پورے ہندوستان سےموصول ہونے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات لوک سبھا حلقہ اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں یکساں اور بنیادی ایشو ہیں۔
اب تک ہم جان چکے ہیں کہ نریندر مودی اور امت شاہ دونوں ہی روزانہ کی بنیاد پر انفارمیشن اور بیانیہ کو کنٹرول کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔
یہ دونوں کے لیے ایک طرح کا نشہ بن گیا ہے اور وہ اس سے خوش بھی ہیں۔
سات مرحلوں میں ہونے والے انتخابات دراصل انہیں انفارمیشن اور نیریٹو مینجمنٹ کے اس پیچیدہ کھیل کو کھیلنے میں مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انڈیا ٹی وی چینل پر بڑی تعداد میں موجود سامعین کے سامنے مودی یہ تسلیم کرتے ہوئے ہنس پڑے کہ ‘ 400 پار’ کا نعرہ اپوزیشن اور میڈیا کو گمراہ کرنےکے لیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیشہ سے معلوم تھا کہ حکومت بنانے کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح، الیکشن کمیشن نے اچانک ووٹنگ فیصد کے بارے میں بنیادی جانکاری دینے پرروک لگا دی– جبکہ اس سے قبل اس کو باقاعدگی سے جاری کرنے کی روایت رہی ہے۔
کوئی پوچھ سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غیر ضروری طور پر اس رازداری کا سہارا کیوں لیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مودی اس بیانیہ کو کنٹرول اور کمزور کرنا چاہتے تھے کہ کم ٹرن آؤٹ کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اپنی چمک کھو رہے ہیں اور 2014 اور 2019 میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے والے رائے دہندگان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پا رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان بھر سے میڈیا خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات وسیع معنوں میں لوک سبھا حلقے اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں ایک عام ایشو رہا۔
پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد چند ہفتوں تک شیئر بازاروں میں گراوٹ کا رجحان بھی یہی اشارہ دے رہا تھا کہ نتائج مودی اور شاہ کے ذریعے آدھے ادھورے رام مندر کی پران -پرتشٹھا کے بعد سے کیے گئے ‘400 پار’ کے دعووں سے مختلف ہوسکتے ہیں۔
سٹہ بازار کی شروعات بی جے پی کے لیے 335 سیٹوں سے ہوئی تھی، لیکن تیسرے مرحلے تک یہ گھٹ کر 290 پر آ گئی اور مودی-شاہ کے ‘پرسیپشن مینجمنٹ’ کے بعد اب یہ پھر سے 300 پر پہنچ گئی ہے۔
اچانک پرشانت کشور جیسے انتخابی حکمت عملی کار نے پانچویں مرحلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ بی جے پی اکیلے اپنے دم پر 2019 (303 سیٹوں) سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور 315 سے 320 لوک سبھا سیٹوں پر بھی جیت حاصل کرسکتی ہے۔
کشور نے دی وائر کو دیے گئے انٹرویو میں کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا ۔ عجیب بات ہے کہ کشور نے یوگیندر یادو کی اس قیاس آرائی کی بھی حمایت کی کہ بی جے پی بذات خود 240 سے 260 سیٹوں تک محدود ہو سکتی ہے، جو کہ 272 سیٹوں کے اکثریتی اعداد و شمار سے بہت کم ہے۔
کشور کے اپنے اندرونی مسائل کافی پیچیدہ ہیں۔ لیکن یوگیندر یادو کے مطابق، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) مل کر نصف سیٹیں جیت سکتا ہے۔ جو مودی کی ناقابل تسخیر امیج کو کسی حد تک کمزور کر دے گا۔
تھاپر سے بات کرتے ہوئے کشور نے قبول کیا کہ بی جے پی شمالی اور مغربی علاقوں میں 50 سیٹ تک ہار سکتی ہے (انہوں نے مغرب میں کرناٹک کو بھی شامل کیا ہے)، لیکن مزید کہا کہ بی جے پی مشرقی اور جنوبی ریاستوں میں اس نقصان کی تلافی کرے گی۔
مشرقی اور جنوبی ہندوستان کے انتخابات پر گہری نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال، اڑیسہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں 40 اضافی نشستیں نہیں جیت سکتی۔
دریں اثنا، تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں کی ایسی قیاس آرائیوں کے درمیان بی جے پی قیادت اپنے امکانات کے بارے میں زور و شور سے بات کر رہی ہے۔ امت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈا دونوں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ چھٹے مرحلے کی ووٹنگ کے اختتام پر بی جے پی نے پہلے ہی 310 سیٹیں عبور کر لی ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اعلیٰ قیادت کے ایسے بیانات حد سے زیادہ شیخی اور بڑ بولے پن کی عکاسی کرتے ہیں۔ امت شاہ نے سرمایہ کاروں سے شیئرز خریدنے کی اپیل بھی کی کیونکہ 4 جون کے بعد شیئر بازار میں اچھال آئے گا۔ اس سے پہلے کبھی بھی اعلیٰ لیڈروں نے شیئر بازار کو انتخابات سے اتنے واضح طور پر نہیں جوڑا تھا۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ ایک قسم کا نفسیاتی کھیل ہے جو سات مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں کھیلا گیا ہے۔ اگر انتخابات دو تین مرحلوں میں ہوتے اور پندرہ بیس دن میں مکمل ہو جاتے تو ایسا کچھ نہ ہوتا۔
مختلف پارٹیوں کی طرف سے کھیلے جانے والے نیریٹو کے اس کھیل کی نوعیت کچھ بھی ہو، 2024 کے انتخابات میں کچھ سچائیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کئی ریاستوں میں حکومت مخالف ایک زبردست لہر ہے، جس کی بنیادی وجوہات روزی روٹی کے مسائل، بے روزگاری اور مہنگائی ہیں۔ کچھ ریاستوں میں حکومت مخالف لہر دوسری ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
مثال کے طور پر 48 لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ مہاراشٹر (اتر پردیش کے بعد دوسری سب سے بڑی ریاست) میں، مودی اور بی جے پی کو شدید ترین حکومت مخالف لہر کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ مہاراشٹر اپوزیشن اتحاد کے حق میں رجحان دینے والی سب سے بڑی ریاست ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے مستقبل میں مودی اور بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کے مضبوط اتحاد کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
مہاراشٹر میں غصہ بنیادی طور پر مرکز میں حکمراں بی جے پی کے خلاف ہے۔ مودی اور شاہ مہاراشٹر میں بی جے پی اتحاد کے خلاف اس عدم اطمینان سے بخوبی واقف ہیں۔ لوک ستہ کے مدیر گریش کبیر نے مجھے بتایا کہ مودی نے شاید مہاراشٹر میں منفی ماحول کو بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور اسی وجہ سے انتخابات کے اعلان کے بعد سے انہوں نے تقریباً 18 بار ریاست کا دورہ کیا۔
سولاپور، اورنگ آباد اور ناسک اضلاع سے گزریں تو سڑکوں پر لوگوں کا غصہ صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی پیاز کی منڈی ناسک ضلع کے لاسلگاؤں میں واقع ہے جس میں کسانوں، تاجروں اور دیگر متعلقہ اقتصادی ایجنٹوں کا ایک بڑا ایکو سسٹم ہے۔ وہ اس بات سے بہت پریشان ہیں کہ مرکز نے چھ ماہ قبل پیاز کے ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی اور پیاز کی قیمتیں 75 فیصد سے زیادہ گر گئیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی متاثر ہوئی اور معاش پر بھی کافی اثر پڑا۔
لاسلگاؤں پیاز منڈی کے صدر بالا صاحب رام ناتھ چھیرساگر نے کہا، ‘پہلے پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سرکاریں گر جاتی تھیں۔ اس بار پیاز کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے سرکار گرے گی۔’
انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت نے ہندوستانی پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت طے کرکے پاکستان کو پیاز کی عالمی منڈی پر قبضہ کرنے کی اجازت دی ہےیہ ایکسپورٹ پرائس پاکستان کی جانب سے دنیا کو برآمد کی جانے والی پیاز کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کو بازار سے بے دخل کر دیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مودی حکومت نے بیرون ملک اپنی مارکیٹ کو بڑھانے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔
دوسری جانب سویابین کے کسان بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں کہ انہیں مارکیٹ میں فصل کی جو قیمت مل رہی ہے وہ بہ مشکل لاگت کو پوری کر پا رہی ہے۔
مہاراشٹر کے کابینہ کے رکن چھگن بھجبل نے کہا کہ انہوں نے مرکز سے پیاز کی برآمدات پر پابندی نہ لگانے یا اتنی زیادہ کم سے کم برآمدی قیمت مقرر کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔
اس ناراضگی کو منوج جرانگے پاٹل کی قیادت میں مراٹھا ریزرویشن کی تحریک نے مزید بھڑکایا، جنہوں نے چند ماہ قبل ممبئی میں 20 لاکھ نوجوانوں کے احتجاجی مارچ کی قیادت کی تھی۔ جالنہ ضلع میں اپنے گاؤں انتراولی میں دھرنے اور انشن پر بیٹھے پاٹل نے ہمیں اشارہ دیا کہ مراٹھا نوجوان بی جے پی اتحاد کے خلاف بڑے پیمانے پر ووٹ دیں گے اور وہ عام انتخابات کے بعد اس سال کے آخر میں مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے تحریک دوبارہ شروع کریں گے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی ایک بڑے طوفان میں پھنستی نظر آرہی ہے، وہیں مرکزی حکومت نے جس طرح سے ریاست کی سیاست کو تقسیم کیا ہے، اس سے مہاراشٹر کے لوگوں میں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے لیے بڑے پیمانے پر ہمدردی کا مشاہدہ کیا گیاہے۔ اقتصادی پروجیکٹوں اور روزگار کے مہاراشٹر سے گجرات منتقل ہونے کے طریقے کو لے کر بھی ایک ناراضگی نظر آتی ہے۔
یہ سب مل کر مہاراشٹر میں مودی اور شاہ کے لیے ایک سنگین وجودی بحران پیدا کر سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاست میں 48 سیٹوں پر این ڈی اے اتحاد 2019 کی 41 سیٹوں سے گر کر اس بار 20 سیٹوں سے بھی کم پر رہ سکتا ہے۔ بی جے پی خود 2019 میں جیتی گئی 23 سیٹوں میں سے 7-8 ہار سکتی ہے۔ واضح طور پر، 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کے خلاف حکومت مخالف لہر مہاراشٹر میں سب سے زیادہ ہے۔
یوگیندر یادو اور پرشانت کشور دونوں کے جائزے کے مطابق، ہریانہ، دہلی، بہار، جھارکھنڈ، راجستھان اور اتر پردیش کے کچھ حصوں میں حکومت مخالف لہر ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کو شمالی اور مغربی علاقوں میں 50 سیٹوں تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
بلاشبہ کشور کا یہ بھی ماننا ہے کہ 50 سیٹوں کے نقصان سے بی جے پی کو زیادہ اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ وہ مشرقی اور جنوبی ہندوستان سے اس کی تلافی کرے گی۔
تاہم 2024 کے انتخابات واضح طور پر غیر یقینی صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ 2024 کے نریندر مودی 2014 یا 2019 کے نریندر مودی جیسے نہیں ہیں۔
یہاں تک کہ اگر این ڈی اے کو 2024 کے نتائج میں اقتدار میں آنے کا ایک اور موقع مل جاتا ہے، تب بھی نریندر مودی کے لیے حالات پہلے جیسے نہیں ہوں گے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )