکتا ہے۔
چھوٹے اورمعمولی کسانوں پر اپنی زمین گنوانے اور اپنے ہی کھیت میں مزدور بن جانے کا خطرہ درپیش ہوگا۔ چونکہ میکانائزیشن میں اضافہ کے باعث ملک میں غیر زرعی روزگار پیدا ہونا کافی کم ہو چکا ہے، اس لیے ان نئےمزدوروں کی حالت موجودہ وقت کے ان کےمعمولی کسان بھائیوں سے بھی بدتر ہو جائےگی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ایک طرز زندگی کو تباہ کر دےگی۔
ایسا نہیں ہے کہ کسان اپنی موجودہ حالت میں بہتری نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تین زرعی قانون ان کی پہلے سے ہی خراب حالت کو اور خراب کر دیں گے۔ ایسے میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ وہ اتنے لمبےوقت سے پورے جی جان سے ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کسانوں کے احتجاجی مظاہرے نئے نہیں ہیں۔2019 کے قومی انتخابات سے پہلے بھی مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، دہلی کے آس پاس اور دوسری جگہوں پر کسانوں کے بڑے مارچ ہوئے تھے۔منافع بخش قیمتیں، ایم ایس پی کی گارنٹی اور اےپی ایم سی کی منڈیوں کو جاری رکھنا، ان کی مانگیں رہی ہیں اور ان قوانین سے ان میں سے کوئی بھی مانگ پوری نہیں ہو رہی تھی۔
مارکیٹنگ اور کارپوریٹائزیشن
کاروباردوست ہونے کی وجہ سے اس سرکار کا سارا زور بازار پر مبنی حل کی طرف رہا ہے۔ لیکن اس سے پونجی والوں کو اور انہیں جو بازار میں مضبوط ہیں یعنی کارپوریٹ کو مدد ملتی ہے۔ سرکار نے کسانوں کی مانگوں کو بازار کے خلاف جانے والے کے طور پر دیکھا اور اسی وجہ سے یہ اس کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔
آج کے زیادہ تر ماہرین اقتصادیات اور زیادہ ترسیاسی پارٹیاں بھی بازار کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ہیں اور وہ 1991 سے ہی بازار پر مبنی اصلاحات کی پیروی کر رہے ہیں۔
سرکار کا یہ کہنا صحیح ہے کہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات اور سیاسی پارٹیاں ان تین قوانین سے نکلنے والے اصلاحات کےحق میں رہے ہیں۔ اس کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ بات چیت کافی طویل عرصے سے چل رہی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ اس پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ لیکن یہاں جن کے بیچ اتفاق رائے کی بات ہو رہی ہے، ان میں یقینی طور پر کسان نہیں ہیں۔ اور اس سے بھی آگے، زراعت میں آزادبازار ممکن نہیں ہے، کیونکہ بازار آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
کسان جو قرض لیتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں اپنی فصل قرض دہندگان کو، وہ بھی اس کی کٹائی کے فوراً بعدفروخت کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے ان کے پاس اپنی مرضی سے کہیں بیچ پانے کا بہت کم اختیار ہے۔ اور جب بات فیصلہ کن فیصلےکی آئی تو بڑے کسانوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ ان تین قوانین کے اہتماموں سے انہیں کافی نقصان ہوگا۔
2 ہیکٹر سے کم جوت والے 85 فیصدی چھوٹے اور معمولی کسانوں پر بڑی چوٹ پڑےگی اورپالیسی سازی میں ان کی آواز کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔عام طور پر امیر اورمعمولی کسانوں کےمفاد آپس میں ٹکراتے ہیں، لیکن موجودہ معاملے میں دونوں کے مفادآپس میں جڑ گئے۔ کسان تحریکوں کی قیادت کر رہے امیر کسان اور کاروباری معمولی اور چھوٹے کسانوں کےمفاد کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔
عام طور پر ایسا دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی تحریک میں وسائل رکھنے والا طبقہ قیادت کرتا ہے کیونکہ غریب کے لیےاحتجاجی مظاہرہ وغیرہ کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے کب غریبوں کوملک کی غریبی کی سنگین حالت کے باوجود اتنے طویل عرصے تک احتجاج کرتے دیکھا ہے؟
واحد طبقہ جو مظاہروں میں حاشیے پر رہا ہے، وہ ہے زرعی مزدور-انہیں زیادہ مزدوری کی ضرورت ہے، لیکن اس سوال کو شاید ہی کبھی مظاہروں میں اٹھایا جاتا ہے۔
حالانکہ سچائی یہ بھی ہے کہ ان کی قسمت کسانوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ اس لیے زرعی شعبے میں کوئی بھی بحران ان پر منفی اثر ڈالےگا اور اس طرح سے دیکھیں تو کسانوں کی تحریکوں میں ایک طرح سے ان کے مفاد کی بھی نمائندگی ہو رہی تھی۔
اصلاح کے لیے بلیوپرنٹ کی ضرورت
کیا زرعی قوانین کو رد کرنا موجودہ نظام کی قلب ماہیت کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ اگر جذباتی ہوئے بغیر وزیر اعظم کےخطاب کاتجزیہ کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون چھوٹے کسانوں کا بھلا کرنے کے لیے تھے۔اس کے آگے انہوں نے کہا کہ صرف کچھ لوگ قانون کے خلاف تھے اور انہیں سرکار کی بات سمجھانے میں وہ ناکام رہے۔
دوسرےلفظوں میں،وزیر اعظم نے کہا کہ یہ قانون اچھے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پارلیامنٹ کے ذریعے قانون کورد کرنے سے کسانوں کی کوئی مانگ پوری نہیں ہوگی وہ بس وہاں لوٹ جا ئیں گے، جہاں وہ اس قانون کے بننے سے پہلے تھے۔
کوئی بھی کمیٹی، جس کے قیام کی بات وزیر اعظم نے کی، اس میں زیادہ تر بازار حامی اصلاحات کے پیروکار ہوں گے۔ ان میں جو کچھ کسان لیڈر شامل بھی کیے جا ئیں گے ان کا کمیٹی کے باقی ممبروں کے ساتھ ٹکراؤ بنا رہےگا اور ہو سکتا ہے کہ وہ حاشیے پر پڑ جائیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعےبنی کمیٹی بھی ایک طرفہ تھی۔ اس نے جو رپورٹ سونپی وہ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور خبریں آ رہی ہیں کہ اس کے ممبر ان قوانین کو واپس لیے جانے کی گزارش کر رہے ہیں۔
کمیٹی کی رپورٹ کو سرکار کے ذریعے تسلیم کیا جانا یا ٹھنڈے بستے میں ڈالنا یا انہیں صرف جزوی طور پرنافذ کرنا ضروری نہیں ہے۔ آخر سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ کو بھی صرف جزوی طور پر ہی نافذ کیا گیا تھا۔
کسانوں کے پاس اپنی مانگیں ماننے کےلیے سرکار کو راضی کرنے کے لیے صرف انتخاب سے پہلے تک کا وقت ہے۔ لیکن ان کی پریشانی کا حل صرف زراعت سے نہیں نکلےگا۔ انہیں پالیسیوں کے ایک جامع پیکیج کی درکار ہے۔ اس میں سماج کے سبھی طبقوں، جن میں زراعتی مزدور اورمعمولی کسان بھی شامل ہیں، کےمفاد کو شامل کیا جانا چاہیے۔
ایسی کوششیں ماضی میں کی جا چکی ہیں اور اسے ایک بار پھر کیا جا سکتا ہے کسانوں کو اس بار ملی جیت انہیں اس کی کوشش کرنے کے لیےحوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔
کسانوں اور سرکار کے بیچ ابھی ٹکراؤ قائم رہنے کا ہی امکان دکھائی دے رہا ہے۔ کسان چاہتے ہیں کہ سرکار مداخلت کرے، جبکہ سرکار اپنے ہاتھ پیچھے کھینچنا چاہتی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ سرکار ایم ایس پی کی گارنٹی کو تسلیم کرےگی۔ اس کے لیے وہ عملیت وغیرہ کا بہانہ بنائےگی۔
اصولی طور پرسبھی فصلوں کی قیمتوں کا اعلان کیا جا سکتا ہے، لیکن پریشانی اس کے نفاذ میں آئےگی۔ انتظامی مشکلات اور بدعنوانی کو حل کرنا ہوگا اور ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کے پیش نظر یہ کافی چیلنجنگ ہوگا۔
لیکن موجودہ نظام کس طرح سے اچھا ہے؟ اس نے سینکڑوں دقتوں کو جنم دیا ہے اور یہ کروڑوں کسانوں اور ان کے خاندانوں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر قوت ارادی ہو تو کسی بھی مسئلے سےنجات پانے کا راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ارون کمار انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں چیئر پروفیسر ہیں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)