گرام سبھا 2019 سے گڑچرولی ضلع کے موہگاؤں میں گونڈی میڈیم اسکول چلا رہی ہے۔ سال 2022 میں حکومت نے اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اسے بچانے کے لیے اب بامبے ہائی کورٹ میں قانونی لڑائی جاری ہے۔
مہاراشٹر کے قبائلی اکثریتی گڑچرولی ضلع کے موہگاؤں میں گزشتہ چند سالوں سے گونڈی اسکول چل رہا ہے۔ اس اسکول کی خاصیت یہ ہے کہ اسے ریاستی حکومت یا ضلع پریشد نہیں بلکہ گرام سبھا چلاتی ہے۔ یہاں مقامی قبائلی زبان گونڈی میڈیم میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ ریاست کا پہلا اور واحد گونڈی میڈیم اسکول ہے۔
لیکن اب ‘پارمپرک کویا گیان بودھ سنسکار گوٹول اسکول، موہگاؤں’ نام کے اس اسکول پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس اسکول کو چلانے والے دیوسائے اتالا، جو موہگاؤں گرام سبھا کے صدر ہیں، بتاتے ہیں کہ سرکاری اہلکار ان کے اسکول کو یہ کہہ کر بند کروانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس منظوری نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہیں متعدد نوٹس بھی موصول ہوئے ہیں۔
دیوسائے نے دی وائر کو اپنے اسکول کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا، ‘گڑچرولی ضلع میں بڑی تعداد میں ماڑیا -گونڈ قبائلی برادری رہتی ہے۔ ہمارے بچوں کو کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ اسکول میں داخلہ کرانے پر انہیں پہلی جماعت سے ہی مراٹھی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈھنگ سے پڑھائی نہیں کر پاتے۔ لہذا، انہیں ان کی مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہم نے یہ گونڈی اسکول 2019 میں شروع کیا۔’
ان کا مقصد ‘دیگر زبانوں میں دی جا رہی نام نہاد مرکزی دھارے کی تعلیم کی وجہ سے گونڈی زبان، ثقافت اور علم کو پہنچنے والے نقصان کو روکنا تھا۔’
آج یہ پانچویں جماعت تک کا رہائشی اسکول ہے، جس میں 69 بچے زیر تعلیم ہیں اور چار اساتذہ ہیں۔ موہگاؤں کے بچوں کے علاوہ آس پاس کے گاؤں اور دھنورا، ایٹاپلی تعلقہ کے بچے بھی یہاں پڑھنے کے لیے آنے لگے ہیں۔
قانونی چال بازیاں اور بحران
لیکن قانونی چال بازیوں کی وجہ سے اس سکول پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ جون 2022 میں اس اسکول کو ریاستی محکمہ تعلیم نے اس بنیاد پر غیر قانونی قرار دیا تھا کہ اس کا رجسٹریشن نہیں ہواتھا۔ 6 جون 2022 کو بلاک ایجوکیشن آفیسر کی جانب سے اس اسکول کو بھیجے گئے وجہ بتاؤ نوٹس میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ اس پر روزانہ 10 ہزار روپے جرمانہ اور اس کو چلانے والے پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ کیوں نہ عائد کیا جائے۔
حکام کا کہنا تھا کہ اسکول کے رجسٹریشن کے لیے دیوسائے کو ایک تنظیم بنانا ہوگی، ورنہ یہ غیر قانونی ہوگا۔ اس پر دیوسائے کہتے ہیں،’ہماری گرام سبھا کا ماننا ہے کہ آئین کے تحت ہمیں اپنے علاقے میں اپنی مادری زبان میں اسکول چلانے کا حق ہے۔ اور پانچویں شیڈول کے علاقوں میں گرام سبھا ہی سب سے اعلیٰ ادارہ ہوتا ہے، تو ہم ایک الگ ادارہ کیوں بنائیں؟’
اس اسکول کے قیام سے پہلے گرام سبھا میں کافی غوروخوض کیا گیا تھا، قراردادیں پاس کی گئی تھیں، جس کے بعد گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی زبان میں ایک اسکول ہونا چاہیے۔ اسکول شروع کرنے سے پہلے انہوں نے حکومت کو ایک درخواست بھی بھیجی تھی۔ درخواست کی کاپیاں ضلع محکمہ تعلیم، کلکٹر اور گورنر کو بھی بھیجی گئی تھیں۔ اس کے بعد اسکول کی شروعات ہوئی۔
دیوسائے کے استدلال کی تصدیق بھوریا کمیشن کی سفارشات سے بھی ہوتی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ گرام سبھا کو قدرتی وسائل پر قابو پانے، تنازعات کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور کوآپریٹیو جیسے اداروں کو منظم کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
دیوسائے نے بتایا کہ جب ان کے اسکول کو غیر قانونی قرار دیا گیا تو گرام سبھا نے محکمہ تعلیم سے درخواست کی کہ وہ آئیں اور بتائیں کہ یہ کیسے غیر قانونی ہے۔ کچھ دنوں بعد محکمہ تعلیم کے افسران گرام سبھا میں آئے۔ دیوسائے نے بتایا، ‘گاؤں والوں نے آئینی حق کے تحت مادری زبان میں تعلیم کے حق کا مسئلہ اٹھایا۔ مقامی لوگوں نے افسر سے سوال کیا کہ ہمارے بچے اپنی زبان میں پڑھنے کے بجائے دوسری زبانوں میں کیوں سیکھیں؟’
لیکن ان کے مطابق، ‘ان نمائندوں نے کوئی واضح اور تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ یہ اسکول غیر قانونی کیوں ہے۔’
ہائی کورٹ میں پٹیشن
اس کے بعد 29 نومبر 2022 کو موہگاؤں کی گرام سبھا نے ریاستی شیڈول ٹرائب کمیشن، محکمہ تعلیم اور ریاستی حکومت کے خلاف بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ میں عرضی داخل کی۔
دیوسائے نےبتایا کہ اس عرضی کی حمایت علاقے کی 40 گرام سبھا نے کی ہے۔ دیوسائے کا کہنا ہے کہ عدالت کا رویہ ان کے ساتھ ہمدردانہ رہا ہے۔ 23 جنوری 2023 کو ہوئی سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا کہ گرام سبھا کا موقف آئینی اور قانونی طور پر درست معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اسکول کو منظوری دی جانی چاہیے۔ اسی روز عدالت نے محکمہ تعلیم کو بھی نوٹس بھیجا تھا۔
لیکن اس کے بعد کئی سماعتوں میں حکومتی نمائندے پیش نہیں ہوئے۔ اس پر ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا کہ جب گرام سبھا نے اسکول کو تسلیم کیا ہے تو پھر حکومت اسے تسلیم کیوں نہیں کررہی ہے۔
لیکن محکمہ تعلیم اپنے موقف پر بضد رہا۔ 24 جون، 2024 کو، اس نے دوبارہ بلاک ایجوکیشن آفیسر اور گڑچرولی کے پنچایت سمیتی کو ایک خط جاری کیا جس میں ریاست کے تین اسکولوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا، جن میں سے ایک موہگاؤں کا گونڈی اسکول تھا۔ خط میں ہدایت کی گئی کہ ان سکولوں میں بچوں کو داخلہ نہ دینے کے حوالے سے اخبارات میں اشتہار شائع کیا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
جب دی وائر نے بامبے ہائی کورٹ میں گرام سبھا کی نمائندگی کرنے والے وکیل شرون تارام سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ‘عدالتی نوٹس کے بعد حال ہی میں ضلع پنچایت کا جواب آیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ اسکول غیر قانونی ہی ہے کیونکہ یہ حق تعلیم 2009 کی خلاف ورزی ہے۔ اسکول چلانا ہے سوسائٹی رجسٹریشن کرناپڑے گا، تب ہی حکومت تسلیم کرے گی۔ تب ہی اسکول چل سکتا ہے۔’
تارام کا مزید کہنا ہے، ‘لیکن مہاراشٹر گرام پنچایت ایکٹ میں چھٹے شیڈول کے علاقے میں ایک پروویژن ہے، جس کی دفعہ 54(اے) کہتی ہے کہ گرام سبھا ایک مجاز ادارہ ہے اور جو بھی فیصلہ کرے گا وہ قانونی ہوگا۔ اسی بنیاد پر اسکول شروع کیا گیا ہے۔’
آخری امید
آج اس اسکول میں 69 بچے زیر تعلیم ہیں اور چار اساتذہ ہیں۔ بچے گاؤں میں گرام سبھا کی طرف سے بنائے گئے ایک گودام میں رہتے ہیں۔ پڑھائی کے لیے لکڑی اور ٹین سے اسکول بنایا گیا ہے۔ رہائشی آشرم اور اسکول کے لیے ایک نئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہے۔ اگلے سیشن سے کلاس 6 کی پڑھائی بھی شروع ہو جائے گی۔
اس اسکول کے استاد اور کامنگاؤں کے رہنے والے شیش راؤ گاوڑے شروع سے ہی اس سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا؛
میں گونڈی رسم الخط اور ریاضی سکھاتا ہوں۔ میں نے مراٹھی میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ پڑھائی دوسری زبانوں میں ہونے کی وجہ سے بچوں کو کافی دشواری ہوتی ہے۔ انہیں شروع سے ہی دوسری زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ اس سے ان پر دوہرا دباؤ پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہاں ہم بچوں کو گونڈی زبان اور انگریزی میں پڑھا رہے ہیں۔ بچے جلدی سیکھ پارہے ہیں۔ مادری زبان میں پڑھائی ہونے کی وجہ سے انہیں مضامین کو سمجھنے میں آسانی ہو رہی ہے۔
گاوڑے نے بتایا کہ گونڈی زبان کی کتابیں چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع کے سرونا میں چلنے والے گونڈی اسکول سے آرہی ہیں۔ اس وقت سرکاری نصاب کا ترجمہ پڑھایا جا رہا ہے لیکن ایک الگ نصاب بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اس اسکول کے اساتذہ کو ماہانہ تین ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔
دیوسائے کے مطابق اس اسکول کے بچے بہت خوش ہیں، جبکہ دوسرے اسکولوں کے بچے اکثر بھاگ جاتے ہیں۔
وہ مزید بتاتے ہیں،’گرام سبھا طلباء کے لیے کھانے، کپڑے وغیرہ کا انتظام کرتی ہے۔ اسکولوں کے اخراجات کے لیے وہ جنگلات کی پیداوار جیسےتیندو پتہ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ جمع کرتے ہیں اور کچھ گاؤں والے بھی رضاکارانہ طور پر جمع کرتے ہیں۔’
دیوسائے خود ہر سال اپنے کھیت میں اگائے گئے تقریباً 200 کوئنٹل دھان اسکول کو دیتے ہیں۔ چامورشی گاؤں کے ایک قبائلی کسان نے اس سال اسکول کو 150 کوئنٹل دھان عطیہ کیا ہے۔
اس وقت دیوسائے اتالا، شیش راؤ گاوڑے، موہگاؤں کے اسکولوں میں پڑھنے والے 69 گونڈی بچوں سمیت تمام آس پاس کے گاؤں والے عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کے اسکول کو بچائے گا بلکہ ان لاکھوں قبائلیوں کی امیدیں بھی زندہ رکھے گا جو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہیں۔