
نئی دہلی: 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کی سازش کا ملزم تہور راناجمعرات (10 اپریل) کی شام دہلی پہنچا، جس کے فوراً بعد قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکاروں نے اسے باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا۔
رپورٹ کے مطابق، رانا کو ہندوستان میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ سے حوالگی کیا گیا ہے۔ اسے لاس اینجلس سے ایک فلائٹ میں نیشنل سیکورٹی گارڈ اور این آئی اے کے اہلکار کے ذریعے دہلی لایا گیا۔ این آئی اے نے را ناکو 2008 کے حملوں کے پیچھے ‘کلیدی سازشی’ اور ‘ماسٹر مائنڈ’ بتایا ہے۔ اس حملے میں 166 افراد مارے گئے تھے۔
معلوم ہو کہ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور رانا کی ہندوستان کو حوالگی امریکی عدلیہ کی جانب سے کئی راؤنڈ کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد ممکن ہوئی۔ ان تمام اپیلوں میں عدالت نے حوالگی کو برقرار رکھا تھا۔
رانا کے دہلی پہنچتے ہی دہلی کے ہوائی اڈے پر گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے این آئی اے نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ رانا کی حوالگی ‘دہشت گردی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہندوستان کی کوششوں میں ایک بڑا قدم ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں بھاگ گئے ہوں۔’
این آئی اے نے کہا کہ رانا پر امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی اور لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)اور حرکت الجہاد اسلامی دہشت گرد گروپوں کے کارندوں کے ساتھ 2008 کے حملوں کو انجام دینے کی سازش کا الزام ہے۔
غور طلب ہے کہ ہندوستان کے حوالے کیے جانے سے کئی سال قبل 2011 میں رانا کو ایک امریکی عدالت نے لشکر طیبہ کو مدد فراہم کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی، حالانکہ اسے ممبئی حملوں میں مدد فراہم کرنے کی سازش کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔
رانا کو ڈنمارک میں دہشت گردی کی سازش میں مدد فراہم کرنے کا بھی مجرم قرار دیا گیا تھا۔
امریکہ میں رانا کے مقدمے سے پتہ چلاکہ 2008 سے پہلے کے سالوں میں اس نے شکاگو میں واقع اپنی امیگریشن فرم کی ممبئی برانچ کھولنے میں مدد کی تھی، جسے اس کے بچپن کے دوست ہیڈلی نے لشکر طیبہ کی جانب سے حملوں کے لیے جگہوں کا پتہ لگانےکے لیے استعمال کیا تھا۔ رانا نے ہندوستانی ویزا حاصل کرنے میں بھی ہیڈلی کی مدد کی تھی۔
ہیڈلی کو دیگر چیزوں کے علاوہ ہندوستان میں عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنے کی سازش، ہندوستان اور ڈنمارک میں لوگوں کو قتل کرنے اور انہیں معذور بنانے کی سازش، ہندوستان اور ڈنمارک میں دہشت گردی کی مدد اور لشکر طیبہ کی مدد کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اسے وفاقی جیل میں 35 سال اور رانا کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
تاہم، رانا کے برعکس، ہیڈلی امریکہ میں ہی ہے کیونکہ اس نے استغاثہ کے ساتھ ایک عرضی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں حوالگی کی ایک شق شامل تھی۔
واضح ہو کہ مئی 2023 میں کیلیفورنیا کی امریکی ضلع عدالت نے رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دی تھی، جس کے بعد امریکی سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں نے رانا کو ریلیف دینے سے انکار کر دیا تھا۔ہندوستان حوالگی کے دوران وہ عدالتی حراست میں تھا۔
پاکستان نے دوری بنائی
رانا کی حوالگی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسلام آباد نے رانا سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہے۔
پی ٹی آئی نے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ،’وہ کینیڈا کا شہری ہے اور ہمارے ریکارڈ کے مطابق، اس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے پاکستانی دستاویزات کی تجدید نہیں کرائی ہے۔’
رواں برس فروری میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دے دی گئی ہے، جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی قبول کر لیا تھا۔
وہائٹ ہاؤس نے ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘… جیسا کہ آپ نے کہا، ہم ایک بہت پرتشدد شخص کو ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں… میرا مطلب ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اسے ابھی تک سزا سنائی گئی ہے یا نہیں، لیکن ما ن لیں کہ وہ بہت متشدد شخص ہے- ہم اسے فوری طور پر ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں۔’
جب رانا امریکہ میں اپنی سزا کاٹ رہا تھا، ہندوستان نے دو طرفہ معاہدے کے تحت حوالگی کی درخواست دائر کی تھی اور جون 2020 میں اس کی ہمدردانہ رہائی کے ایک دن بعد واشنگٹن نے حوالگی کے مقاصد کے لیے اس کی عارضی گرفتاری کی شکایت درج کرائی تھی۔’
ہندوستان میں سابق امریکی سفیر ایرک گارسیٹی، جنہوں نے جو بائیڈن انتظامیہ کے تحت خدمات انجام دیں تھیں، نے گزشتہ سال دی ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے رانا کی حوالگی کے لیے ایک سخت معاملہ بنایا ہے ۔
نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے حال ہی میں جاری ایک آرڈر میں اعلان کیا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے بچوں یا رشتہ داروں کو مختلف سرکاری عہدوں پر بھرتی کے لیے دی گئی عمر میں چھوٹ رد کر دی گئی ہے ۔
گزشتہ 28 مارچ کو مرکزی وزارت داخلہ کے ڈپٹی سکریٹری پی وینکٹن نائر کی جانب سے جاری اس آرڈر میں گجرات کے چیف سکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا۔
نائر نے 2007 میں وزارت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمر میں چھوٹ کو فوری اثر سے واپس لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ضروری عمر میں رعایت کا فائدہ نیم فوجی دستوں، انڈیا ریزرو (آئی آر) بٹالین، ریاستی پولیس فورسز، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس اور دیگر ریاستی اور مرکزی حکومت کے محکموں میں بھرتی پر لاگو ہوتا تھا۔’
نائر کے حکم میں حکومت کے فیصلے کے پیچھے کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
بھرتی میں عمر میں رعایت، گجرات فسادات کے متاثرین کو اضافی ایکس گریشیا کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی جاتی تھیں۔ گجرات فسادات کے دوران ریاست میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے، جن میں سے اکثر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے فسادات کے دس سال بعد کہا تھاکہ ‘گجرات کے اندر معاملوں کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانے کی کوششوں کو روک دیا گیا تھا، اور مقدمات میں ملوث کارکنوں اور وکلاء کو ہراساں کیا گیا اور انہیں دھمکایا گیا تھا۔’
اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان دس سالوں کے دوران ‘مسلم مخالف تشدد میں گجرات کے ریاستی اہلکاروں کی ملی بھگت کے ثبوت سامنے آئے۔’
یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اور اب وزیر اعظم نریندر مودی فسادات کے لیے ذمہ دار تھے۔ لیکن مودی نے اس کی تردید کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پوڈ کاسٹر لیکس فریڈمین کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران مودی نے کہا کہ گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ہی۔ مودی نے تشدد سے پہلے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے ‘پس منظر’ کی طرف اشارہ کیا۔
سال 2022 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے فسادات کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی کلوزر رپورٹ کو برقرار رکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں مودی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔
نئی دہلی: سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک کے سابق مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر کردہ پانچ مقبول ترین یادگاروں سے گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے ۔
گزشتہ 3 اپریل کو وزارت ثقافت کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں میں مغلوں کی پانچ سب سے مقبول ترین یادگاریں ہیں۔
سال 2019-20 سے 2023-24 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران مرکزی حکومت نے ان پانچ یادگاروں پر ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے،اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ روزگار بھی پیدا ہوئے ۔
اطلاعات کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے سال 2023-24 میں آگرہ شہر میں تمام محفوظ یادگاروں کی دیکھ بھال پر 23.52 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ اس سال صرف تاج محل کے ٹکٹوں کی فروخت سے 98.5 کروڑ روپے آمدنی ہوئی۔
سری نگر کے ایک سماجی کارکن راجہ مظفر بھٹ نے کہا، ‘ایسے وقت میں جب مغل حکمرانوں کا بی جے پی لیڈروں کے ذریعے مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہی حکومت ان کے مقبروں اور تاریخی مقامات سے بھاری آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ یہ منافقت ان کے دوہرے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ ‘
معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2019-20 اور 2023-24 کے درمیان پانچ سالوں میں 2.2 کروڑ سیاحوں نے اتر پردیش کے آگرہ شہر میں واقع اوریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ اور ملک میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار تاج محل کا دورہ کیا، جس سے 297.33 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
سری نگر کے ایم ایم سجا کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے بتایاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے ایک سال بعد سال 2015 سے ستمبر 2024 کے آخر تک تاج محل میں ٹکٹوں کی فروخت سے 535.62 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔
اے ایس آئی، جو مرکزی وزارت ثقافت کے تحت آتا ہے، تاج محل دیکھنے کے لیے گھریلو سیاحوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ فیس 1100 روپے ہے۔ تاج محل کے مرکزی مقبرے کو دیکھنے کے لیے تمام سیاحوں کو الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔
یہ عمارت 17ویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں بنوائی تھی۔ تاج محل 1632 اور 1648 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
بی جے پی کے کئی رہنمااور ہندوتوا تنظیم بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جو شاہجہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اے ایس آئی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ 4 اپریل 2023 کو آسام کے بی جے پی ایم ایل اے روپ جیوتی کرمی نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم مودی سے سفارش کی تھی کہ تاج محل کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنایا جائے۔
قطب مینار ملک کی دوسری مقبول ترین مغل عمارت
پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، قطب مینار ملک میں مغلوں کی دوسری مقبول ترین یادگار ہے، جسے پانچ سال کے عرصے میں 92.13 لاکھ سیاحوں نے دیکھا، جس سے 63.74 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
اگر 2014 سے پچھلے پانچ سالوں کا اوسط لگایا جائے تو جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ 12ویں صدی کی یادگار نے دس سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 178.08 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔
ماضی میں وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار ایک ‘وشنو استمبھ (ستون)’ ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس میں ہندو ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، جنہیں ‘یادگار بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔’
لال قلعہ، جہاں وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہیں اور اس کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں، ملک میں مغلوں کی تیسری مقبول ترین یادگار ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پانچ سال کی مدت میں تقریباً 90 لاکھ سیاحوں نے لال قلعہ کا دورہ کیا، جس سے 54.32 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1639 میں تعمیر کیا تھا، اس تاریخی قلعے سے اے ایس آئی نے 2014 سے اوسطاً دس سال کے تخمینہ کے مطابق، ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 140 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔
آگرہ قلعہ، جو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے، ملک میں مغلیہ دور کی چوتھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار ہے، جس کا دورہ 2019-2020 سے 2023-2024 تک 69.61 لاکھ سیاحوں نے کیا، جس سے 64.84 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
اے ایس آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، 1565 میں مغل شہنشاہ اکبر کی طرف سے تعمیر کردہ اس قلعہ میں مودی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 2015 سے لے کر ستمبر 2024 تک تقریباً دو کروڑ سیاح آئے، جس سے کل 178.83 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ حکومت نے قلعہ میں کم از کم 35 لوگوں کو ملازمت دی ہے۔
اورنگ آباد، مہاراشٹر میں واقع رابعہ درانی کا مقبرہ ملک میں پانچویں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار ہے۔ یہ مقبرہ 1660 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے اعظم شاہ نے اپنی والدہ دلرس بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔
بی بی کا مقبرہ کے نام سے مشہور اس مقبرے کو سال 2019 سے 2024 تک 42.14 لاکھ سیاحوں نے دیکھا اور اس عرصے میں 68.51 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔
آر ٹی آئی درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی قومی دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک درجن مرکزی طور پر محفوظ مغل یادگاروں کا انچارج ہے۔
ان میں خان خانہ، سلطان گڑھی مقبرہ، تغلق آباد قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، حوض خاص قلعہ، صفدر جنگ مقبرہ، کوٹلہ فیروز شاہ اور پرانہ قلعہ شامل ہیں، جن سے پانچ سال کے عرصے میں ٹکٹوں کی فروخت سے مجموعی طور پر 42 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی ہوئی ہے۔
اگرچہ مغلوں کی یادگاروں نے سرکاری خزانے میں اہم حصہ ڈالا ہے، لیکن بی جے پی اور پارٹی سے وابستہ ہندوتوا گروپوں نےاپنی اکثریتی سیاست کے تحت ملک کے سابق اسلامی حکمرانوں پر مسلسل ‘لوٹ کھسوٹ ‘ کا الزام لگایا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مغلوں کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گرانے کی سازش کر رہی ہے، جنہوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر کے بیشتر حصوں پر حکومت کی تھی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)