انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) کے زیر اہتمام گزشتہ ماہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے شاہی خاندانوں پر منعقد نمائش میں کسی بھی مسلم حکمران کو جگہ نہیں دی گئی۔ اسے تاریخ کی بے توقیری قرار دیتے ہوئے ماہرین نے کونسل کے ارادوں پر سوال کھڑے کیے ہیں۔
نئی دہلی: 13 فروری 2023 کو لوک سبھا میں سی پی آئی کے رکن پارلیامنٹ کےسبارین کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےمرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے کہا کہ وزارت تعلیم کے تحت آنے والے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) نے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے لیے کوئی پروجیکٹ شروع نہیں کیا ہے اور یہ صرف تاریخ میں جن ‘مقامات’ کو خالی چھوڑ دیا گیا تھا، انہیں پُر کرنے کا کام کر رہا ہے۔
اس پر کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے ایک ضمنی سوال میں کہا کہ ان کا بیان آئی سی ایچ آر کے ان بیانات کے برعکس ہے، جہاں کونسل مسلسل، عوامی سطح پر، ‘تاریخ کو دوبارہ لکھنے’ کا دم بھر رہی ہے۔
تیواری کا اشارہ کونسل کے عہدیداروں کی جانب سے کیے جا رہے دعووں کی طرف تھا، جہاں ان کا کہنا ہے کہ وہ ‘ ہندوستان کی ایک جامع تاریخ لکھ رہے ہیں جو 12-14 جلدوں میں ہوگی، جس میں وادی سندھ کی تہذیب کی تاریخ سے لے کر آج تک کی تاریخ درج ہوگی اور جس کی تیاری میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
نومبر 2022 میں آئی سی ایچ آر کے ممبرسکریٹری پروفیسرامیش اشوک کدم نے ایک بار پھر ایک بیان دیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ علاقائی زبانوں، رسم الخط کے ذرائع کی مدد سے ‘تاریخ کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے’۔ ملک بھر میں سو سے زائد مورخین اس کام میں مصروف ہیں اور پہلی جلد کے مارچ 2023 میں منظر عام پر آنے کا امکان ہے۔
کدم نے کہا کہ وہ ‘ان شاہی خاندانوں’ کو واجب الادا کریڈٹ دیں گے جنہیں پہلے چھوڑ دیا گیا تھا۔ آئی سی ایچ آر کی ‘نئی تاریخ’ کے آنے میں بھلے ہی وقت ہو ، لیکن ‘نئی تاریخ’ کوتشکیل دینے کی ان کی کوششوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔
گزشتہ ماہ کونسل کی طرف سےدہلی کی للت کلا اکادمی میں ‘قرون وسطیٰ کے ہندوستان کا فخر: کم معروف ہندوستانی شاہی خاندان (8ویں-18 ویں صدی تک )’ کے موضوع پر منعقد نمائش ‘تاریخ کو دوبارہ لکھنے’ کے عظیم الشان منصوبے کو مکمل کرنے کی سمت میں ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔
‘نئی تاریخ’ کیا ہے
گزشتہ 30 جنوری کو اس نمائش کے افتتاح کے موقع پر جب پوچھا گیا کہ اس میں قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں حکمرانی کرنے والے مسلم حکمرانوں کا ذکر نہیں ہے تو امیش اشوک کدم نے کہا کہ وہ مسلم شاہی خاندانوں کو ہندوستانی شاہی خاندان کا حصہ نہیں مانتے۔ وہ لوگ (مسلمان) مشرق وسطیٰ سے آئے تھے اور ان کا ہندوستانی ثقافت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا، اسلام اور عیسائیت قرون وسطیٰ کے دور میں ہندوستان آئے اور انہوں نے تہذیب کو تباہ کر تے ہوئے تعلیمی نظام کو برباد کر دیا۔کدم نے کہا کہ اسلامی شاہی خاندان ہندوستانی تاریخ کا حصہ تو ہیں، لیکن تاریخ کو مغل یا سلطنت مرکوز نہیں ہونا چاہیے۔
اس نمائش میں پچاس سے زائدشاہی خاندانوں کے بینرز لگائے گئے تھے – جن کے بارے میں آئی سی ایچ آر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کم معروف (ان ایکسپلورڈ) ہیں ،جن میں مراٹھا، ننگ تھوجہ، اہوم، چول، مانکیہ، کچھواہا، ہندو شاہی جیسے متعدد شاہی خاندانوں کے بارے میں جانکاری دی گئی تھی۔
افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی راجکمار رنجن سنگھ( وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور تعلیم) تھے، جنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے وزراء سے کہا ہے کہ وہ ‘نوآبادیاتی ہینگ اوور’سے دور رہیں۔ آزادی سے سوراج تک کے سفر میں ہمیں تاریخ کو پاک کرنا ہوگا۔
پروفیسر ہربنس مکھیاک ہندوستانی مؤرخ ہیں، جن کا کام قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے بارے میں رہا ہے۔ طویل عرصہ تک جواہر لال یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد 2004 میں ریٹائر ہوئے مکھیا ہندوستانی تاریخ اور قرون وسطیٰ پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔
جب ان سے نمائش اور آئی سی ایچ آر کے ممبر سکریٹری کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ، جیمس ملس نے 1818 میں جہاں ہمیں چھوڑا تھا، یہ ہمیں واپس وہیں لے جا رہے ہیں…
جیمس ملس ا سکاٹ لینڈ کے مؤرخ تھے، جنہوں نے ‘ہسٹری آف برٹش انڈیا‘ لکھی، جس میں ہندوستانیوں کے بارے میں ان کے خیالات اکثر تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ 19ویں صدی کے اوائل میں آنے والی تین جلدوں پر مشتمل کتاب کو ملس نے تین حصوں ہندو، مسلم اور برٹش میں تقسیم کیا تھا۔
مکھیا کہتے ہیں،تاریخ نویسی ہمیشہ بدلتی رہی ہے، لیکن اب جو ہو رہا ہے وہ الگ ہی ہے۔ آزادی سے پہلے تاریخ مختلف طریقے سے لکھی گئی تھی، جو 1947 کے بعد کے سالوں میں ‘ڈی کالونائز’ کی گئی ، لیکن اب اسے دوبارہ ‘ری کالونائز’ کیا جا رہا ہے، لیکن ان کے پاس کوئی محور نہیں ہے۔ سچ کہوں تو بی اے کے طلبہ بھی اب ایسے موضوعات – کہ فلاں فلاں ہندو حکمران، فلاں مسلمان حکمران جیسی بات نہیں کرتے۔
مؤرخ ایس عرفان حبیب تاریخ کو ‘دوبارہ تحریر کرنے’ کو، خاص طور پر اس نمائش کے تناظر کو الگ انداز سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’پہلی بات تو یہ ہے کہ تاریخ اس طرح نہیں لکھی جاتی۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی تاریخ صرف ہندو گھرانوں کی ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی۔ جسے مسلمانوں کا دور بھی کہا جاتا ہے، وہ بھی پوری طرح سے ان کا نہیں ہے۔ بہت سے مسلم سلطان تھے، و لوگ باقاعدہ راجپوتوں کے ساتھ مل کر حکومت کیاکرتے تھے۔ یہ حکومتی تعاون پروجیکٹ ہے…لہٰذا یہ جو کچھ بھی کیا گیا ہے وہ ایک لغو سی کوشش ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کوشش کا مقصد کیا ہو سکتا ہے، حبیب کہتے ہیں، ‘یہ ان کی عصبیت ہے جو انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی کام پاکستان میں بھی ہوتا رہا ہے جس پر ہم ہمیشہ تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کی تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے، اس سے پہلے کی تاریخ ان کے لیے تاریخ نہیں ہے۔ اب آپ بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں… مجھے نہیں لگتا کہ آپ پاکستان کے راستے پر چل کر ایک اچھا ہندوستان بنا سکتے ہیں۔
Click to view slideshow.‘مسلمانوں سے نفرت کے رجحان کی توسیع ہے’
حبیب کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایسا کرنا موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کے رجحان کا حصہ ہے۔ ایک نفرت ہے جس کا اظہار وہ اپنی ان کوششوں سے بار بار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے پیچھے صرف ایک ہی احساس گامزن ہے کہ آپ مسلمانوں کو تاریخ سے بالکل غائب کر دیں، وہ عمارتوں، باغوں، پکوانوں وغیرہ کسی کے ناموں میں نظر ہی نہ آئیں۔
مسلم حکمرانوں، بالخصوص مغلوں اور ان کی تاریخ کے تئیں بی جے پی کا رویہ کسی سےپوشیدہ نہیں ہے۔ حال ہی میں راشٹرپتی بھون کے مشہور ‘مغل گارڈن’ کو ‘امرت باغ’ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 2017 میں، دیویندر فڈنویس کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے میں اسکول کی کتابوں سے مغل حکمرانوں کو تو ہٹا یا ہی گیا تھا، ان کی تعمیر کردہ یادگاروں اور عمارتوں کا تذکرہ بھی نکال دیا گیا۔
کسی بھی ایسے نام اور شناخت، جس سے بی جے پی حکومت کو ‘مسلمان’ ہونے کا احساس ہوتا ہے، تو اس کو مٹانے کی بے چینی پچھلے آٹھ سالوں میں کھل کر سامنے آچکی ہے۔ بی جے پی لیڈروں کو گزشتہ ماہ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ایک ‘ٹینٹ’ کا نام ‘مغل ٹینٹ’ ہونا بھی راس نہیں آیا۔ جون 2022 میں ایک موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ کوتو ملک کی ‘غلط تاریخ’ پررنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا جب انہوں نے ملک کے مؤرخین سے اپیل کی کہ وہ ‘موجودہ دور میں ازمنہ قدیم شان کو پھر سےزندہ کریں’۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے اکثر مؤرخین نے نہ صرف مغلوں کو ہی تاریخ میں نمایاں جگہ دی ہے بلکہ ایسا کرنے کے لیے انہوں بہت سی عظیم سلطنتوں کی بہادری کو نظر انداز کیا ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بی جے پی لیڈروں کے اس طرح کے دعووں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘اگر ہندوستان میں کوئی چیز مالا مال ہے تو وہ تاریخ نویسی ہے۔ یہاں قوم پرست مؤرخ ہوئے ہیں، رائٹسٹ ہوئے ہیں، لیفٹسٹ، مارکسزم سے متاثر ہوئے ہیں، پھر مارکسزم کو چیلنج کرنے والے سب آلٹرن مؤرخ بھی ہوئے ہیں، اور پھر ان سب سے آزاد ہو کر تاریخ لکھنے والے بھی ہوئے تو یہ کہنا کہ غلطی ہوئی ہے— ہی غلط ہے۔ کیونکہ تاریخ لکھنے کے طریقے بدلتے رہے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں،’ہر دور میں ہر طریقہ کار کی اپنی حدود ہوتی ہیں، جان بوجھ کر کسی چیز کو چھوڑنا یا نہ چھوڑنا نہیں ہے، دیکھنا یہ چاہیے کہ تاریخ نویسی میں گزشتہ سو سالوں میں اجتماعی طور پرجو کچھ ہوا ہے،اس سے کیا تصویر بنتی ہے۔ علم اجتماعی ہوتا ہے، نہ کہ ایک ہی طرح کا ۔
عرفان حبیب کا بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کا یہ دعویٰ غلط ہے۔بقول حبیب ، ‘تاریخ نویسی میں بہت سی خامیاں ہیں، مثلاً ہماری تاریخ زیادہ تر شمالی ہند پر مرکوز رہی ہے، شمال–مشرق کی بات کم ہوئی ہے، لیکن آپ اسے مذہب سے جوڑ کر تھوڑے نہ لکھ سکتے ہیں۔ جو خامیاں ہیں دراصل آپ ان پر کام کیجیے، کھلے دماغ سےکیجیے۔ اگر آپ صرف ہندو حکمرانوں کی تاریخ یہ کہہ کر لکھیں گے کہ پہلے ان کو غائب کر دیا گیا تھا تو یہ تو کوئی جواب ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کتابیں اٹھا کر دیکھیے، لائبریریوں میں جاکر، ان کو چھان کر دیکھیے اور دیکھیے کہ کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں، ‘یہ بھی دیکھیں کہ مغلوں پر کتابیں لکھی گئی ہیں ، ان میں جگہ جگہ کتنا ذکر راجپوتوں کا ہے۔ مغلوں کے زمانے میں بھی بڑے منصب دار تھے – جسونت سنگھ، جئے سنگھ، مان سنگھ یہ تو بڑے بڑے نام ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی سطح پر تو کتنے ہی راجاتھے۔ حکمرانی میں تو ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی شراکت داری رہی ہے …اور صرف مغلوں نہیں شیرشاہ کے زمانے سےایسا ہوتا رہا تھا۔ آج یہ سب باتیں اس لیے پھیلائی جاتی ہیں کہ یہ معاشرے کو پولرائز کرکے رکھیں، انہیں بانٹ کر رکھیں۔ اور مقصد تاریخ سے نہیں صرف آج سے ہے، آج کی سیاست سے ہے۔ آج لوگوں کو کیسے تقسیم کیا جائے، اس میں تاریخ کو کیسے استعمال کیا جائے – یہی ایجنڈہ ہے۔ اور وہ کہیں نہ کہیں اسے کامیابی سے انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں، ‘ہندوستان میں تاریخ لکھنے کا کام دائیں بازو کے نظریات کے مؤرخین نے بھی کیا ہے، لیکن انھوں نے بھی یہ تقسیم نہیں کی، جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یہ پوری طرح سے مضحکہ خیز، یا کہیں کہ شیطانی تقسیم ہے۔ یعنی جو بھی شے مسلمان ہے اسے آپ ہندوستانی ماننے سے انکار کر رہے ہیں، مغل توخالص ہندوستانی ہیں۔ حتیٰ کہ باقی بھی جو گھرانے ہیں ،مغلوں کے علاوہ حیدر علی، ٹیپو سلطان وغیرہ، وہ سب ہندوستانی ہیں۔
حقائق پر بھی ہیں سوال
آئی سی ایچ آر کے قرون وسطیٰ کی تاریخ کے بارے میں دعووں کے درمیان سوال نمائش میں فراہم کی گئی معلومات کے ذرائع پربھی ہیں۔ للت کلا اکادمی کے ایک ہال میں لگ بھگ 50 بینرز پر مختلف شاہی خاندانوں کی تصویریں، جھنڈے، عمارتیں وغیرہ تھیں، لیکن اس میں ماخذ کا ذکر نہیں تھا۔ نمائش دیکھ کر واپس آنے والے ایک جانکار کا کہنا ہے کہ یہ تمام معلومات وکی پیڈیا سے لی گئی تھیں، جس کی کریڈیبلٹی مصدقہ نہیں ہے۔
عرفان حبیب کہتے ہیں،’تاریخ میں انہی لوگوں کے بارے میں بات ہوتی ہے جن کا کوئی اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر چھوٹے حکمران کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا مؤرخین کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں بہت سے ذرائع موجود ہیں… تو آپ خیالی حقائق پیدا کریں گے کیونکہ اصل حقائق تو ملیں گے نہیں۔ یعنی آپ تاریخ لکھیں گے نہیں اس کو ایجاد کریں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں، ‘ماخذ وہاٹس ایپ ہے، تاریخ وہیں سے آرہی ہے۔ آپ کوئی تاریخ بتائیں گے تو حوالہ دینا ہوگا، سال بتانا ہوگا، کسی کتاب کا نام یا صفحہ نمبر دینا پڑے گا… اگر کوئی بڑی محنت اور احتیاط سے تاریخ لکھ رہا ہے تو آپ اس کی تشریح سے اتفاق و اختلاف کر سکتے ہیں، حقائق سے نہیں۔ آپ اسے کیسے پڑھیں گے یہ آپ کی سوچ اور نقطہ نظر پر منحصر ہے، لیکن حقائق تو ایک ہی ہوتے ہیں۔ جو لکھ رہا ہے اس کے اپنے تعصبات ہوں گے، مفروضے ہوں گے لیکن ذرائع تو ایماندار ہوں گے۔ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ذرائع ہے ہی نہیں۔ جو ذہن میں آیا کہہ دیا اور پھر اس کے مطابق ذرائع بنالیے۔ یہی مسئلہ ہے.’
سال 2017 میں ہربنس مکھیا نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا، ‘جارج آرویل نے ناول 1984 میں لکھا ہے کہ جس کا حال پر کنٹرول ہے وہ ماضی پر بھی کنٹرول رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ماضی کو جس طرح چاہیں توڑ مروڑ کر الٹا سیدھا بناسکتے ہیں، کیونکہ آپ کو حال میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تو ایک ناول کی بات ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ سچ ہوتا نظر آ رہا ہے۔