وقف بل: جے پی سی میں این ڈی اے کی 14 تجاویز منظور، اپوزیشن کی 44 تجاویز مسترد

04:49 PM Jan 29, 2025 | دی وائر اسٹاف

وقف (ترمیمی) بل، 2024 کی جانچ کر رہی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی نے اپوزیشن کی تجویز کردہ 44 ترامیم کو مسترد کر دیا ہے اور این ڈی اے خیمہ کی 14 تجاویز کو منظور کر لیا ہے۔ جے پی سی میں دونوں ایوانوں سے 31 ارکان ہیں، جن میں این ڈی اے کے 16 (بی جے پی سے 12)، اپوزیشن جماعتوں کے 13، وائی ایس آر کانگریس سے ایک اور ایک نامزد رکن ہیں۔

بھونیشور میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پر تشکیل دی گئی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کی میٹنگ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@jagdambikapalmp)

نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل 2024 کی جانچ کررہی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن کے ارکان پارلیامنٹ کی تجویز کردہ 44 ترامیم کو مسترد کر دیا ہے اور این ڈی اےخیمہ کی  14  تجاویز کو قبول کر لیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، کمیٹی کے چیئرپرسن اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جگدمبیکا پال نے گزشتہ ہفتے اپوزیشن کے 10 ایم پی کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد وقف کمیٹی کو ‘آمرانہ انداز میں’ چلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ یہ قدم اس کے بعدسامنے آیا ہے۔

کمیٹی کے چیئرپرسن جگدمبیکا پال نے کہا، ‘ ہر شق پرتبادلہ خیال کے لیے ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 44 ترامیم میں سے ہر ایک کو میں نے ان کے ناموں کے ساتھ پڑھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی ترامیم پیش کر رہے ہیں۔ پھر انہیں پیش کیا گیا۔ یہ اس سے زیادہ جمہوری نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر ترامیم پیش کی گئیں  اور 16 ارکان نے ان کے خلاف ووٹ کیا اور صرف 10 نے ان کے حق میں، تو کیا 10 ارکان کی حمایت یافتہ ترامیم کو قبول کیا جا سکتا ہے؟ پارلیامنٹ ہو یا جے پی سی، یہ فطری ہے۔’

معلوم ہو کہ اس جے پی سی میں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے 31 ارکان ہیں۔ ان میں سے 16 این ڈی اے سے ہیں، جس میں 12 بی جے پی سےہیں، 13 اپوزیشن پارٹیوں سے، ایک وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور ایک نامزد رکن ہیں۔

پی ٹی آئی نے ترنمول کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کلیان بنرجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘یہ ایک مضحکہ خیز مشق تھی۔ ہمارے بات نہیں سنی گئی۔ پال نے آمرانہ انداز میں کام کیا ہے۔’

بنرجی نے مزید کہا، ‘آج انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو انہوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا۔ انہوں نے ہمیں کچھ بھی بولنے نہیں دیا۔ کسی اصول اور طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی… ہم ترمیم کی ہرشق پر بحث کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جے پی سی صدر جگدمبیکا پال نے ترامیم پیش کیں اور پھر ہماری بات سنے بغیر ان کا اعلان کر دیا … یہ جمہوریت کے لیے ایک برا دن ہے۔’

جے پی سی کی طرف سے منظور کردہ ترامیم میں سے ایک کلکٹر کے بجائے ریاستی حکومت کی طرف سے کمشنر یا سکریٹری کی تقرری کرنا ہے، جو زمین کے تنازعات کی صدارت کرے گا۔

جگدمبیکا پال نے کہا، ‘کئی چیزیں ایسی تھیں جن پر وہ متفق تھے اور جن پر انہوں نے اپنی رائے دی تھی۔ آج ایک ترمیم منظور کی گئی – پہلے یہ اختیار کلکٹر کو دیا گیا تھا، لیکن اب یہ اختیار ریاستی حکومت کے ذریعے دیا جائے گا – چاہے وہ کمشنر ہو یا سکریٹری۔’

وقف (ترمیمی) بل 2024 پر جے پی سی کی طرف سے منظور کردہ 14 ترامیم میں سے ایک وقف بورڈ میں دو غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت سے متعلق ہے۔ یہ ترمیم دو لازمی غیر مسلم ارکان اور مقرر کردہ رکن کے درمیان فرق کرتی ہے۔ بل کے ابتدائی مسودے میں دو غیر مسلم ارکان کی لازمی شرط کا ذکر کیا گیا ہے۔ مقرر کردہ ممبران مسلمان یا غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وقف کونسلوں میں چاہے ریاستی سطح پر ہو یا کل ہند سطح پر، کم از کم دو ارکان ایسے ہوں گے جو غیر مسلم ہوں گے۔ اگر مقررہ رکن بھی غیر مسلم نکلے تو ایسے تین ارکان غیر مسلم ہو جائیں گے۔

ایک اور اہم تبدیلی میں متعلقہ ریاست کی طرف سے منتخب کردہ ایک اہلکار کو یہ فیصلہ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے کہ کوئی پراپرٹی ‘وقف’ ہے یا نہیں۔ اس سے قبل یہ فیصلہ کرناابتدائی مسودے کے مطابق ضلع کلکٹر کے ہاتھ میں تھا۔

پال نے کہا، ‘(ایک اور ترمیم) (وقف) بورڈ کی تشکیل سے متعلق تھی۔ پہلے اس کے دو ارکان تھے۔ حکومت کی طرف سے تجویز دی گئی تھی کہ دو کے بجائے تین ارکان ہوں، جن میں ایک اسلامی اسکالر بھی شامل ہو۔ انہوں نے (اپوزیشن نے) اس کی بھی مخالفت کی۔ پورٹل پر وقف پراپرٹی کے اندراج کو چھ ماہ تک بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔’

بل کے لیے ضروری ہے کہ مجوزہ قانون سے پہلے موجودہ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہر وقف کو نئے ایکٹ کے آغاز کے چھ ماہ کے اندر مرکزی پورٹل پر تفصیلات درج کرنی ہوں گی۔

اس بل میں سینٹرل وقف کونسل اور اسٹیٹ وقف بورڈکے ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور مسلم خواتین اور غیر مسلموں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کی بھی مانگ کی گئی ہے۔ اس میں بوہرہ اور آغاخانیوں کے لیے علیحدہ ‘اوقاف بورڈ’ کے قیام کا بھی اہتمام  کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت نے 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا تھا۔ پیش کیا تھا ۔ تاہم، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی مخالفت کے باعث اس بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا۔ اس کمیٹی کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخر تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی، جس میں اپوزیشن ارکان نے توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم اپوزیشن وقف (ترمیمی) بل کو لے کر حکومت کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس سے قبل اس معاملے پر تشکیل دی گئی پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے کچھ اپوزیشن اراکین نے کمیٹی کے چیئرمین اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما جگدمبیکا پال پر ‘من مانے طریقے سے کارروائی میں خلل ڈالنے’ کا الزام لگایا تھا۔ اس سلسلے میں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا۔

حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ نے اپنے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر کمیٹی میں ان کے خیالات کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں اپنے خیالات پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا تو وہ کمیٹی سے اپنے نام واپس لینے پر مجبور ہو ں گے۔

اس کمیٹی کے کئی اجلاس تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ اس سے قبل پچھلے مہینے 15 اکتوبر کواپوزیشن اراکین نے  اوم برلا کو ایک خط لکھا تھا  جس میں الزام لگایا تھا کہ کمیٹی کی کارروائی کو چیئرپرسن جگدمبیکا پال کی طرف سے جانبدارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی کے صدر پال نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کو بولنے کے کافی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

ایک اور میٹنگ میں کرناٹک ریاستی اقلیتی کمیشن کے ایک سابق اہلکار اور بی جے پی لیڈر کی جانب سے وقف اراضی کی الاٹمنٹ کے سلسلے میں کانگریس کے صدر ملیکارجن کھرگے پر تبصرہ کرنے کے بعد کئی اپوزیشن اراکین پارلیامان نے پینل میٹنگ سے  واک آؤٹ کر دیا  تھا ۔

وہیں، 22 اکتوبر 2024 کو جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے اجلاس میں ٹی ایم سی کے رکن پارلیامنٹ کلیان بنرجی نے غصے میں کانچ کی بوتل توڑ دی تھی، جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا تھا ۔