دہلی حکومت کے زیر انتظام براڑی اسپتال کا معاملہ۔ الزام ہے کہ ہسپتال کا صفائی عملہ واجب الادا تنخواہ کی عدم ادائیگی اور تنخواہ میں کٹوتی سے پریشان ہے۔ خواتین ملازمین کو مسلسل بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے اکثر جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ دہلی کے وزیر صحت کی یقین دہانی کے بعد ملازمین نے اپنا احتجاجی مظاہرہ فی الحال ختم کر دیا ہے۔
احتجاجی مظاہرہ کے دوران براڑی ہسپتال کی خواتین صفائی اہلکار۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: دہلی حکومت کے زیر انتظام اسپتال کے صفائی عملے نے واجب الادا تنخواہ کی ادائیگی اور دیگر خدشات کو لے کر احتجاج کیا۔ اس دوران تین ملازمین نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے سر منڈوائے، جبکہ ان کے ساتھیوں نے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے پتلے کی آخری رسومات کی ادائیگی کی۔
اسی جنوری کے مہینے میں براڑی اسپتال میں 10 دن کی لمبی ہڑتال کے بعد دہلی کے وزیر صحت سوربھ بھاردواج نے ملازمین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کی پریشانیوں پر توجہ دیں گے۔ اس کے بعد ملازمین نے فی الحال اپنی ہڑتال ختم کردی ہے۔
حالیہ احتجاجی مظاہرہ اس وقت شروع ہوا، جب ہسپتال میں صفائی کے کام کو سنبھالنے والی گلوبل وینچرز کے سپروائزرز سے ملازمین نےوقت پر تنخواہ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کے مظاہرہ کے بعد بالآخر ان کی تنخواہ مقررہ مدت کے بعد کافی تاخیر سے 19 جنوری کو جاری کی گئی۔ پیمنٹ آف ویجز ایکٹ 1936 کے مطابق، پچھلے مہینے کی تنخواہ ہر ماہ کی 7 یا 10 تاریخ تک ادا کی جانی چاہیے۔
ہسپتال کے ٹریڈ یونین لیڈروں میں سے ایک ہریش گوتم نے کہا،’ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ملازمین کو اپنی تنخواہ وقت پر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ ملازمین کمپنی کے سپروائزروں کے رحم و کرم پر ہیں۔’
گوتم نے دی وائر کو بتایا کہ خواتین صفائی کارکنوں کو مسلسل بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ان سے اکثر جنسی تعلقات کے لیے کہا جاتا ہے اور کمپنی کے ملازمین کی جانب سے انھیں کہا جاتا ہے کہ اگر انھوں نے ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی تو وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔’
ہسپتال میں صفائی کے تمام ملازمین کو کانٹریکٹ فرم کے ذریعے رکھا گیا ہے اور انہیں تنخواہ کے طور پر کم از کم 17000 روپے ماہانہ سے تھوڑا زیادہ ملنا چاہیے۔ تاہم مزدوروں نے شکایت کی کہ ٹھیکہ فرم کی جانب سے تقریباً ہر ماہ ان کی تنخواہوں میں اچانک کٹوتی کر دی جاتی ہے۔
کارکنوں کو منظم کرنے میں مدد کرنے والی دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر مایا جان نے کہا، ‘یہاں تک کہ وقت پر تنخواہ جاری کرنے کے بنیادی مطالبے کو بھی سپروائزر کی جانب سے توہین کے طور پر لیا جاتا ہے۔چونکہ ان میں سے بہت سے ملازمین زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اس لیے کمپنی کی طرف سے انہیں اکثر غیر حاضر یا منظور شدہ چھٹی پر نشان زد کیا جاتا ہے۔ سپروائزرز کی یہ حرکتیں دراصل ان ملازمین کے لیے دھمکی کے طور پر کام کرتی ہیں ، جنہیں لگتا ہے کہ وہ کمپنی کے رحم و کرم پر ہیں۔’
گوتم نے کہا کہ زیادہ تر مہینوں میں ملازمین کو یقین نہیں ہوتا کہ ان کے بینک کھاتوں میں کتنی رقم جمع کی جائے گی۔
گوتم نے کہا، ‘کسی کو کوئی بھی رقم مل سکتی ہے۔ کبھی یہ 8000 روپے تو کبھی 11000 روپے ہوتی ہے، جو کہ مقررہ کم از کم تنخواہ سے بہت کم ہے۔ ملازمین کی شکایتوں کا استعمال کمپنی اکثر اوقات انہیں کسی ناجائز بنیاد پر نوکری سے نکالنے کے لیے کرتی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سپروائزر اکثر صفائی عملے سے کہتے ہیں کہ وہ یہ نہ بتائیں کہ انہیں 17000 روپے سے کم رقم ملی ہے۔
پچھلے سال خواتین کارکنوں کی طرف سے سپروائزروں کے خلاف کم از کم دو ایف آئی آر درج کروائی گئی تھیں، جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں یا تو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا یا انہیں جنسی تعلقات قائم کرنے کو کہا گیا تھا۔
تاہم، پروفیسر جان نے کہا کہ دہلی پولیس نے سپروائزروں پر نظر رکھنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ گوتم نے کہا، ‘عام طور پر سپروائزر ان خواتین سے جنسی تعلقات کا مطالبہ کرتے ہیں جو بیوہ یا غیر شادی شدہ ہیں۔’
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہسپتال میں داخلی شکایات کی لازمی کمیٹی (آئی سی سی) نہیں تھی، جو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات کو دیکھتی ہے۔
ایف آئی آر اور خواتین کی کچھ تنظیموں کی طرف سے ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر کو لکھے گئے خط نے ہسپتال انتظامیہ کو دسمبر 2023 میں جلد بازی میں آئی سی سی یونٹ قائم کرنے پر مجبور کیا۔
اس کے باوجود خواتین کی تنظیموں نے خط میں کہا کہ مبینہ جنسی ہراسانی کے کچھ معاملات کی تحقیقات کے لیے گزشتہ ماہ ہونے والی آئی سی سی کی واحد میٹنگ میں خواتین صفائی کارکنوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔
اس کے علاوہ آئی سی سی کی میٹنگ شکایات کی وجہ سے نہیں بلکہ میڈیکل ڈائریکٹر اور دہلی حکومت کے ہیلتھ سکریٹری کی ہدایت پر بلائی گئی تھی۔
ان میں سے زیادہ تر صفائی کارکن دلت والمیکی کمیونٹی سے ہیں۔ ان کی زندگی بدتر ہے اور انہیں تاریخی طور پر سماجی و اقتصادی سیڑھی سے نیچے دھکیل دیا گیا ہے۔ جان نے کہا، ‘اکثر ان کارکنوں کو اپنے آجروں کی طرف سے ذات پات سے متعلق امتیازی سلوک اور توہین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’
گوتم نے کہا کہ اس طرح کے استحصالی رویے براڑی ہسپتال کے لیے انوکھے نہیں ہیں، کیونکہ دہلی کے زیادہ تر ہسپتال اپنے صفائی عملے کو ایک کانٹریکٹ فرم کے ذریعے ملازمت دیتے ہیں، جو اس معاملے میں گلوبل وینچرز ہے۔
گوتم نے کہا، ‘کانٹریکٹ ملازمین کے طور پر نوکری کے عدم تحفظ کا مسئلہ بنیادی ہے۔ تمام احتجاج کے باوجود ملازمین فرم اور اس کے سپروائزر کے رحم و کرم پر ہیں۔ عموماً یہ کمپنیاں ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کر کے بدعنوانی میں شامل ہوتی ہیں اور ملازمین کو ان کے حقوق سے بھی محروم رکھتی ہیں۔’
گوتم نے کہا کہ تنخواہ وغیرہ کے مطالبے کو لے کر پچھلے سال تین بار اسی طرح کے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘ہسپتال انتظامیہ اپنی دیکھ ریکھ میں ہونے والی ان ہڑتالوں اور استحصالی رویے کی گواہ رہی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے کانٹریکٹ فرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ فرم اور ہسپتال انتظامیہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘کچھ صفائی کارکنوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان میں سے کئی کانٹریکٹ کمپنیاں انہیں کام پر رکھنے کے لیے 30000 سے 40000 روپے تک رشوت لیتی ہیں۔ رقم ادا نہیں کرنے پر نوکری نہیں ملے گی۔ یہ رواج دہلی کے اسپتالوں میں کانٹریکٹ ورکرز کی تقرری کے وقت رائج ہے۔’
ہسپتال کے مقام اور وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر ملازمین کے مظاہرے کے خلاف پولیس کی کارروائی کی گئی۔ پولیس نے کچھ ہڑتالی ملازمین پر لاٹھی چارج کیا اور انہیں حراست میں لیا، تاہم بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔
دہلی حکومت کے لیبر منسٹر گوپال رائے نے کانٹریکٹ کمپنیوں کے بیچ ہائر اینڈ فائر پریکٹس کو قبول کیا تھا۔ انہوں نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ جب بھی سرکاری ادارے نئی فرموں کا تقرر کرتے ہیں، تب بھی 80 فیصد کانٹریکٹ ورکرز کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔
تاہم، گوتم نے کہا کہ قواعد شاذ و نادر ہی لاگو ہوتے ہیں اور مسئلہ پورے کانٹریکٹ سسٹم کے ساتھ ہے، جہاں مزدوروں کو بولنے تک کا حق نہیں ہے۔
احتجاج کرنے والے صفائی کارکنوں نے 25 جنوری کو براڑی اسپتال میں احتجاج کا موجودہ دور ختم کر دیا، جب دہلی کے وزیر صحت سوربھ بھاردواج نے ان کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد انہیں یقین دلایا کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔
گوتم نے کہا، سوربھ بھاردواج نے ہمیں یقین دلایا کہ گلوبل وینچرز کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا جائے گا کیونکہ یہ بار بار خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنسی ہراسانی کی شکایات پر فوری طور پر اسپتال انتظامیہ سے بات کی جائے گی اور ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
بھاردواج نے کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم یہ یقین دہانی کارکنوں کے لیے راحت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ اور ٹھیکہ کمپنی گلوبل وینچرز دونوں نے اپنی طرف سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔