’اہم ایشو بے روزگاری ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، 500 روپیہ مزدوری بھی کم پڑ رہی ہے‘

کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔

کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔

اتر پردیش کے شراوستی میں اپوزیشن 'انڈیا' اتحاد کی ریلی۔ (تصویر: فیس بک/ایس پی)

اتر پردیش کے شراوستی میں اپوزیشن ‘انڈیا’ اتحاد کی ریلی۔ (تصویر: فیس بک/ایس پی)

گورکھپور: لوک سبھا انتخابات 2024 کا موڈ بالکل مختلف ہے۔ پچھلے دس دنوں میں، پانچ علاقوں – مہاراج گنج، گورکھپور، سنت کبیر نگر (اتر پردیش) اور آرہ، چھپرہ (بہار) میں بس، ٹرین میں سفر کے دوران ، گلی، کونوں اور پر چہ نامزدگی کے ہجوم اور راہ چلتے ملنے والے لوگوں  کی آپسی بات چیت سنتے اور پوچھے گئے سوالوں کے جوابات سے لگتا ہے کہ یہ الیکشن مقامی ایشوز کے ساتھ ساتھ قومی ایشوز کے لیے بھی ہے۔

کئی انتخابات کے بعد یہ نظر آرہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے مسائل عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور اس کا اثر بھی ہو رہا ہے۔ دوسری طرف رام مندر اور قوم پرستی کی چمک ماند پڑ گئی ہے اور مہنگائی، بے روزگاری اور آئین کے سوالوں کے آگے بی جے پی بے بس  ہو چکی ہے۔

ٹرین سے گورکھپور سے چھپرہ جاتے ہوئے سلیپر بوگی میں چار پانچ مسافروں میں ٹرینوں کی تاخیر اور بوگیوں میں بدانتظامی کو لے کر بحث چھڑ گئی۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ٹرین کا سفر زیادہ تکلیف دہ ہو گیا ہے۔ ایک مسافر اس کا تعلق مودی حکومت کے ذریعے سرکاری اداروں کی فروخت سے جوڑ  دیتا ہے۔

ایک مسافر بے روزگاری کا سوال اٹھا  دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ کسی بھی چوراہے پر چلے جائیے تو ٹھیلہ لگانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ ہیں۔آخر وہ  کریں بھی ہیں تو کیا کریں؟ سرکاری بھرتیاں ہو نہیں رہی ہیں۔ ہر امتحان کا پرچہ لیک ہو رہا ہے۔ تبھی ایک اور مسافر آہستہ  سے بول اٹھتے  ہیں کہ مودی جی سب کو کام کرانے کی عادت ڈال رہے ہیں۔ اس پر ایک مسافر طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ بھکتوں کے پاس ہر سوال کا اسی طرح  کا جواب ہے۔

چھپرہ بس اسٹینڈ پر باٹی چوکھا کے چھوٹے سے اسٹال پر دکاندار نے کہا کہ لالو کی بیٹی اور روڑی میں سیدھا مقابلہ ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کون بیس پڑے گا، تو  اس نے کہا کہ وہ مودی کے نام پر ووٹ دے گا۔ روڈی جی تو جیتنے کے بعد نظر نہیں آئیں گے۔ دہلی چلے جائیں گے لیکن ہم مودی جی کے ساتھ ہیں۔ وجہ پوچھی تو وہ خاموش رہا۔

چھپرہ ریلوے اسٹیشن مارکیٹ۔ (تصویر: منوج سنگھ)

چھپرہ ریلوے اسٹیشن مارکیٹ۔ (تصویر: منوج سنگھ)

آرہ میں رمنا میدان سے کالی مندر کی طرف جانے والی سڑک پر ایک پرانے گھر میں کپڑے استری کرنے والے ایک دلت شخص نے بھی مودی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مودی جی ہمیں سب کچھ دے رہے ہیں تو ہم کسی اور کے ساتھ کیوں جائیں۔

رمنا میدان میں ٹہلنے والے ایک گروپ میں کم ٹرن آؤٹ پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ایک شخص اونچی آواز میں کہتا ہے کہ دیکھیے اتنا لوگ ٹہلنے آیاہے لیکن ووٹ ڈالنے سب نہیں جائے گا۔ سب ووٹ ڈالنے جائے تو کوئی لڑائی بنتی ہی نہیں۔

رمنا میدان کےجنوبی سرے پر ایک ریستوران میں کام کرنے والے پاسوان نوجوان نے کہا کہ ہم دلت اور پسماندہ لوگ اپنے امیدوار (مالے) کے ساتھ ہی رہیں گے۔ ہم لوگ ان کے ساتھ نہیں رہیں گے تو کون رہے گا؟

ایک ہوٹل میں ویٹر کا کام کرنے والے رجت یادو کا کہنا تھا کہ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد وہ خاندان چلانے کے لیے ویٹر بن گئے ہیں۔ ‘ہمارے محلے میں یادو اور پاسوان برادری کے لوگ آر جے ڈی کو ہی ووٹ دیں گے۔’ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ آخر آرہ میں گزشتہ 10 سالوں سے مہا گٹھ بندھن کو جیت کیوں نہیں مل رہی ہے؟

آرہ سے چھپرہ آ رہی ایک پرائیویٹ بس میں سوار مزدوروں میں چھپرہ پہنچتے  پہنچتے انتخابات پر بحث شروع ہوگئی۔ ایک مزدور نے کہا کہ مودی جی نے بہت کام کیا ہے۔ سامنے بیٹھے دوسرے مزدور نے فوراً پوچھا، بتائیے کون ساکام کیے ہیں؟ ‘دو کروڑ نوکری دینے کی بات کہا تھا، کتنے لوگوں کو نوکری ملی۔ تیجسوی نے تو نوکری دے کر دکھا دیا۔’

مودی حامی مزدور نے کہا کہ ‘مودی جی نے مندر بنوا دیے ہیں۔ اس پر بے روزگاری کا سوال اٹھانے والے مزدور کی آواز بلند ہو گئی، ‘مندر بنا دینے سے بے روزگاری ختم ہو گئی کیا؟ مندر مسجد کوئی ایشو نہیں ہے، بے روزگاری ایشو ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ 500 روپے کی مزدوری بھی کم پڑتی ہے۔’

مودی کا حمایتی مزدور اب مذاق کرنے لگا، آر جے ڈی کو ووٹ دیں گے تب بھی ووٹ مودی کو ہی چلا جائے گا۔’

جواب آیا، ‘اصل مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ نوجوانوں کی نوکری  (اگنی پتھ) چار سال کر دی۔کو ئی بیوقوف ہی ہوگا جو مودی  کوووٹ دے گا۔’

نوجوان مزدوروں کی بات چیت سن کر بس کے پچھلے حصے میں بیٹھے دو مسافر بھی الیکشن پر بات شروع کر  دیتے ہیں۔ ایک مسافر کہتا ہے کہ ‘جب سے مودی جی پی ایم بنے ہیں سب کچھ بیچے جا رہے  ہیں۔ زمین بیچ دی، آسمان بیچ دیا، سمندر بیچ رہے ہیں۔ ہم نے اس لیے انہیں وزیراعظم تھوڑے نہ بنایا تھا۔ امبانی-اڈانی سرکار چلا رہے ہیں۔ جب مودی جی وزیر اعظم بنے تو منموہن سنگھ نے کہا کہ سنبھل کر چلائیے گا لیکن یہ کہاں کچھ مان رہے ہیں۔’

کچھ دیر بعد نوجوان مزدوروں کی بحث اس بات پر ختم ہو جاتی ہے کہ لیڈروں سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ مودی کی حمایت کرنے والا مزدور ہنستے ہوئے نعرہ دیتا ہے، ‘آر جیڈیو زندہ باد’۔ مودیو زندہ باد۔’

اتر پردیش کے مہاراج گنج پارلیامانی حلقے کے ٹھوٹھی باڑی میں ایک مزدور نے مجھ سے دو بار پوچھا کہ اس بار اس کے کسان سمان ندھی کے پیسے نہیں آئے۔ گاؤں کے سب لوگوں کا  آیا ہے۔ جب ہم نے کانگریس کے منشور کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا لیکن ایک اور شخص نے کہا کہ کانگریس قرض معاف کرنے جار ہی  ہےاور نوجوانوں کو روزگار دے گی۔

روزگار اور مہنگائی کے سوال کو حاشیے کے لوگ بھی اہمیت کے ساتھ اٹھا رہے ہیں۔ مگہر میں سنت کبیر نروان استھلی کے احاطے میں چاٹ کا اسٹال چلانے والے شیوچرن گپتا سے جب انتخابی ماحول کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پانچ کیلو راشن پر سب کچھ بھلا بیٹھا ہے۔ بھلے ہی بھگت رہا ہے، مصیبت میں ہے،دکھ اٹھا رہا ہے لیکن اندھا بنا ہوا ہے۔

‘یہ 100 روپے کا راشن میٹھی گولی کی طرح ہے۔ کتنی مہنگائی ہے! چار سو کی دہاڑی میں پورا نہیں پڑ رہا ہے۔ 100-150 روپے لے کر جاؤ تو دو جون کی سبزی بھی نہیں آتی ہے۔ مودی جی جب وزیر اعظم بنے تو کہتے تھے کہ وہ کالا دھن واپس لائیں گے۔ سونا سستا ہو جائے گا۔ آج سونے کی قیمت کیا ہے؟ کالا دھن کہاں گیا؟ مہنگائی، بے روزگاری آسمان پر ہے اور خالی ہوا ہوائی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم فٹ والوں کا جینا دشوار ہو گیا ہے۔ ہمیشہ کھدیڑنے پر لگے رہتے ہیں۔’

مگہر میں سنت کبیر نروان استھلی کو سجانے سنوارنے کے کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اور ٹھیلے والے نے کہا کہ ‘دیکھیے اتنا بڑا بڑا کام ہو رہا ہے لیکن ہم لوگوں کو روزگار کیوں نہیں ملتا۔’

احاطے میں جہاں یہ لوگ اپنا ٹھیلہ لگائے ہوئے تھے، ٹھیک اس کے سامنے اسٹریٹ وینڈروں کے لیے دکانیں بنائی گئی ہیں، جن پر تالے لٹک رہے تھے۔ شیوچرن گپتا نے کہا کہ ہمیں وہاں جگہ نہیں ملے گی۔ پولیس بار بار ہمیں یہاں سے بھگا دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم گندگی پھیلاتے ہیں۔

سنت کبیر کے نروان استھلی کے احاطے میں ٹھیلے والے۔ (تصویر: منوج سنگھ)

سنت کبیر کے نروان استھلی کے احاطے میں ٹھیلے والے۔ (تصویر: منوج سنگھ)

گورکھپور کے راپتی پل پر میوہ فروش خاتون بھی سڑک پر دکانداروں کو نظر انداز کیے جانے اور بار بار کھدیڑے جانے کی وجہ سے کافی ناراض نظر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گی۔

‘ہمیں بار بار کھدیڑا جا رہا ہے۔ ہم کوئی گانجہ تو نہیں بیچ رہے ہیں۔ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ حکومت کے اشارے پر داروغہ اور سپاہی ہمیں بھگا رہے ہیں۔ ہم لوگ ووٹ دے کر کیا کریں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کیوں بھگایا جا رہا ہے؟ ہمیں بھگانا ہی ہے تو ہماری مزدوری کا انتظام کیا جائے۔ جو وینڈنگ زون بنایا گیا ہے وہ سڑک سے کافی نیچے ہے۔ وہاں کوئی گاہک ہی نہیں آئے تو ہم وہاں جا کر کیا کریں گے؟’

اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ‘جب ہم پریشان، بے چین رہیں گے تو ووٹ دے کر کیا کریں گے۔’

گاندھی آشرم مگہر (سنت کبیر نگر) کے ایک ریٹائرڈ ملازم نے انتہائی دکھی لہجے میں کہا کہ ان کا بیٹا بی ایس سی کرنے کے بعد بھی ڈرائیوری کا کام کر رہا ہے۔ ‘ہم شرم سے کسی کو نہیں بتاتے۔ اس حکومت میں بے روزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔’

مگہر میں ملے لوگوں نے سنت کبیر نگر پارلیامانی حلقہ میں ایس پی اور بی جے پی کے درمیان سیدھی لڑائی بتائی۔ دو لوگوں کا کہنا تھا کہ اس بار سائیکل پر زیادہ زور ہے۔

مہاراج گنج پارلیامانی حلقہ میں 15 مئی کو کانگریس امیدوار کی نامزدگی کے جلوس میں بڑی تعداد میں ٹریکٹروں کو دیکھ کر پرتوال قصبے سے تھوڑا آگے اپنے سیلون میں بیٹھے ایک شخص نے کہا، ‘اس بار مزہ آئے گا، مقابلہ سخت ہوگا۔ پانچ بار (بی جے پی امیدوار اور موجودہ ایم پی پنکج) سے کپارے پر بیٹھل با۔ بدلاؤ ہوئی۔ ‘

لیکن کچھ دور آگے ٹول پلازہ پر گمٹی کے قریب کھڑے دو افراد کی رائے مختلف تھی۔ انہوں نے کہا، ‘جلوس سب کا اچھا رہتا ہے۔ ووٹ کس کو ملے گا، کون جانتا ہے۔’

ٹریکٹر کے قافلے میں شامل ببھنولی گاؤں کے ایک نوجوان جئے رام یادو نے کہا، ‘ماحول بدل گیا ہے۔ بی جے پی اب ڈاؤن ہے۔ کانگریس مضبوط ہوئی ہے۔ تھانے پردلالی بہت بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کی آمدنی گھٹ گئی ہے۔’

مہاراج گنج کے جواہر لال نہرو پی جی کالج گراؤنڈ میں ملے آزاد نگر محلے کے ایک بزرگ جھنکو نے کہا کہ یہاں کا ماحول ٹھیک ہے۔ ہمارے رشتہ دار موہنا پور میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ بولے  کہ یہاں بھی ماحول ٹھیک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 85 سال کے ہو چکے ہیں لیکن کبھی ایسی حکومت نہیں دیکھی جو اتنا امتیازی سلوک کرتی ہو۔ اس بار بدلاؤ ہوگا۔

ان کے پاس بیٹھے نوجوان نے کہا کہ ہم نچلول علاقہ کے بودنا گاؤں سے آئے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں 1600 ووٹ ہیں۔ اس میں بی جے پی کو 200 ووٹ ملیں گے۔ باقی سب کانگریس کو۔ پنکج چودھری (موجودہ ایم پی اور بی جے پی امیدوار) نے کوئی کام نہیں کیا ہے۔

گورکھپور شہر کے راپتی نگر محلے کے ریلائنس پارک میں باقاعدگی سے چہل قدمی کرنے والے ہری موہن ترپاٹھی کہتے ہیں کہ پارک میں آنے والے زیادہ تر لوگ ‘بھکت’ ہیں۔ ان پر مہنگائی یا بے روزگاری کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہماری تو روز بحث ہو جاتی ہے لیکن ان لوگوں کی ‘بھکتی’ میں کمی نہیں آئی ہے۔

(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)