ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر، بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے خواتین ریسلرز کو جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے سنگین الزام لگائے ہیں۔ برج بھوشن خود کو پاک صاف کہہ رہے ہیں، لیکن مجرمانہ سرگرمیوں سے بھرا ان کا ماضی کچھ اور ہی قصہ سناتا ہے۔
بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@brijbhushansharan)
‘میری زندگی میں میرے ہاتھ سے ایک قتل ہوا ہے، لوگ جو کچھ بھی کہیں… میں نے ایک قتل کیا ہے…’
یہ کسی سزا یافتہ مجرم کابیان نہیں ہیں جو کسی کےسامنے اپنے جرم کا اعتراف کر رہا ہے، یہ بیان چھ بار کے لوک سبھا ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کا ہے۔
حالاں کہ، ان پرکبھی قتل کا مقدمہ چلا ہو، ایسی کوئی جانکاری تلاش بسیار کے باوجودنہیں ملتی۔
سال 2022 میں ایک ویب پورٹل کو دیے گئے
انٹرویو سے پہلے شاید کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے قتل کیا ہے۔ ہاں، ان کی زور آزمائی کے قصے اتر پردیش میں مشہور ہیں- بالخصوص گونڈہ اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں- اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کے انتخابی حلف نامے میں بھی چار مجرمانہ معاملوں کا ذکر تھا، جن میں دفعہ 307 (قتل کی کوشش) جیسا سنگین جرم بھی شامل تھا۔
اتر پردیش کے بہرائچ ضلع کی قیصر گنج لوک سبھا سیٹ سے ایم پی برج بھوشن2011 سے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) کے صدر ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے فیڈریشن کو چلانے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔نتیجتاً ان کے آمرانہ رویے کی وجہ سے کشتی کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو ان کے خلاف محاذ کھولنا پڑا اور
گزشتہ 18 جنوری سے وہ دہلی کے جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھ گئے۔
انہوں نے ڈبلیو ایف آئی کے صدر برج بھوشن پر بہت سنگین
الزامات لگائے ہیں، جن میں خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، جسمانی استحصال اور ڈبلیو ایف آئی کو چلانے میں تاناشاہی اور مالیاتی بے ضابطگیوں جیسے دعوے کیے گئے ہیں۔ جمعہ (20 جنوری) کو وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر کے ساتھ دیر رات کی میٹنگ اور ایم پی برج بھوشن کو ڈبلیو ایف آئی کے صدر کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریوں سے الگ کرنے اور انکوائری کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کے بعد کھلاڑیوں نے
ہڑتال ختم کردی تھی۔
دریں اثنا، اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے بارے میں برج بھوشن نے صفائی دیتے ہوئے کہاکہ اگر الزامات سچ ثابت ہوئے تو وہ خود کو پھانسی لگا لیں گے۔ انہوں نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے الزامات کو سیاسی سازش قرار دیا اور پہلوانوں کے احتجاجی مظاہرہ کو کانگریس اسپانسرڈقرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اپنا منہ کھولا تو سونامی آ جائے گی اور پہلوانوں کے دھرنے کو ‘شاہین باغ’ جیسا اسپانسر بتاتے ہوئے
کہا کہ ‘یہ چند وہی کھلاڑی ہیں جن کا کیریئر ختم ہو چکا ہے۔ وہ مجھ پر الزامات لگا رہے ہیں۔’
تاہم، خود کو پاک صاف اور کھلاڑیوں کو کانگریس کا پیادہ بتانے والے برج بھوشن کی تاریخ تو کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ انہوں نے خود ایک قتل کی بات کیمرے پر قبول کی ہے اور ان کے ہی ایک اور اعتراف سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی انہیں ‘ایک اور قتل’ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
بائیک چوری، شراب مافیا، ٹھیکیداری اور فائرنگ
سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے
اسکرول ڈاٹ ان نے گونڈہ ضلع کے سینئر صحافیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاتھا کہ برج بھوشن کی اسّی کی دہائی میں موٹرسائیکل/بائیک کی چوری سے لے کر شراب کے اڈوں تک میں شمولیت تھی۔ یہاں تک کہ وہ مندر کے تالابوں میں پڑے سکے لڑکوں سےنکلواتے تھے۔ وقت کے ساتھ وہ سول ٹھیکیدار بن گئے۔ ان تمام کاموں میں ونود کمار سنگھ عرف پنڈت سنگھ ان کے شریک کارتھے۔ یہ وہی پنڈت سنگھ ہیں جو یوپی کی سماج وادی پارٹی (ایس پی) حکومتوں میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
بعد میں برج بھوشن اور پنڈت سنگھ دوست سے دشمن ہو گئے اور 1993 میں انہی پنڈت سنگھ پر گولیاں چلانے کے الزام میں برج بھوشن پر انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 307 (قتل کی کوشش)، 147 (خلفشار پیدا کرنے)، 148(مہلک ہتھیار رکھنے) اور 149 (غیر قانونی اجلاس میں یکساں ارادے سےکیے گئے جرم) کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ پنڈت سنگھ نے اسکرول کو بتایا تھا کہ ان پر 20 گولیاں چلائی گئی تھیں اور وہ 14 ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔
بتادیں کہ 29 سال تک چلے اس کیس میں برج بھوشن کو دسمبر کے آخری مہینے میں
شواہدکے فقدان میں بری کر دیا گیا تھا۔ تاہم، عدالت نے تفتیش کاروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھاکہ کیس کی تفتیش کے دوران شواہد اکٹھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، حتیٰ کہ واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد نہیں کیا جاسکا۔
اپنے دفاع میں برج بھوشن نے دلیل دی کہ وہ حملے کے وقت دہلی میں تھے، اس پر جج نے کہاتھا کہ تفتیش کاروں کی طرف سے اس کی تصدیق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جو پوری تفتیش کومشکوک بناتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ فیصلے سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل ہی مئی 2021 میں کیس کے متاثرہ پنڈت سنگھ کی موت کورونا انفیکشن کی وجہ سے ہوگئی تھی۔ اس کیس میں برج بھوشن کے بری ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پنڈت سنگھ ان کے خلاف بیان دینے کے لیے پیش نہیں ہوئے۔ایسا انہوں نے کیوں کیا؟
اس کا جواب انہوں نے 2014 میں دیا تھا،’اگر میں 1993 کے فائرنگ کیس میں برج بھوشن کے خلاف گواہی دینے کا فیصلہ کرتا ہوں تو میں انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیج سکتا ہوں۔ لیکن میں نے خود کو ایسا کرنے سے روک رکھا ہے کیونکہ میں اسے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک دم دار شخص کے ساتھ لڑنے میں مزہ آتا ہے۔ آپ محتاط رہتے ہیں۔ آپ غلطیاں نہیں کرتے ہیں۔’
‘…میں نے ایک قتل کیا ہے’
پنڈت سنگھ کے ایک بھائی بھی تھے، نام تھارویندر سنگھ تھا۔ وہ برج بھوشن کے بہت قریبی دوست تھے۔ دونوں ساتھ میں ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ ایک بار دونوں ایک پنچایت کرانے گئے تھے۔ جہاں ہوائی فائرنگ کی گئی اور گولی برج بھوشن کے ساتھ کھڑے رویندر کو لگی۔ یہ دیکھ کر برج بھوشن مشتعل ہو گئے اور گولی چلانے والے کے ہاتھ سے رائفل چھین کراس کو گولی مار دی۔ موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی۔
یہ واقعہ خود برج بھوشن نے ویب سائٹ
للن ٹاپ کو دیےایک انٹرویو میں بیان کیا تھا۔ انٹرویو میں وہ کہتے نظر آرہے ہیں،’میری زندگی میں میرے ہاتھ سے ایک قتل ہوا ہے۔ لوگ جو کچھ بھی کہیں، میں نے ایک قتل کیا ہے۔ جس شخص نے رویندر کو مارا، میں نے فوراً اس کی پیٹھ پر رائفل رکھ کر اسے مار ڈالا۔
آگے بات چیت میں وہ اس واقعے کا گواہ وزیر للو سنگھ کو بتاتے ہیں۔ للو سنگھ فی الحال ایودھیا ضلع کی فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ممبر پارلیامنٹ ہیں۔
اسی بات چیت میں انہوں نے بتایا تھا کہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد انہیں گونڈہ کے ہی سرکردہ رہنما اور سابق وزیر کنور آنند سنگھ نے گینگسٹر ایکٹ کے تحت جیل بھجوایا تھا۔
خود سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے برج بھوشن کے ہاتھوں ایک اور قتل کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ اس کا اعتراف بھی خود برج بھوشن نے کیا تھا۔
جب گونڈہ لوک سبھا کے بی جے پی امیدوار کی موت کے بعد سابق وزیر اعظم نے کہا- ‘مروا دیا (تم نے)’
برج بھوشن چھ بار کے ایم پی ہیں۔ وہ پانچ بار بی جے پی کے ٹکٹ پر اور ایک بار (2009 میں) ایس پی کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ پہنچے۔ انہوں نے پہلے دو انتخابات 1991 اور 1999 میں گونڈہ لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کی۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے انہیں بلرام پور سے ٹکٹ دیا اور گھنشیام شکلا کو گونڈہ سے امیدوار بنایا۔ پولنگ کے دن ایک
سڑک حادثے میں شکلا کی موت ہوگئی۔
اسکرول کے ساتھ بات چیت میں یہ سب یاد کرتے ہوئے برج بھوشن نے کہا تھا کہ ‘میرے مخالفین نے افواہ پھیلا دی کہ یہ حادثہ نہیں تھا، قتل تھا۔’
انہوں نے مزید بتایا تھا، ‘اٹل جی نے مجھے بلایا اور کہا، ‘مروا دیا (تم نے اسے)’۔
برج بھوشن نے بتایا تھا کہ یہیں سے ان کے بی جے پی سے اختلافات شروع ہوئے ۔ نتیجے کے طور پر، 2008 میں انہوں نے اس وقت کی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ ایک اہم اعتماد کی تحریک میں اپنی ہی پارٹی کے خلاف کراس ووٹنگ کرکے سرخیاں بنائیں۔ بی جے پی نے انہیں نکال دیا، لیکن ایس پی نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔
وہ 2009 میں ایس پی کے ٹکٹ پر قیصر گنج لوک سبھا سیٹ سے ایم پی منتخب ہوئے ۔ 2014 میں وہ بی جے پی میں واپس آگئے اور دوبارہ قیصر گنج سے ایم پی بنے۔ انہوں نے 2019 میں بھی اپنی جیت کو دہرایا۔
غور طلب ہے کہ وزیر اعظم کے قتل کا شبہ ظاہر کرنے کے بعد بھی وہ بی جے پی میں ہی رہے۔ کراس ووٹنگ کے بعد بی جے پی نے انہیں نکالا۔
لیکن برج بھوشن کے سیاسی اثرورسوخ میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایک قتل کی بات خودقبول کرنے والے اورایک دوسرے قتل کا الزام وزیر اعظم کی جانب سےلگائے جانے کے باوجود بی جے پی اور اپوزیشن ایس پی دونوں نےہی ان کے جرائم پر پردہ ڈال کران کوگلے لگایا اور وہ انتخاب در انتخاب ٹکٹ حاصل کرتے رہے، جیت درج کرتے رہے اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے نیشنل اسپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اور یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ خود کو ‘طاقتور’ کہلانا پسند کرتے ہیں جسے بی جے پی کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی بی جے پی کو ان کی، اتر پردیش میں ان کےآبائی ضلع گونڈہ اور کم از کم نصف درجن ملحقہ اضلاع میں، ان کا بہت دبدبہ ہے۔
گونڈہ کے ہی ایک بی جے پی لیڈر نے اخبار کو بتایا،برج بھوشن صرف پارٹی کا نشان لیتے ہیں،الیکشن وہ اپنے دم پر جیتتے ہیں۔
یوپی کے بہرائچ، گونڈہ، بلرام پور، ایودھیا اور شراوستی اضلاع میں ان کے 50 سے زیادہ تعلیمی ادارے چل رہے ہیں اور یہ علاقے میں ان کے سیاسی اثر و رسوخ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،میں نے ان (کالج) کو کسی سیاسی مقصد سے شروع نہیں کیا تھا، لیکن ہاں آج لڑکے میرے ارد گرد ریلی کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ مجھے مافیا کہہ سکتے ہیں، لیکن میرے طالبعلم مجھے آئیڈیل مانتے ہیں۔ جسے مافیا ماننا ہے مانے، لیکن پڑھنے والا لڑکا مجھے آئیڈیل مانتا ہے۔ میں برہمنوں کے پاؤں چھوتا تھا، آج نوجوان برہمن مجھے گروجی کہہ کر میرے پاؤں چھوتے ہیں۔’
یہی وجہ ہے کہ پارٹی سے اپنا قد بڑا رکھنے والے برج بھوشن بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور فیصلوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا بگڑتا کچھ نہیں ہے۔
گزشتہ اکتوبر کے مہینے میں انہوں نے بی جے پی کی اتر پردیش حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے
کہا تھا کہ سیلاب کے لیے اتنا برا انتظام نہیں دیکھا، لوگ بھگوان بھروسے ہیں۔ اس وقت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کےتعلق سے پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا تھا، ‘مت کہلوائیے کچھ، میرے منہ سے مت کہلوائیے۔’
اسی طرح، یوپی میں بی جے پی کی نظروں میں سب سے زیادہ کھٹکنے والے ایس پی لیڈر اعظم خان کو بھی انہوں نے’عوام کا لیڈر’ کہہ کر تعریف کر دی تھی۔
گزشتہ سال جون میں جب مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے نے ایودھیا کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تو برج بھوشن پارٹی لائن کے خلاف گئے اور ٹھاکرے کے دورے کے خلاف کھڑے ہوگئے، جبکہ مہاراشٹر کی ہنگامہ خیز سیاست میں بی جے پی ایم این ایس کو اتحادی کے طور پر دیکھ رہی تھی۔
برج بھوشن نے کہا تھا، ‘میں شمالی ہندوستان کے لوگوں کی توہین کرنے والے راج ٹھاکرے کو ایودھیا میں اس وقت تک داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک وہ تمام شمالی ہندوستان سے ہاتھ جوڑ کر معافی نہیں مانگیں گے۔ میری درخواست ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان سے ملاقات نہ کریں۔ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور عام آدمی نے رام مندر تحریک میں کردار ادا کیا۔ ٹھاکرے خاندان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں، یوگا گرو رام دیو کو لے کر وہ حملہ آور ہوگئے تھے۔ انہوں نے ان کی کمپنی پتنجلی پر نقلی گھی فروخت کرنے کا الزام لگایا اور بابا رام دیو کو ‘
ملاوٹ کا راجا‘ قرار دیتے ہوئے پتنجلی کی مصنوعات کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا انتباہ دیا تھا۔اس کے ساتھ ہی سنت سماج سے رام دیو کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی تھی اور مرکزی، یوپی اور اتراکھنڈ حکومتوں سے رام دیو کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔
ایک کٹر ہندوتوا لیڈر کی ان کی شبیہ بھی بی جے پی کی سیاست سے میل کھاتی ہے۔ جب وہ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ
اسدالدین اویسی کے آباو اجداد کو ہندو کہہ کر تنازعہ کھڑا کرتے ہیں تو وہ بی جے پی کے لیے ہی ماحول بناتے ہیں۔ شاید اسی لیےپارٹی کے خلاف جانے کے بعد بھی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
بابری مسجد کے انہدام سے لے کر داؤد کے حواریوں کو پناہ دینے تک کے تنازعات کے ساتھ برج بھوشن کا لمبا ناطہ
اودھ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے برج بھوشن نوے کی دہائی کے آخر میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ یہ رام جنم بھومی تحریک کا دور تھا اور ایودھیا کے آس پاس کے علاقوں میں ان کی اچھی گرفت کی وجہ سے بی جے پی کی ان پر نظر پڑی تھی۔ آج ان کی بیوی کیتکی دیوی سنگھ گونڈہ ضلع پنچایت کی صدر ہیں اور بیٹے پرتیک بھوشن سنگھ گونڈہ صدر سیٹ سے ایم ایل اے ہیں۔
برج بھوشن رام مندر تحریک کے نمایاں چہروں میں سے ایک رہے ہیں اور انہیں بابری انہدام کیس میں بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے ساتھ گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ وہ اس کیس کے کلیدی ملزم تھے۔ سال 2020 میں عدالت نے برج بھوشن سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا تھا۔
وہ آج بھی ایک کٹر ہندو رہنما کی اس امیج کو بھناتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں،’تحریک کے دوران میں علاقے کا پہلا شخص تھا جسے ملائم سنگھ نے گرفتار کیا تھا۔ میں پہلا شخص تھا جسے سی بی آئی نے متنازعہ ڈھانچہ گرائے جانے کے بعد گرفتار کیا تھا۔
نوے کی دہائی کے وسط میں ان کے انڈرورلڈ سے تعلقات کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔ انہوں نے داؤد ابراہیم گینگ کے ارکان کو پناہ دینے کے الزام میں تہاڑ جیل میں کئی ماہ گزارے۔ ان کے خلاف دہشت گردی اور تفرقہ انگیز سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (ٹی اے ڈی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ بعد ازاں شواہد کے فقدان میں
بری کر دیا گیا تھا۔
جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر گونڈہ لوک سبھا سے اپنی اہلیہ کو انتخاب لڑا یا اور وہ جیت بھی گئیں۔
سال 2004 میں برج بھوشن کے 22 سالہ بیٹے شکتی سنگھ نے خودکشی کر لی اور سوسائیڈ نوٹ میں اس کے لیےاپنے والد برج بھوشن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے
لکھا، ‘آپ اچھے باپ ثابت نہیں ہو سکے۔ آپ نے ہم بھائیوں اور بہنوں کے آرام و آسائش کا خیال نہیں رکھا۔آپ نے ہمیشہ اپنے بارے میں سوچا اور ہماری پرواہ نہیں کی… ہم اپنا مستقبل تاریکی میں دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے اب جینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
ریسلنگ فیڈریشن کو چلانے میں ‘آمرانہ’ رویہ
ڈبلیو ایف آئی کو چلانے میں بھی برج بھوشن ‘اپنے بارے میں ہی سوچنے والے’ نرگسیت کے شکار صدر ہیں، جس کی جھلک ان کے اس بیان میں ملتی ہے، ‘یہ سب (پہلوان) طاقتور لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے آپ کو کسی طاقتورکی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہاں مجھ سے زیادہ طاقتور کوئی ہے؟’
انڈین ایکسپریس کے مطابق ،انہوں نے مذکورہ الفاظ 2021 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہے تھے۔
اخبارکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریسلنگ سے متعلق ہر چیز کا حتمی فیصلہ ان کا ہی ہوتا ہے۔ وہ ریسلنگ کے ہر چھوٹے بڑے ٹورنامنٹ پر نظر رکھتے ہیں اور اکثر ریفری کو ہدایات دیتے ہیں یہاں تک کہ ججوں کو سزا بھی دیتے ہیں۔
ان کے آمرانہ رویے کی کچھ ایسی ہی کہانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے اطلاع دی ہے کہ جنوری 2021 میں انہوں نے نوئیڈا میں نیشنل چیمپئن شپ کے دوران ایک ریلوے کوچ کو معطل کر دیا تھا۔ انہوں نے ریفری سے دہلی کے ایک پہلوان کو سزا دینے کے لیے کہاکیونکہ ان کے (پہلوان کے) حامی کھیل کے میدان میں داخل ہو گئے تھے۔ ریفری نے ایسے کسی اصول سے انکار کیا، پھر بھی وہ اصرار کرتے رہے۔
اگر وہ خود کسی ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کر پاتے ہیں تو وہ جگہ جگہ کیمرے لگا کر گھر بیٹھے نگرانی کرتے ہیں۔ ا نہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پہلوان برج بھوشن کے رویے سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے جب وہ کسی متنازعہ میچ میں ہار جاتے ہیں تو جج کے پاس جانے کے بجائے براہ راست ان سے اپیل کرتے ہیں۔
وہیں، ہندوستانی ریسلنگ میں قومی چیمپئن شپ کے میچوں کے دوران پہلوانوں کے برج بھوشن کے پاؤں چھو کر آشیرواد لینے کے مناظر بھی عام ہیں۔
ان کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ انہوں نے کھلاڑیوں کی اولمپک تیاریوں کے لیے بنی مرکزی حکومت کی ‘ٹارگٹ اولمپک پوڈیم (ٹی او پی)’ اسکیم پر تنقید کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ اس اسکیم کے تحت ایتھلیٹس سے براہ راست رابطہ نہ کرے۔
وہیں، پہلوانوں پر لگام کسنے کے سلسلے میں گزشتہ سال ٹوکیو اولمپکس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ فیڈریشن پہلوانوں کی مدد کرنے والی نجی، غیر منافع بخش تنظیموں پر نظر رکھے گی۔
دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی ) کے ایک سابق کوچ کہتے ہیں،برج بھوشن وہ غنڈہ ہے جس کی ریسلنگ کو ضرورت ہے۔ ان کے بغیر پہلوانوں کو نظم و ضبط یا قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوگا۔
ان کی غنڈہ گردی کا نظارہ سال 2021 میں رانچی میں ایک جونیئر سطح کے ریسلنگ ٹورنامنٹ کے دوران بھی دیکھنے کو ملاتھا، جب انہوں نے اسٹیج پر ہی ایک پہلوان کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔
دروناچاریہ ایوارڈ یافتہ
مہاویر پھوگاٹ نے بھی میڈیا کو فیڈریشن چلانے کے اپنے طریقوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا اور کہا تھا کہ پہلوانوں کی خوراک میں مداخلت کرنے کے علاوہ وہ ان سے ملنے والی اسپانسر شپ کی آدھی رقم بھی لے لیتے ہیں۔