میں نریندر مودی سے متاثر تھی، گجرات میں رہتے ہوئے میں نے اچھی سڑکیں، چھوٹی صنعتیں دیکھی تھیں، ان کی تعریف بھی سنی تھی۔ سیاست میں جانے کا سوچنے کے بعد میں نے بی جے پی سے رابطہ بھی کیا اور پارٹی کے لیے کام بھی کیا۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں رونما ہوئے واقعات نے وزیر اعظم مودی کے بارے میں میری رائے بدل کر رکھ دی۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)
ایک ٹوئٹ کا اچانک وائرل ہو جانا زندگی میں بہت کچھ بدل سکتا ہے، جیسا میرے ساتھ ہوا اور
ٹوئٹ بھی کس پر! ملک کے وزیر اعظم پر۔
‘اصلی ونگ کمانڈر ہیں؟ایئر فورس نے نکال دیا ہے، ان جیسے لوگ فوج میں جاتے کیسے ہیں’ سے شروع کر کے ٹرول گینگ کی بے شمار گالیوں سے پہلی بار سامنا ہوا۔
یہ کہانی شروع ہوئی تھی پندرہ سال کی نوکری کے بعد ایئرفورس کی ہم پہلی کچھ خواتین افسروں کی پنشن کی ایسی لڑائی میں جیت سے، جو ملک میں فوج کی تاریخ میں پہلی بار جیتی گئی تھی۔ جو ملا وہ غیر معمولی تھا تو سوچا کہ خدا نے محفوظ زندگی جب دے ہی دیا ہے تو سماج کو کچھ واپس کرنا چاہیے۔
چونکہ میں نے اپنے والدین کو اپنی عمر کے اکیسویں سال میں کھو دیا تھا، اس لیے اپنے آبائی قصبہ ودشا کی ترقی اور جدید کاری کے لیے کچھ کر دکھانے کا اور اس طرح والدین کو خراج تحسین پیش کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ارادہ تھا کہ پنشن ملتے ہی ایئر فورس کی نوکری چھوڑ کر ودشا کے لیے مکمل سپردگی سے کام کروں گی۔ جانتی تھی کہ اگر سیاسی اسٹیج ملا، تو ودشا کو جدیدیت کے الگ مقام تک لے جایا جا سکتا ہے۔ایئر فورس میں ملی کام کے لیے وابستگی اور انعامات سے خود اعتمادی بھی عروج پر تھی۔
تو اسی ٹھوس ارادے کے ساتھ وقت سے 9 برس پہلے رضاکارانہ سبکدوشی کی درخواست ڈالنے کے ساتھ ساتھ میں نے سیاسی پارٹیوں کو اپنے پروفائل کے ساتھ ای میل لکھے۔ سیاست سے میرا تعلق اب تک ایک عام آدمی جتنا ہی تھا۔جہاں ایک طرف میں مسز اندرا گاندھی سے بچپن سے متاثر تھی، وہیں دوسری طرف نریندر مودی سے متاثر تھی کیونکہ سال 2009 میں گجرات میں قیام کے دوران اچھی سڑکیں اور چھوٹی صنعتیں دیکھی تھی اور لوگوں سے تعریف بھی سنی تھی۔
سال 2014 میں ان کی شاندار جیت سے بڑی امیدیں بھی جگی تھیں۔ میں نے کھوج پرکھ کر کانگریس پارٹی کے ایک سکریٹری اور وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)کے تعلقات عامہ کے افسر(پی آراو)کو ای میل لکھا۔ مجھے وزیر اعظم کے اس وقت کے پی آراو سے فوراً جواب ملا۔
انہوں نے پہلے مجھ سے ایک تفصیلی ملاقات کی اور پھر آگے چل کر وزیر اعظم سے بھی ملوایا۔ملک کے وزیر اعظم سے ان کے دفتر میں ملنے کی خوشی نے مجھے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا اور مجھے لگا تھا کہ آگے چل کر میں ودشا کے لیے ضرور کچھ کر سکوں گی۔وزیر اعظم نے مجھے گجرات انتخاب کے دوران گراؤنڈ ورک کرنے اور سیکھنے کی صلاح دی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دفتر سے مجھے وقت پر رابطہ کیا جائےگا، جو ہوا اور میں تمام شکوک و شبہات کو پرے کرکے وزیر اعظم کی قائل ہو گئی۔
گجرات کے بی جے پی ہیڈکوارٹر‘کملم’ میں سب کچھ بہت منظم تھا اور مہذب بھی، لیکن تیسرے ہی دن میں نے خاتون رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں نوٹس کیا کہ انہیں حکمت عملی کے طور پرنہیں، صرف آرائشی طور پرجگہ ملتی ہے۔ یہ بی جے پی میں خواتین کی مشتہر سطح سے میل ہی نہیں کھاتا تھا۔
کچھ اور دنوں کے بعد دکھنے لگا کہ لگ بھگ سبھی خاتون ممبر پارٹی میں اپنے رول اوردرجے سے ناخوش تو ہیں، لیکن اپنی بات آزادانہ طورپر رکھ بھی نہیں سکتیں۔پہلے میں نے بہت دھیان نہیں دیا، لیکن بعد میں دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی مایوسیوں کے بارے میں مجھے الگ الگ وقت میں بتایا، تو مجھے بھی ماحول مرد مرکوز اور دم گھونٹے والا لگنے لگا، اس لیے گزارش کرکے میں نے خود کوخاتون ٹیم سے الگ کر لیا، جس سے ویسی مایوسی کا مجھ پر اثر نہ ہو۔ لیکن اثر تو ہونے لگا تھا…
نومبر اور دسمبر 2017 میں کل 45 دن میں گجرات میں بی جے پی کے کارکنوں کے ساتھ رہی۔ بالخصوص میں نے بی جے پی کے کال سینٹر کی ٹیم کو متحرک اور مقصد پر بنائے رکھا۔ اس کے علاوہ میں نے مہیلا مورچے کے ساتھ سورت اور بھاؤنگر کے دورے کیے تھے۔
میرے ذمہ آٹھ لاکھ اجولا مستفید کو آٹھ دنوں کے اندر وزیر اعظم کی جانب سے لکھےخطوط کو سہی پتے پر ارسال کروانے کا کام بھی تھا۔ میں نے بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر میں ان کی ٹیم کے ساتھ کام تو کیا لیکن اس دوران بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکنیت نہیں لی اور نہ ہی کسی نے مجھ سے اس بارے میں بات کی۔ میرے بارے میں لوگ یہی کہتے تھے کہ میں پی ایم او سے آئی ہوں۔
گجرات انتخاب میں بی جے پی کو مطلوبہ جیت نہیں ملی۔ میں بھی دل میں بنا کوئی فیصلہ کیے دہلی لوٹ آئی۔ اپنے کاموں کی تفصیلی رپورٹ بناکر امت شاہ کو دے دی۔ انہوں نے میرے کاموں کی تعریف کی اور کہا وہ مجھے کچھ وقت بعد مطلع کریں گے، جو کبھی نہیں ہوا۔بہرحال، میں نے ودشا کا راستہ پکڑا اور ہر ماہ 15-20 دن وہاں رہ کر اسکولوں میں موٹیویشنل اسپیچ، سیمینار، ڈبیٹس اور کریئر گائیڈینس کرتے ہوئے شہر میں اپنی جگہ بنانی شروع کی۔
اس بیچ بہت سے واقعات رونما ہوتے رہے اور مجھے لگنے لگا کہ وزیر اعظم کچھ خاص مؤثر نہیں دکھ رہے تھے۔ پر میرے دل ٹوٹنے کی شروعات کٹھوعہ کے معاملے پر وزیر اعظم کی لمبی خاموشی سے ہوئی۔ میں نے ٹوئٹر پر انہیں ٹیگ کرتے ہوئے اس وحشیانہ واقعہ پر کارروائی کے لیے گزارش بھی کی، لیکن وزیر اعظم نے دو ماہ بعد جب کچھ بولا، تو اس کی قیمت ہی نہیں رہی تھی۔
اس واقعہ سے بی جے پی کا چہرہ الگ دکھنے لگا تھا۔ پھر میرا دھیان وزیر اعظم کی زبان اوران کے ہاؤ بھاؤ پر بھی جانے لگا۔ جب وہ سابق وزرائے اعظم کے لیےمسلسل نازیبا کلمات کہتے تھے تو لگتا تھا کہ وہ اتنے طاقتور ہونے پر بھی اتنے پریشان کیوں ہیں کہ مرے ہوئے لوگوں پر بھی حقارت برسا رہے ہیں۔
موقع کوئی بھی ہو، مدعا کہیں کا بھی ہو، وہ ہمیشہ ستر سالوں کی ناکامیابی پر ہی بات کرتے تھے۔ یہ سلسلہ پھر جاری ہی رہا۔ ماب لنچنگ اور ان کا سہی ٹھہرایا جانا، سرکار کے غلط کاموں کا پرپیگنڈہ کے ذریعےمؤثر بتانے کاپروپیگنڈہ، آدھے سچ سے شروع پورے جھوٹ پر ختم ہونے والی وہاٹس ایپ کی لاکھوں پوسٹس کا پروپیگنڈہ، شدت پسندی کو ہندو مذہب بتانے کاپروپیگنڈہ، جس کی وجہ سےشرپسند عناصربھی بے خوف ہونے لگے۔
خواتین سے متعلق ہر جرم کوہلکےمیں لینے کاسلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ اسی دوران جب مدھیہ پردیش میں انتخاب کا اعلان ہو گیا، تو شاید ودشا شہر میں خود کے بل پر بنتی جا رہی میری پہچان کے مد نظر اچانک ہی بی جے پی نے مجھے خصوصی مدعوممبر کے طور پر ریاستی ایگزیکٹومیں لینے کااشتہاراخبارات میں دے دیا۔
میں اس حیرت انگیز پیش کش کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ میں سیاست میں ہی آنا چاہتی تھی، لیکن وہ وقت پہلے خود کی پہچان بنانے کا تھا۔بی جے پی کی اس پیش کش نے مجھے گجرات میں ملیں ان سبھی خاتون رہنماؤں اور کارکنوں کی یاد تازہ کرا دی، جنہیں پارٹی ڈسپلن کے نام پر نہ کچھ بولنے کی آزادی تھی اور نہ کچھ کرنے کی۔
مجھے لگا کہ میں بھی ویسی ہی بندھوا ہو جاؤں گی اور اسی چھٹپٹاہٹ کے دوران جب مجھے ایک صحافی نے مبارکباد دے ڈالی، میں نےصاف کہا کہ میں نے بی جے پی سے یہ نہیں مانگا تھا، میں بی جے پی میں نہیں شامل ہو رہی ہوں۔ اس موڑ پر بی جے پی سے میرا دل تو ٹوٹا ہی تھا، بی جے پی کا یہ بھرم بھی ساتھ ساتھ ہی ٹوٹ گیا کہ لوگ ان سے جڑنے کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار ہوتے ہیں۔
اس غیر مطلوبہ صورت حال سے نکلنا مجھے نہیں آتا تھا۔ لیکن تبھی مدھیہ پردیش میں عام آدمی پارٹی (عآپ)کے صدرنے مجھے ودشا سے انتخاب لڑنے کی پیش کش کی اور کہا کہ اپنےمقصد کی طرف ضرور چلنا چاہیے اور لوگوں کو بھی ایماندار قیادت کی ضرورت ہے۔دہلی سرکار کے طورپر عآپ سے میں متاثر تو تھی ہی، اسی بنیاد پر پارٹی کے ناموررہنماؤں سے ملنے کے بعد میں نے ان کی پیش کش مان لی۔ میں جانتی تھی کہ انتخاب تو نہیں جیت سکوں گی کیونکہ نہ تو پارٹی کا کوئی مضبوط ڈھانچہ ہے اور نہ ہی انتخابی تشہیرکے پیسے۔
صرف ہمت اور بھروسے پر انتخاب لڑا کہ شاید میری صاف نیت کو پسند کرنے والے لوگ آگے آئیں گے۔ انتخابی مہم میں جس شدت سے میں نے محنت کی، اسے پہچان ملی اور مدھیہ پردیش کے اہل اور ہونہار امیدواروں کےطور پر میرا نام لیا گیا۔انتخاب کی اس پوری کارروائی میں عآپ کی دہلی کی ٹاپ قیادت ویسے ہی غائب تھی ، جیسے سپاہیوں کے دستہ کو دشمن کے منھ میں پہنچاکر کمانڈر غائب ہو جائے۔ انتخاب کی محنت نے تو نہیں، لیکن اعلیٰ قیادت کی اس فطرت نے میرے حوصلے پست کر دیے۔
انتخاب کے دو مہینوں بعد بھی امنگوں سے دوری ہی بنی رہی پارٹی سے میں نے فروری 2019 میں استعفیٰ دیا اور بے شمار برے تجربات کی اس مہلک چوٹ کو بھرنے کے لیے دہلی آ گئی۔ دہلی میں ایک نئےنیشنل ہندی نیوز چینل میں ہندی کی صلاح کار اینکر بننے کی پیش کش تھی، میں نے سیاست میں جانے کے بنیادی مقصد کی طرف لوٹنے سے پہلے اس کوایک بریک کی طرح لیا۔
اس ٹی وی چینل کے افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم آئے۔ افتتاح والے دن ہی وزیر اعظم اور چینل کے فاؤنڈر سی ای او کے بیچ بات چیت کے ایک ویڈیو کے وائرل ہو جانے سے اس ٹیم کے برے دن شروع ہو گئے۔ پھر بھی میرا وزیر اعظم سے پوری طرح سے دل ٹوٹنا ابھی بھی باقی تھا، جو اسی وقت شروع ہوا۔
پلوامہ دہشت گردانہ حملہ، بالا کوٹ ایئراسٹرائیک، ونگ کمانڈر ابھینندن سے متعلق واقعات، فوج کا سیاست میں بھرپور استعمال، دانشوروں،قلمکاروں اور سابق فوجی افسروں کے ذریعے وزیر اعظم کو لکھی چٹھی پر پروپیگنڈہ سے چٹھی لکھنے والوں کی ہی عوامی مذمت،وزیر اعظم کی انتخابی زبان کا غیرمہذب ہوتے چلے جانا اور پھر پر گیہ ٹھاکر کو بھوپال سے امیدوار بنانا…
اس سب سے مجھے سمجھ میں آ گیا تھا کہ وزیر اعظم میں ملک کے لیے سپردگی جیسا کچھ بھی انوکھا نہیں ہے، وہ بھی دوسرے سیاسی رہنماؤں کی طرح یا شاید ان سے بھی زیادہ نمائشی اور انا پرست ہیں۔ ان کے قول و فعل میں فرق بڑھتا ہی گیا۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وزیر اعظم نرگسیت کے شکار ہیں۔ انہیں اپنی ٹیم کے کارکنوں کو پیسوں سے طاقتور بنانا تو آتا ہے لیکن ٹیم کے وزیروں کو بااختیارنہیں بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ کے تین چار وزیروں کے علاوہ نہ کوئی عوام سے سروکار رکھتا ہے اور نہ ہی حساس ہے۔
اکثر وزیروں کی عوام سے ہمدردی یا تعلق نہیں ہے۔ معیشت وینٹی لیٹر پر، لیکن تقریبات میں فضول خرچی بہت ہونے لگی ہے۔ اب تک میں نے سمجھ لیا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ملک کو منظم طریقےسے یا اوسط طریقےسے بھی چلانے میں قاصر ہے۔وہ موقع تلاش کرکے جشن اور تقریب سے لوگوں کو بھرماتے ہیں لیکن اصل مسئلہ کو نہیں سلجھا پاتے۔ جس بی جے پی آئی ٹی سیل سے پروپیگنڈہ چلایا جاتا ہے، اس کو ان کا خصوصی’آشیرواد’حاصل ہے۔
کو رونا وبا کے وقت ان کی بے حسی اور بھی زیادہ واضح ہو کر سامنے آئی۔ اسی دوران وزیر اعظم کے زیر سایہ میڈیا کا مسلسل ہندو مسلم ایجنڈہ چلتا رہا۔ کئی بے قصوربنا ٹھوس ثبوتوں کے گرفتار کئے گئے اور ان کا یا تومستقبل ختم ہو گیا یا تاریکی میں ڈھکیل دیا گیا۔کو روناواریئرس کے اعزاز کے نام پر عجب غضب کام کئے گئے اور جو پیسہ مزدوروں کے کام آ سکتا تھا، اسے نمائش پر خرچ کروا دیا۔ کو رونا کے اس دورانیہ میں ان سبھی باتوں نے اکٹھا ہو کر میری عقیدے پر آخری چوٹ کا کام کیا۔
اسی کا نتیجہ تھا میرا وہ ٹوئٹ، جو اچانک وائرل ہو گیا اور اچھے مقصد کو لےکر شروع ہوئی میری اب تک کی ‘مودی موہ سے موہ بھنگ’ کی کہانی بھی سب کے سامنے آ گئی۔
(انوما آچاریہ ہندوستانی فضائیہ کی پہلی خاتون لاجسٹکس بیچ کی ریٹائرڈ ونگ کمانڈر ہیں۔)