ڈبلیو ایچ او نے کورونا کو ایک وبا قرار دیا، ہندوستان میں 15 اپریل تک غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی

حکومت ہند نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے مقصدسے 15 اپریل تک سبھی سیاحتی ویزا معطل کر دیے ہیں۔

حکومت ہند نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے مقصدسے 15 اپریل تک سبھی سیاحتی ویزا معطل کر دیے ہیں۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: حکومت ہند نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے مقصدسے 15 اپریل تک سبھی سیاحتی ویزا معطل کر دیے ہیں۔ سرکاری بیان میں اس کی جانکاری دی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، یہ معطلی 13 مارچ کو رات جی ایم ٹی 12 بجے سے مؤثر ہوگا۔

وزیرصحت ہرش وردھن کی صدارت میں ہوئے وزراء کے گروپ کے اجلاس میں یہ فیصلہ لیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘ سیاسی، سرکاری، اقوام متحدہ / عالمی اداروں، ورکنگ اور پروجیکٹ ویزا کے علاوہ سبھی موجودہ ویزا 15 اپریل، 2020 تک معطل کئے جاتے ہیں۔ یہ 13 مارچ، 2020 کے جی ایم ٹی وقت کےمطابق دوپہر 12 بجے سے روانگی کے سبھی مقامات پر مؤثر ہوگا۔ ‘

او سی آئی کارڈ ہولڈر کو حاصل ویزافری  سفر کی سہولت بھی 15 اپریل تک کے لئے روک دی گئی ہے۔ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی شہری ایمرجنسی حالات  میں ہندوستان کا سفر کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ملک میں واقع انڈین مشن سے رابطہ کر سکتا ہے۔حکومت ہند کا یہ قدم کورونا کے مدنظر کسی بھی ملک کے ذریعے اٹھایا گیا سب سے سخت قدم ہے۔

وہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ بدھ کو کورونا کو ‘ عالمی وبا ‘ قرار دیا۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس آدنوم نے جینیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا، ‘ کووڈ-19 کو اب وبا کہا جا سکتا ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے کورونا کی ایسی وبا کبھی نہیں دیکھی ہے۔

حالانکہ ٹیڈروس نے یہ بھی کہا کہ یہ پہلی ایسی وبا ہے جس کوکنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ کورونا وائرس کی وجہ سے یہ پہلی وبا ہے۔ ہم کھل‌کر یا صاف صاف یا بار بار یہ بات نہیں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن تمام ممالک اس وبا کی حالت کو بدل سکتے ہیں۔ یہ پہلی وبا ہے جس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ‘

غور طلب ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ہر دن کورونا انفیکشن کے کئی معاملے سامنے آ رہے ہیں۔ ہندوستان میں ایسے متاثرین کی تعداد 60 کے پار ہو گئی ہے۔ چین اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے، جس کی وجہ سے وہاں پر اب تک 3000 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

کورونا وائرس: جرمنی، فرانس اور اسپین کے شہریوں کے ہندوستانی ویزے منسوخ

ڈی ڈبلیو اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق،انڈین امیگریشن بیورو کی طرف سے کل دیر رات جاری کیے جانے والے ایک اعلامیے  کے مطابق ہندوستان میں اب تک داخل نہ ہونے والے جرمنی، فرانس اور اسپین کے شہریوں کو جاری کیے گئے ریگولر اور ای ویزے فوری طورپر معطل کردیے گئے ہیں۔

اس نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ممالک کے ان تمام شہریوں کو جنہیں ریگولرویزے (بشمول ای ویزے) جاری کیے گئے تھے اور ان تمام غیر ملکی شہریوں کو جنہوں نے یکم فروری 2020یا اس کے بعد ان تینوں ملکوں کا سفر کیا تھا اور اب تک ہندوستان  میں داخل نہیں ہوئے ہیں ان کاہندوستانی کا ویزا معطل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اٹلی اور جنوبی کوریا سے آنے والے تمام مسافروں کے لیے کووڈ- انیس نگیٹیو سرٹیفیکٹ دینا لازمی ہے۔

یہ نیا اعلامیہ کووڈ-انیس کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے اور اس سے نمٹنے کے طریقہ کار پر غور کرنے اور انتظامات کے حوالے سے مختلف وزارت اور محکمہ جات کی سکریٹریوں کی اعلی سطحی میٹنگ کے بعد جاری کیا گیا۔

حکومت نے یکم فروری کے بعد ان تینوں ملکوں کا دورہ کر کے ابھی تک ہندوستان  واپس نہیں لوٹنے والے تمام غیر ہندوستانی  شہریوں کے ویزے بھی معطل کردیے ہیں،’جو غیر ملکی شہری اس وقت ہندوستان  میں ہیں، ان کا ویزاگوکہ ویلڈ رہے گا تاہم انہیں اپنے قریبی فارن ریجنل رجسٹریشن آفس جا کر ویزا کی مدت میں توسیع کرانی ہو گی۔’

ہندوستانی  وزارت صحت نے بھی ایک ایڈوائزی جاری کرکے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ چین، اٹلی، ایران، جمہوریہ کوریا، جاپان، فرانس، اسپین اور جرمنی کا سفر کرنے سے پرہیز کریں۔ ایڈوائزی میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ان ملکوں میں غیر ضروری سفر کرنے سے بچیں۔

کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ہندوستانی  حکومت چین، جنوبی کوریا، ایران، اٹلی، جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیا اور ہانگ کانگ کے شہریوں کے لیے اسی طرح کی ویزا پابندیاں عائد کر چکی ہے۔

انڈین امیگریشن بیورو نے گزشتہ ہفتے بھی اسی طرح کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران کے شہریوں کو تین مارچ یا اس پہلے جاری کیے گئے ویزا معطل کردیے تھے۔ حکومت نے کہا تھا کہ جو لوگ تین مارچ تک ہندوستان  میں داخل نہیں ہوئے ہیں انہیں ہندوستان  میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ان ملکوں کے کسی شہری کے لیے ہندوستان  آنا انتہائی ضروری ہے تو اسے اپنے قریب ترین ہندوستانی سفارت خانہ یا قونصل خانہ سے نیا ویزا حاصل کرنا ہو گا۔

ایڈوائزی میں کہا گیا ہے کہ جن افراد نے چین، ہانگ کانگ، جمہوریہ کوریا، جاپان، اٹلی، تھائی لینڈ، سنگا پور، ایران، ملائیشیا، فرانس، اسپین اور جرمنی میں سے کسی بھی ملک کا سفر کیا ہے اور اس کے بعد ہندوستان  آئے ہیں انہیں آمد کی تاریخ سے چودہ دن تک کے لیے قرنطینہ میں رہنا ہو گا اور ان کے آجرین کو چاہیے کہ اس مدت کے دوران ایسے ملازمین کے لیے گھر سے کام کرنے کی سہولت فراہم کریں۔ اسی کے ساتھ ہندوستان  آنے والے بین الاقوامی مسافروں کو اپنی صحت پر خود نگاہ رکھنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔

ہندوستان  نے ایک یورپی کمپنی کے سیاحتی جہاز لیریکا کو کل 10مارچ کوجنوبی شہر منگلور کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی اور اسے واپس بھیج دیا۔

دریں اثناہندوستان  کے جنوبی ریاست کیرل میں کورونا کے آٹھ نئے واقعات سامنے آنے کے بعد اس ہلاکت خیز وائرس سے 62 افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے ملک بھر میں 52 لیباریٹریز تیار کی ہیں، جہاں کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر متاثرہ افراد کے خون کی جانچ کی جا رہی ہے۔

Next Article

سلگتا بستر: امن مذاکرات کے لیے نکسلیوں کی تجویز

حال ہی میں نکسلائٹس کی سینٹرل کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر حکومت نکسلیوں کے خلاف  جاری کارروائیوں کو  روک دیتی ہے تو وہ غیر مشروط امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ چھتیس گڑھ کے بستر میں نکسل ازم کے خلاف مرکزی حکومت کی جنگ اور اس کے سماجی نتائج پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔

Next Article

تمل ناڈو گورنر کی من مانی، سپریم کورٹ کی سرزنش!

سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر کی جانب سے بل اور سرکاری احکامات کو روکنے کوغیر قانونی اور من مانی قرار دیا ہے۔ کئی دوسری ریاستوں میں بھی حکومت اور گورنر کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ کیا یہ فیصلہ ان کے لیے سبق آموز ہوگا؟ دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد اور سپریم کورٹ کی وکیل ورتیکا منی کے ساتھ تبادلہ خیال  کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے مغلیہ دور کی صرف پانچ عمارتوں سے 548 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی حاصل کی

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں کے لیے پانچ مقبول  ترین مغل یادگار ہیں۔ 20-2019 سے 2023-24 تک کی مدت میں حکومت نے ان پانچ مقاما ت میں ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

نئی دہلی: سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک کے سابق مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر کردہ پانچ مقبول ترین  یادگاروں سے گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے ۔

گزشتہ 3 اپریل کو وزارت ثقافت کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں میں مغلوں کی پانچ سب سے مقبول ترین یادگاریں ہیں۔

سال 2019-20 سے 2023-24 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران مرکزی حکومت نے ان پانچ یادگاروں پر ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے،اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ روزگار بھی پیدا ہوئے ۔

اطلاعات کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے سال 2023-24 میں آگرہ شہر میں تمام محفوظ یادگاروں کی دیکھ بھال پر 23.52 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ اس سال صرف تاج محل کے ٹکٹوں کی فروخت سے 98.5 کروڑ روپے آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایک سماجی کارکن راجہ مظفر بھٹ نے کہا، ‘ایسے وقت میں جب مغل حکمرانوں کا بی جے پی لیڈروں کے ذریعے مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہی حکومت ان کے مقبروں اور تاریخی مقامات سے بھاری آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ یہ منافقت ان  کے دوہرے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ ‘

معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2019-20 اور 2023-24 کے درمیان پانچ سالوں میں 2.2 کروڑ سیاحوں نے اتر پردیش کے آگرہ شہر میں واقع اوریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ اور ملک میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار تاج محل کا دورہ کیا، جس سے 297.33 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایم ایم سجا کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے بتایاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے ایک سال بعد سال 2015 سے ستمبر 2024 کے آخر تک  تاج محل میں ٹکٹوں کی فروخت سے 535.62 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔

اے ایس آئی، جو مرکزی وزارت ثقافت کے تحت آتا ہے، تاج محل دیکھنے کے لیے گھریلو سیاحوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ فیس 1100 روپے ہے۔ تاج محل کے مرکزی مقبرے کو دیکھنے کے لیے تمام سیاحوں کو الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔

یہ عمارت 17ویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں بنوائی تھی۔ تاج محل 1632 اور 1648 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

بی جے پی کے کئی رہنمااور ہندوتوا تنظیم بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جو شاہجہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اے ایس آئی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے ۔

قابل ذکر  ہے کہ 4 اپریل 2023 کو آسام کے بی جے پی ایم ایل اے روپ جیوتی کرمی نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم مودی سے سفارش کی تھی کہ تاج محل کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنایا جائے۔

قطب مینار ملک کی دوسری مقبول ترین مغل عمارت

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، قطب مینار ملک میں مغلوں کی دوسری مقبول ترین یادگار ہے، جسے پانچ سال کے عرصے میں 92.13 لاکھ سیاحوں نے دیکھا، جس سے 63.74 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اگر 2014 سے پچھلے پانچ سالوں کا اوسط لگایا جائے تو جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ 12ویں صدی کی یادگار نے دس سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 178.08 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

ماضی میں وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار ایک ‘وشنو استمبھ (ستون)’ ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس میں ہندو ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، جنہیں ‘یادگار بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔’

لال قلعہ، جہاں وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہیں اور اس کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں، ملک میں مغلوں کی تیسری مقبول ترین یادگار ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پانچ سال کی مدت میں تقریباً 90 لاکھ سیاحوں نے لال قلعہ کا دورہ کیا، جس سے 54.32 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1639 میں تعمیر کیا تھا، اس تاریخی قلعے سے اے ایس آئی  نے  2014 سے اوسطاً دس سال کے تخمینہ کے مطابق، ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 140 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

آگرہ قلعہ، جو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے، ملک میں مغلیہ  دور کی چوتھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار ہے، جس کا دورہ 2019-2020 سے 2023-2024 تک 69.61 لاکھ سیاحوں نے کیا، جس سے 64.84 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اے ایس آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، 1565 میں مغل شہنشاہ اکبر کی طرف سے تعمیر کردہ اس قلعہ میں  مودی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 2015 سے لے کر ستمبر 2024 تک تقریباً دو کروڑ سیاح آئے، جس سے کل 178.83 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ حکومت نے قلعہ میں کم از کم 35 لوگوں کو ملازمت دی ہے۔

اورنگ آباد، مہاراشٹر میں واقع رابعہ درانی کا مقبرہ ملک میں پانچویں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار ہے۔ یہ مقبرہ 1660 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے اعظم شاہ نے اپنی والدہ دلرس بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔

بی بی کا مقبرہ کے نام سے مشہور اس مقبرے کو سال 2019 سے 2024 تک 42.14 لاکھ سیاحوں نے دیکھا اور اس عرصے میں 68.51 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی قومی دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک درجن مرکزی طور پر محفوظ مغل یادگاروں کا انچارج ہے۔

ان میں خان خانہ، سلطان گڑھی مقبرہ، تغلق آباد قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، حوض خاص قلعہ، صفدر جنگ مقبرہ، کوٹلہ فیروز شاہ اور پرانہ قلعہ شامل ہیں، جن سے پانچ سال کے عرصے میں ٹکٹوں کی فروخت سے مجموعی طور پر 42 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی ہوئی ہے۔

اگرچہ مغلوں کی یادگاروں نے سرکاری خزانے میں اہم حصہ ڈالا ہے،  لیکن بی جے پی اور پارٹی سے وابستہ ہندوتوا گروپوں نےاپنی  اکثریتی سیاست کے تحت ملک کے سابق اسلامی حکمرانوں پر مسلسل ‘لوٹ کھسوٹ ‘ کا الزام لگایا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مغلوں کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گرانے کی سازش کر رہی ہے، جنہوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر کے بیشتر حصوں پر حکومت کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

اتر پردیش: اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیےمختص ہوئے 425 کروڑ، خرچ چونی بھی نہیں

اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ  مزدوروں  کے لیے گزشتہ چار سالوں میں مختلف اسکیموں کے لیےتقریباً 425 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ لیکن اس پیسے کوخرچ نہیں کیا گیا کیونکہ ان مزدوروں کے لیے کوئی  بھی اسکیم چلائی ہی نہیں جا رہی تھی۔

الہ آباد: اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے دعووں کے باوجود حکومت نے پچھلے سالوں میں ریاست کے ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

ریاست کا بجٹ 8 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یوگی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کی۔

دی وائر نے 17 فروری کو معلومات کے حق کے قانون کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدورں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں ایک درخواست  داخل کی تھی۔ اس درخواست کے ذریعے ریاست کے سوشل سکیورٹی بورڈ سے اَن آرگنائزڈ مزدروں کے لیے اسکیموں اور ان پر پچھلے چار سالوں میں کیے گئے اخراجات کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔

اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کا رجسٹریشن اور ان کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کے نفاذ کی ذمہ داری سوشل سکیورٹی بورڈ کی ہے۔

درخواست  میں سوال پوچھا گیا  تھاکہ مالی سال 2021-22، 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں ریاستی حکومت نے اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لیے کس اسکیم کے تحت کتنا بجٹ منظور کیا اور اس بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا گیا؟

اس کے جواب میں بورڈ نے بتایا کہ؛


‘پہلے تین مالی سالوں میں 112 کروڑ روپے’ ​​اور ‘2024-25 میں 92 کروڑ روپے’ ​​مختلف اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ۔ لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے کوئی اسکیم نہیں چلائی جا رہی تھی۔’


اس کا مطلب ہے کہ پچھلے چار سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے نہ تو کوئی اسکیم نافذ کی اور نہ ہی ریاست کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے ایک پیسہ خرچ کیا۔

اگلا سوال یہ تھا کہ کیا اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اسکیموں کی تشہیر کا کوئی نظام ہے؟ اگر ہاں تو اس کے لیے مذکورہ چار سالوں میں کتنا بجٹ مختص کیا گیا اور  کتنا خرچ کیا گیا۔

سوشل سکیورٹی بورڈ نے جواب دیا کہ مالی سال 2021-22 میں پانچ لاکھ روپے اور سال 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں سات لاکھ اسی ہزار روپے ان سکیموں کی تشہیر کے لیے مختص کیے گئے تھے، لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی اسکیم نہیں چل رہی تھی۔

ظاہر ہے کہ جب محکمہ کوئی اسکیم نہیں چلا رہا تھا تو ان کی تشہیر کا کوئی مطلب نہیں تھا۔

سوشل سیکورٹی بورڈ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ان مالی سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں سے لیبر ڈپارٹمنٹ کو مالی مدد کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئیں اور کتنے مزدوروں کی مدد کی گئی۔ جواب میں بورڈ نے کہا کہ اسے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔


‘حکومت ہند کے پورٹل ای شرم کے مطابق، ملک میں 30.68 کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ مزدرو ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین (53.68 فیصد) ہیں۔ اس میں سے تقریباً 8 کروڑ 38 لاکھ مزدور اتر پردیش سے رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ ملک میں رجسٹرڈ مزدوروں کا تقریباً 27.5 فیصد ہے۔ اَن آرگنائزڈ مزدوروں  کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کے پاس ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔


ریاست میں کانٹریکٹ ورکرز کو ہراساں کرنا عام ہے اور بازار میں مزدوروں کی دستیابی ان کی اجرت کی شرح کو کم کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ اسے پچھلے چار سالوں میں ان مزدوروں  کی مدد کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2022 میں جہاں غیر ہنر مند مزدورکی کم از کم اجرت 367 روپے، نیم ہنر مند مزدور 403 روپے اور ہنر مندمزدور کی 452 روپے یومیہ تھی، وہیں یہ 31 مارچ تک بالترتیب 412 روپے، 463 روپے اور 503 روپے یومیہ مقرر کی گئی ہے۔ بے قابو مہنگائی کے مدنظریہ اضافہ انتہائی ناکافی اور ایک عام مزدور کی روزمرہ  کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

خواتین مزدوروں کی حالت کہیں بدتر

چونکہ ملک میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے کل مزدوروں میں سے 53 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں چار کروڑ سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں۔ انہیں یہ روزگار زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام کی صورت میں ملتا ہے۔ ریاست میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو اوسطاً 200 روپے یومیہ اجرت ملتی ہے۔ یعنی اتر پردیش کی خواتین مزدور چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کو مجبور ہیں۔

وہیں، مردوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ دس سے گیارہ ہزار کے قریب پہنچتی ہے۔ ریاستی حکومت کے پاس اس بڑی آبادی کو کم از کم اجرت یقینی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والوں کا تعلق ریاست کے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ یہ کمیونٹی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ جدوجہد کرتی ہے۔

جب دی وائر نے ریاست کے محنت اور روزگار کے وزیر منوہر لال سے پوچھا کہ حکومت نے ان مزدوروں کی بہبود کے لیے مختص رقم کیوں خرچ نہیں کی، تو انھوں نے جواب دیا، ‘اس موضوع پر انھیں کوئی معلومات نہیں ہے۔’

جب ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کہا، ‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔’

(ہرے رام مشر آزاد صحافی ہیں۔)

Next Article

ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

غالباً 2018 میں جب جموں و کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی مدت ختم ہو رہی تھی دہلی میں ان کے ممکنہ جانشین کے بطور ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل سید عطا حسنین کا نام گردش کر رہا تھا۔ جنرل حسنین جو سرینگر میں موجود فوج کی چنار یا 15 ویں کور کے کمانڈر رہ چکے تھے، کے کشمیر میں بطور گورنر کی ممکنہ تعیناتی پر میں چونک سا گیا تھا۔

ان ہی دنوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں سر راہ ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہایت ہی اعلیٰ ذرائع سے ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے تیار رہیں۔

میں نے ان سے کہا، چاہے وہ کتنے ہی سیکولر کیوں نہ ہوں، ان کا نام مسلمانوں جیسا ہے، اس لیے  وہ اس عہدہ کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ اب ان کے چونکنے کی باری تھی۔میں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا گورنر ویشنو دیو ی شرائن بورڈ اور امرناتھ شرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔

ان دونوں تیرتھ استھانوں کے ایکٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ اس کا چیئرمین ایک ہندو ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا کہ چند رو ز بعد ایک ہندو ستیہ پال ملک کو گورنری کی دستار تفویض کی گئی۔ یعنی ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا گورنر یا لیفٹنٹ گورنر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہندو استھانوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے ابھی حال ہی میں ہندوستانی پارلیامنٹ نے سو سال قدیم مسلم وقف قانون کو رد کرکے ایک نیا قانون پاس کرکے اس میں یہ لازم قرار دیا کہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈذ کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہونے چاہیے۔

سابقہ قانون کے تحت دونوں اداروں کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔اب اس میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت متعین کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہو ں گے اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔چار مسلم اراکین میں دو خواتین کا ہونا لازمی ہے۔

ان اراکین اور چیئرمین کو اب حکومت نامزد کرےگی۔ نیز ریاستی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔وقف جائیدادوں کے تنازعوں کا نپٹارا کرنے کے لیے قائم  وقف ٹربیونل میں مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔

اب ٹربیونل صرف ایک موجودہ یا سابقہ ڈسٹرکٹ جج اور ایک ریاستی افسر پر مشتمل ہوگا۔ مہاراشٹرا میں شری سائی بابا ٹرسٹ کا قانون کہتا ہے کہ جو افسر وہاں کام کرے گا اسے سائی بابا کا عقیدت مند ہونا چاہیے اور اسے ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے۔

اسی طرح دیگر ہندو یا دیگر مذاہب کے مٹھوں یا عبادت گاہوں کے انتظام ا انصرام کےلیے اسی مذہب کا ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ دل و جان اور عقیدہ کے ساتھ اس ادرارے کی خدمت کرسکے۔

یہ نیا قانون کس قدر متعصبانہ حد تک ظالمانہ ہے کہ اس کی ایک اور شق کے مطابق اب صرف ایسا شخص ہی  وقف یا اسلامی مذہبی و فلاحی مقاصد کے لیے زمین یا جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے با عمل مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔

وہ دینداری کا ثبوت کیسے فراہم کرے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ کیا کسی سند کی ضرورت ہوگی یا علماء کی تصدیق درکار ہوگی؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا معیار کیا ہے؟

یعنی یہ قانون غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل ہونے اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کی اجازت دیتا ہے، مگر اگر وہ وقف کے کاموں کے لیے عطیہ دینا چاہیں گے، تو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن کر بنایا گیا یہ قانون تضاد ات کا عجیب مجموعہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی،اس کو اب چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔

پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو  قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے۔اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔

دارالحکومت دہلی کے سینٹرل گورنمٹ آفس کمپلکس کا بیشتر حصہ جس میں خفیہ ایجنسی راء سمیت سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کے صدر دفاتر وقف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اب ہمیشہ کے لیےوقف کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔

ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے  مجھے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔

پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019میں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اورمتعدد تعلیمی اور رفاعی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے، کو بھی اس فہرست میں شامل کردیتے۔

بقول سابق رکن پارلیامنٹ محمد ادیب بابری مسجد تو بس ایک عبادت گاہ تھی، اب تو  اس نئے وقف قانون سے ہندوستان کی سبھی مساجد و درگاہوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔

پچھلی دو دہائیوں سے سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب سے اکثر خبریں آتی تھیں کہ مقامی سکھ خاندان یا کسان اپنے علاقوں میں1947سے غیر آباد مساجد کو دوبارہ آباد کرانے یا نئی مساجد بنانے کے لیے اپنی زمینیں بطور عطیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کم و بیش دو سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

چونکہ اس صوبہ میں مسلم آبادی ہی ایک فیصد سے کم ہے، اس لیے مسلمان ا ن مساجد کو آباد کر ہی نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اکثر دیہی علاقوں میں دور دور تک  ان کی آبادی ہی نہیں ہے ۔ رواں برس کے اوائل میں ہی ضلع مالیرکوٹلہ کے ایک گاؤں عمرپورہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کی تعمیر کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین وقف کر دی۔

ا ن کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں آباد مسلمان گھرانوں کے  پاس عبادت کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر سکھوں تجونت سنگھ اور رویندر سنگھ گریوال نے مسجد کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کی۔

وہ ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 1.9 فیصد ہے اور جہاں 1947 میں خونریز فسادات ہوئے تھے، اب ایک خاموش انقلاب، یعنی فرقہ وارانہ رواداری کی نقیب بنی ہوئی ہے ۔

اسی طرح جٹوال کلاں نامی سکھ اکثریتی گاؤں میں، جہاں مشکل سے درجن بھر مسلم گھرانے آباد ہیں، ایک نئی مسجد تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سب سکھوں کی زمین اور مالی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔

اب نئے وقف قانون کی رو سے پنجاب میں سکھ خاندانوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے عطیہ کی گئی سینکڑوں زمینیں  کاالعدم یا غیر قانونی قرار پائیں گی۔ایک سکھ سرپنچ کے مطابق اگر یہ قانون پہلے سے نافذ ہوتا تو وہ مسجد بنانے میں مدد نہیں کرسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ  یہ معاملہ صرف عطیہ کا نہیں، بلکہ مشترکہ زندگیوں کا ہے  اور حکومت ایسی یکجہتی کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7 فیصد پر قبضہ ہے، 2 فیصد مقدمات میں ہیں اور 50 فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔

اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔ ہندو فرقہ کو لام بند کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ ابہام بھی پھیلایا گیا کہ ہندوستان میں ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ اگر اس میں دیگر ریاستیں، خاص طور پر شمالی ہندوستان کی اترپردیش اور بہار کو شامل کیا جائے تو یہ وقف کے پاس موجود اراضی سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔  اسی طرح مسیحی برادری بھی ہر شہر میں پرائم پراپرٹی کی مالک ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سنجے کے جھا نے دی وائر میں لکھا کہ یہ قانون دراصل فرقہ وارانہ شکوک پیدا کرنے کی بڑی سازش کا حصہ ہے، جسے حکومت عوام کی بھلائی کے نام پر پیش کر رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس نے وقف بل مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے۔

اس جھوٹ کو بیچنے کا جو حوصلہ حکومت نے دکھایا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ان کا مقصد مسلمانوں کو تنہا اور الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس قانون کے اثرات پنجاب سے کہیں آگے تک  ہیں۔ پورے ہندوستان میں اب بین المذاہب خیرات شک کی نگاہ سے دیکھی جاے گی۔

کوئی ہندو یا سکھ اگر کسی مسلم وقف ادارے کو عطیہ دینا چاہے تو پہلے اُسے مذہب تبدیل کرنا ہوگا اور پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یوں خیرات کا جذبہ سرکاری دھندلکوں میں الجھ کر رہ جائےگا۔

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

عمر پورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں سکھ اور مسلمان آج بھی مل کر بستیاں بساتے ہیں۔ مگر قانون کی نظر میں اب ان کی محبت اور بھائی چارہ قابلِ گرفت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔

اب اگرسلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300  جائیدادیں تقریباً 32000 کنال (تقریباً 4000 ایکڑ) زمین ہے۔

تاہم ایک بڑا حصہ—خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان—ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔

دیہی کشمیر میں ان مقامات کی بنیاد کئی نسلیں پہلے رکھی گئی تھی، اور انہیں رسمی قانونی طریقہ کار کے بجائے کمیونٹی کے مسلسل استعمال کے ذریعے سند حاصل ہوئی تھی۔ ”استعمال کے ذریعے وقف“  یعنی ”وقف بائی یوز“کی شق کے خاتمے کے بعد، یہ مقامات اب دوبارہ درجہ بندی، تنازعے یا حتیٰ کہ دوبارہ استعمال کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ قانونی تحفظ، جو کبھی تسلسل اور اجتماعی یادداشت سے حاصل ہوتا تھا، اب مکمل طور پر تحریری دستاویزات پر منحصر ہو گیا ہے۔

تاریخی طور پر کشمیر میں —جیسے کہ برصغیر کے بیشتر حصوں میں —مذہبی اور فلاحی زمینیں اکثر باہمی اعتماد اور زبانی معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ جہاں بزرگ کسی درخت تلے نماز پڑھنے بیٹھتے، وہاں مسجد وجود میں آجاتی؛ جہاں کسی گاؤں کے پہلے شہید کو دفنایا جاتا، وہاں قبرستان بن جاتا؛ اور جہاں کوئی صوفی اپنی جائے نماز بچھاتا، وہاں خانقاہ کی بنیاد پڑتی۔

‘استعمال کے ذریعے وقف’ کا اصول ایسے مقامات کو قانونی حیثیت دیتا تھا، چاہے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔نیا قانون محض کوئی سرکاری ضابطے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔

کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بے شمار قبرستان، خانقاہیں اور دینی مدارس مقامی افراد، محلوں یا گاؤں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، جن کے پاس کوئی تحریری دستاویزات نہیں، مگر خدمت کے طویل اور بے داغ ریکارڈ ضرور ہیں

نیا قانون ان جائیدادوں پر ریاستی اداروں یا نجی ترقیاتی منصوبوں کے قبضے کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، خصوصاً جدید کاری یا شہری منصوبہ بندی کے نام پر۔

دفعہ 370 کی منسوخی اورمرکزی انتظام کے بعد، اس اقدام کو کشمیر کے مزید ذہبی، ثقافتی اور سیاسی  زوال کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔کبھی ان جائیدادوں کا محافظ سمجھے جانے والا جموں و کشمیر وقف بورڈ اب بے دست و پا نظر آتا ہے۔

وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98 فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔وقف کی پوری جائیدادوں کا  27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔

نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا، جو زرعی سال 1359ھ (1952ء) کے ریونیو ریکارڈز کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔  ترمیم کا اطلاق ان 57792 سرکاری جائیدادوں پر ہو گا، جو مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر 11712 ایکڑ پر محیط ہیں۔

تیس سے زائد مسلم دانشورو ں، جن میں سابق بیوروکریٹ، یونیورسٹی اساتذہ، قانون دان، سیاستدان وغیرہ شامل ہیں نے ایک مشترکہ بیان میں شکایت کی ہے کہ پارلیامنٹ کی طرف سے وقف ایکٹ کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔

ان کے مطابق آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اس گروپ میں جس میں کئی سابق اعلیٰ فوجی افسران، جیسے لیفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق پولیس سربراہ محمد وزیر انصاری شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات دل دہلا دینے والے ہیں اوران کے  آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی  کے ساتھ رہ سکیں گی۔

احتجاجی مظاہرہ میں اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

حیدر آباد کے ممبر پارلیامنٹ  اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کے مطابق یہ وقف ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان اور عبادت پر ایک حملہ ہے۔

پارلیامنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور یہ  جنگ آزادی، سماجی و معاشی سرگرمیوں اور شہریت پر ہے تو تھی ہی، اب  مدارس، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی وقف کی گئی جائیدادوں کا تحفظ برقرار رہےگا، کیونکہ ان کے قوانین کو تحفظ حاصل ہے اور ان کا انتظام خود ان کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی بھی غیر مذہب ا ن کے لیے عطیہ دے سکتا ہے اور ان کے انڈومنٹس کا تحفظ ہوگا۔ان پر لاء آف لیمیٹیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اویسی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے وقف بائی یوزر چھینا گیا ہے، مگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیےچھوٹ ہے۔  ہندو، بدھ، سکھ مذاہب کو  منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو حاصل کرنے اور اس کے انتظام کا حق حاصل ہے، مگر صرف مسلمانوں سے یہ حق چھینا گیا ہے۔

دہلی میں 271 وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کی پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔چونکہ تنازعہ کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازعہ حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقف بائی یوزر میں جب کوئی افسر کہہ دے گا کہ یہ وقف کی جائیداد نہیں ہے، تو وقف بورڈ خاموش بیٹھ جائے گا اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا،کیونکہ ان کے چیئرمین حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔

اس قانون کے ذریعے شاید مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے جنگل میں چرواہا بکریوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھیڑیوں کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کو شیر سے بچانے کے نام پر خود نوچ رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ وسط ایشیاء پر روس کے قبضے کے بعد سب سے پہلے اوقاف ضبط کیے گئے تھے، تاکہ مساجد اور مدرسوں کے وسائل ختم کرائے جائیں۔ جب عوام نے چندہ جمع کرکے مسجدیں چلانا شروع کیں، تو چند ہ ٹیکس لگایا گیا۔

لوگوں نے اب گھروں میں نمازیں ادا کرنا شروع کیں، مساجد ویران ہوگئیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کے یونٹ قرار دار پاس کرتے کہ مسجد ویران ہے، اس لیے اسکو رفاعی کاموں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح مسجدکو شہید کروایا جاتا اور کسی اور تصرف میں لایا جاتا۔

 ایک چیز خوش آئند ہے کہ ہندوستانی مسلم زعما کو یہ  بات سمجھ  میں آگئی ہے کہ ان کو کنارے لگایا گیا ہے۔ ورنہ جب ان سے درخواست کی جاتی کہ کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ ہونٹ تو ہلائیں، تو ان کے منہ کا ذائقہ خرا ب ہوجاتا تھا۔

سال 2019 میں جب خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، تو جمعیتہ علماء ہند کے ایک ذمہ دار تو جنیوا مودی حکومت کا دفاع کرنے پہنچ گئے۔  ایک آدھ  ملی رہنماؤں کو چھوڑ کر ان میں اکثر مارٹن نیمولر کی اس نظم کی عملی تفسیر تھے۔

پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔

پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔

پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

 شاید ہندوستان میں مسلمان ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ ایک ذی ہوش طبقہ ابھی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان کو ساتھ لےکر ہی ان کی داد رسی ہوسکتی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم ہوسکے گا۔