تینوں افراد کو دی ریزسٹنس فرنٹ کے لیے کام کرنے کے الزام میں پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں صوبے میں شہریوں پر ہوئے حملوں کی ذمہ داری لینے والے دی ریزسٹنس فرنٹ کو لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم مانا جاتا ہے۔پولیس کے ڈوزیئر میں تینوں پر جدید کمیونی کیشن تکنیک کا استعمال کرنے کی بات کہی گئی ہے، حالانکہ ایک کے رشتہ دار نے بتایا کہ تینوں ان پڑھ ہیں اور انہوں نے کبھی اسمارٹ فون تک استعمال نہیں کیا ہے۔
آدی واسی خاتون فاطمہ بیگم صدمے میں ہیں اور یقین نہیں کر پا رہی ہیں کہ ان کے بیٹے پر ‘اوور گراؤنڈ ورکر’ہونے کا الزام لگا ہے۔اوور گراؤنڈ ورکر انہیں کہا جاتا ہے، لاجسٹک سپورٹ، نقدی، پناہ گاہ اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
فاطمہ بیگم(70)کے بیٹے ارمیم گوجر کو دی ریزسٹنس فرنٹ(ٹی آرایف)کا اوور گراؤنڈ ورکر ہونے کے الزام میں پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا ہے۔
ٹی آرایف نے کشمیر میں حال ہی میں ہوئے حملے کی ذمہ داری لی ہے۔ ان حملوں کا شکار ہوئے لوگوں میں سے چار ہندو اور سکھ کمیونٹی سے ہیں اور تین کشمیری مسلم ہیں۔ سیکیورٹی ایجنسیاں ٹی آر ای ٹی آرایف کو لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم تصور کرتی ہیں ۔
پیشہ سے بڑھئی ارمیم(45)کے علاوہ عبدالباری(50)اور سلیمان گوجر (50)کے خلاف بھی اسی طرح کے الزامات میں پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
انہیں آٹھ اکتوبر کو باندی پورہ پولیس نے طلب کیا تھا اور بعد میں انہیں ان کے گھروں سے 300 سے زیادہ کیلومیٹر دور جموں کے کوٹ بھلوال جیل لے جایا گیا۔
دی وائر سے بات چیت میں فاطمہ نے کہا کہ ان کا بیٹابے قصور ہے اور اس کا دہشت گردوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،‘ہم غریب لوگ ہیں اور دہشت گردوں سے ہمارا دوردور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ الزام بے بنیاد ہیں۔’انہوں نے کہا کہ انہیں باربار اپنے بیٹے کا روتا ہوا چہرہ یاد آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا،‘کوٹ بھلوال جیل لے جانے سے پہلے میرے بیٹے نے مجھے گلے لگایا اور ایک بچہ کی طرح میری گود میں رویا۔ وہ مجھے باربار بتا رہا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور اس نے مجھے جیل سے باہر نکالنے کے لیے کچھ کرنے کو کہا۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔’
فاطمہ کی طرح ان آدی واسی علاقوں کے دوسرے مقامی لوگ بھی ان تینوں کی بےگناہی کی تصدیق کر رہے ہیں اور ان پر لگے الزامات کو مسترد کر رہے ہیں۔
ایک نوجوان نے پہچان اجاگر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا،‘ہمیں سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہمارے علاقے سے کوئی دہشت گردی میں شامل نہیں ہوا لیکن ہمارے لوگوں کو ابھی بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔ ہم نے گزشتہ تین دہائیوں میں انتخابات کے دوران بڑی تعداد میں ووٹ کیا ہے اور کسی طرح کی غیرقانونی سرگرمی میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ کیا یہ پرا من طریقے سے رہنے کا انعام ہے؟’
ایک دوسرے شخص نے کہا، ‘ہم نے وزیر اعظم مودی اور لیفٹیننٹ گورنر سمیت انتظامیہ سے معاملے کو دیکھنے اور انصاف کو یقینی بنانےکو کہا ہے۔اگر ان لوگوں کا دہشت گردی سے تھوڑا سا بھی رشتہ ہے تو انہیں ہمارے لوگوں کو سزا دینے دو لیکن اگر یہ بے قصور ہیں تو جن لوگوں نے انہیں پھنسایا ہے، انہیں سزا ملنی چاہیے۔’
فاطمہ کے دوسرے بیٹے محمد مبین گوجر نے دی وائر کو بتایا،‘ہم سبھی وہاں گئے تھے اور بعد میں وہاں سے جموں و کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے کیمپ میں شفٹ کیا گیا تھا۔ ہمیں دو دنوں تک کیمپ میں رکھا گیا تھا اور وہاں سے باندی پورہ پولیس اسٹیشن لے جائے جانے سے پہلے ہم سے پوچھ تاچھ کی گئی۔’
انہوں نے کہا کہ انہیں21 اکتوبر کو پتہ چلا کہ ان کے بھائی سمیت تین لوگوں کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں جموں شفٹ کیا گیا۔
دائیں ہاتھ کو لقوہ مار جانے کے بعد 2010 سے بستر پکڑ چکے مبین نے کہا، ’20 اکتوبر کو انہیں اپنے کپڑوں اور کمبلوں کے ساتھ جیل سے باہر آنے کو کہا گیا۔ مجھے لگا کہ انہیں رہا کیا جا رہا ہے لیکن جب اگلے دن میں نے ساتھی قیدیوں سے سنا تو میں چونک گیا کہ انہیں جموں لے جایا گیا۔’مبین کو 23 اکتوبر کو رہا کیا گیا تھا۔
انتہائی مفلسی میں جی رہے عبدالباری کے اہل خانہ بھی صدمے میں ہیں۔ عبدا باری کی بیوی سکینہ بیگم نے بتایا،‘میرے شوہر گھر چلانے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ آپ گاؤں میں ان کے بارے میں کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی ان کے خلاف کچھ بھی غلط نہیں کہے گا۔’
سکینہ چل نہیں سکتیں اور وہ باندی پورہ میں اپنے شوہر سے مل بھی نہیں سکیں، جہاں ان کے شوہر کو 12 دنوں تک حراست میں رکھا گیا۔
سکینہ نے کہا،‘میرے پاس شام کے کھانے کے پیسے بھی نہیں ہے۔ میرے پاس ان سے ملنے کے لیے جموں جانے اور کیس لڑنے کے لیے وکیل کا انتظام کرنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔’
مقامی لوگوں کے مطابق،حراست میں لیے گئے ان تین لوگوں میں سے ایک محمد سلیمان گوجر کی بیوی پروینہ بیگم نے دی وائر کو بتایا،‘میرے شوہر چرواہے کا کام کرتے ہیں اور اس کام میں بہت کم آمدنی ہے اور گھر کے روزانہ کے خرچ بہ مشکل ہی پورے ہو پاتے ہیں۔’
پروینہ اور ان کے بچہ ابھی بھی عارضی شیلٹر میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کےشوہر کی حراست بندی کے بعد بھیڑیں ان کے مالک کو لوٹا دی ہیں۔
انہوں نے کہا،‘میں تذبذب میں ہوں کہ کیا مجھے اپنے شوہر کا کیس آگے لڑنا چاہیے یا گھر چلانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میرے شوہر کی غیرموجودگی میں میرے بچوں کا دھیان کون رکھےگا۔’
پولیس ڈوزیئر میں کیا کہا گیا
پولیس کےذریعےتیار کیے گئے اور باندی پورہ کےضلع مجسٹریٹ کے دستخط شدہ تین الگ الگ ڈوزیئر میں تینوں پر لگائے گئےالزام ایک جیسے ہی ہیں۔
ڈوزیئر کے مطابق، تینوں پر ٹی آرایپ سے جڑے ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ڈوزیئر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان سبھی کی عمر 45 سال ہے۔ حالانکہ باری اور سلیمان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی عمر 50 سال ہے۔
دلچسپ یہ ہے کہ یہ ڈوزیئر ان کے خلاف درج کسی ایف آئی آر پر مبنی نہیں ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انہیں پہلے دفعہ107 اور 151 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
تینوں کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں آٹھ اکتوبر سے پہلے حراست میں نہیں لیا گیا، جس دن انہیں پولیس نے طلب کیا تھا۔
ڈوزیئر میں کہا گیا کہ تینوں کو 19 اکتوبر تک سی آر پی سی کی دفعہ107 اور 151 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔19 اکتوبر کو ہی انہیں پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ ان پر سیکیورٹی ایجنسیوں سے بچنے کے لیے جدیدکمیونی کیشن تکنیک کا استعمال کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
حراست میں لیے گئے ایک شخص کےرشتہ دار غلام مصطفی گوجر نے کہا کہ ان میں سے کسی نے بھی اسمارٹ فون کا استعمال نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘وہ ان پڑھ ہیں،کبھی اسکول نہیں گئے۔وہ جدید کمیونی کیشن ایپ کا کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کے فون ابھی بھی پولیس کے قبضے میں ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ 23 اکتوبر کو رہا کئے گئے مبین کے پاس ہی اسمارٹ فون تھا، جسے اس نے کووڈ 19 کے بعد بچوں کی آن لائن کلاس کے لیے لیا تھا۔
باندی پورہ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ زاہد ملک نے کہا کہ ڈوزیئر میں سب کچھ تفصیل سے ہے۔ میں اس پر اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔
باندی پورہ کے ڈپٹی کمشنراویس احمد نے کہا کہ ڈٹینشن آرڈر میں کسی طرح کی خامی ہونے پر حراست میں لیے گئے شخص قانونی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)