دہلی: اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اپیل، ملزمان کو کھلی چھوٹ اور معاملے کی خبر دینے والے کے خلاف کارروائی

دہلی کے جنتر منتر پر گزشتہ 5 فروری کو باگیشور دھام کے سربراہ دھیریندر شاستری کے حامیوں نے 'سناتن دھرم سنسد' کا اہتمام کیا تھا، جس میں کلیدی خطبہ دینے والے مقررنے اقلیتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی۔ دہلی پولیس نے اس سلسلے میں مقررین اور منتظمین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خبر دینے والے ٹوئٹر ہینڈل کو ہی نوٹس بھیج دیا ہے۔

دہلی کے جنتر منتر پر گزشتہ 5 فروری کو باگیشور دھام کے سربراہ دھیریندر شاستری کے حامیوں نے ‘سناتن دھرم سنسد’ کا  اہتمام کیا تھا، جس میں کلیدی خطبہ دینے والے مقررنے اقلیتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی۔ دہلی پولیس نے اس سلسلے میں مقررین اور منتظمین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خبر دینے  والے ٹوئٹر ہینڈل کو ہی  نوٹس بھیج دیا ہے۔

جنتر منتر پر ہوئے سناتن دھرم سنسد پروگرام کے دوران کلیدی خطبہ دیتے ہوئے بھکت ہری مہاراج۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین شاٹ)

جنتر منتر پر ہوئے سناتن دھرم سنسد پروگرام کے دوران کلیدی خطبہ دیتے ہوئے بھکت ہری مہاراج۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: 5 فروری کو باگیشور دھام کے کتھا واچک  دھیریندر شاستری کے حامیوں نے دہلی کے جنتر منتر پر ‘سناتن دھرم سنسد’ کا اہتمام کیا تھا۔

کلیدی خطبہ دینے والے بھکت ہری مہاراج کے مطابق، اس  تقریب کے شرکاء کے تین اہم مطالبات ہیں- رام چرت مانس کو ‘ہندو راشٹر’ یعنی ہندوستان کا قومی صحیفہ قرار دیا جائے، گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور شاستری کو زیڈ پلس سیکورٹی دی جائے۔

تاہم، بعد میں یہ پروگرام اقلیتی کمیونٹی کے خلاف تشدد کی اپیل  میں تبدیل  ہوگیا۔

تقریب کے ایک پوسٹر میں لکھا تھا، ‘ تمام سنتوں اور شری باگیشور دھام کےدیوانوں کا استقبال ہے۔’ اس ایونٹ کو مشتہر کرنے  والا پہلا پوسٹر 4 فروری کو باگیشور دھام کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ پوسٹر پر مذکورکلیدی خطبہ پیش کرنے والے مقرر کا نام بھکت ہری مہاراج تھا، جنہوں  نے اس تقریب میں تشدد کی اپیل بھی کی ۔

دھیریندر شاستری مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں واقع باگیشور دھام مندر کے سربراہ ہیں۔ حال ہی میں، وہ ‘معجزات’ کرنے کے اپنے دعووں کی وجہ سے تنازعات میں گھرگئے تھے۔ ان کے ‘معجزے’کے دعوے کو مہاراشٹر کے ناگپور میں ایک پروگرام میں اندھ شردھا نرمولن سمیتی سے وابستہ ایک عقلیت پسند شیام مانو نے چیلنج کیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد شاستری مذکورہ پروگرام  کو مقررہ وقت سے پہلےہی  ختم کرکے واپس لوٹ گئے تھے۔

شاستری کے پیروکاروں کے مطالبات ان مطالبات کے مطابق ہیں، جو وہ خود اپنے مذہبی اجتماعات میں کرتے ہیں۔ وہ ہندوستان کو ایک ہندو قوم بنانے اور رام چرت مانس کو ہندوستان کا قومی صحیفہ بنانے کے لیے اپنے پیروکاروں سے تعاون چاہتے ہیں۔

ان پر چھواچھوت پھیلانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے بھی الزام لگے ہیں۔

کلیدی خطبہ پیش کرنے والے بھکت ہری کی تقریر اتر پردیش کے ایم ایل اے سوامی پرساد موریہ اور بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر کی طرف سے رام چرت مانس کی تنقید کے خلاف برہمی کے اظہار سے شروع ہوئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ کتاب نفرت پھیلاتی ہے اور دلتوں اور نچلی ذاتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے۔ ‘انہیں سبق سکھانے’ کے لیے قانونی کارروائی کا مطالبہ کرنے کے بعد بھکت ہری کا غصہ اچانک اقلیتوں کی جانب مرکوز ہو گیا۔

انہوں نے کہا، ‘جو لوگ ہنومان کی پوجا کرتے ہیں، انہیں عیسائی اور مسلمان مار ڈالیں گے۔ گائے کھانے والے تمہیں کھا جائیں گے۔ ہمارے 36 کروڑ دیوتا ایک گائے کے اندر رہتے ہیں اور یہ عیسائی اور مسلمان ہر دن طلوع آفتاب  سے پہلے ڈیڑھ لاکھ گائے ذبح کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘اکھلیش یادو (سابق وزیر اعلیٰ اتر پردیش) اور نتیش کمار (بہار کے وزیر اعلیٰ) نے رام چرت مانس پر تنقید کرنے کے عمل کی مذمت نہیں کی ہے۔ وہ پھوٹ ڈالو  اور راج  کرو کی سیاست کر رہے ہیں جیسے کانگریس اور انگریز کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘انگریزوں نے کہا تھا – توڑو، پھوٹ ڈالو ، راج کرو۔ کانگریس نے کہا – توڑو، پھوٹ ڈالو ، راج کرو۔ عیسائیوں نے کہا – توڑو، پھوٹ ڈالو ، راج کرو۔ مسلمانوں نے کہا – کاٹو، مارو۔ عیسائیوں نے کہا – کاٹو، مار و۔

انہوں نے مزید کہا کہ کب مارو گے؟ ارے عیسائی– مسلمان کو کب مارو گے؟

(تصویر: ویڈیو اسکرین شاٹ)

(تصویر: ویڈیو اسکرین شاٹ)

انہوں نے کہا، ‘آپ کے پاس مارنے کے لیے کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ آپ کے پاس سبزیاں کاٹنے کے لیے چاقو ہیں۔ ہتھیار رکھو تلواریں رکھو۔ بندوقیں رکھو۔ ہمارے تمام دیوی دیوتا اپنے ہاتھوں میں ہتھیاررکھتے ہیں۔ آپ کو ایک ہاتھ میں ہتھیار اور دوسرے ہاتھ میں دھارمک گرنتھ رکھنا چاہیے۔ ہتھیاروں اور کتابوں کا توازن بناکر آگے بڑھو۔ ہمارے رام چرت مانس کی توہین کرنے والوں کو غدار قرار دے کرگولی مار دینی چاہیے۔ جو ہماری بیٹیوں اور بہوؤں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، انہیں کھلے میں گولی مار دو،  پھر چاہے عیسائی ہویا مسلمان۔’

پانچ 5 فروری کو سناتن دھرم سنسد کے وقت  ہی سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر اور ہندوتوا کارکن سریش چوہانکے کے حامیوں نے ایک اور پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ وہاں، مقررین نے کہا کہ ہندوستان کو ‘ہندو راشٹر’ بنانے کے لیے ‘مرنے  اور مارنے’ کے چوہانکے کے 2021 کے عوامی خطاب پر سپریم کورٹ کی جانب سےتنقیدی تبصرہ ‘غیر ضروری  طو رپرقانونی ہراسانی ‘ تھی۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ پر مسلمانوں کی حمایت کا الزام بھی لگایا اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا دوبارہ حلف لیا۔ اسٹیج سے اقلیتوں کے خلاف قابل اعتراض ریمارکس اور چوہانکے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی گئی ۔

دونوں پروگرام  کے کچھ مقررین اور سامع  مشترک تھے۔ دونوں پروگرام  کے خلاف تاحال پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

بھکت ہری کی پرتشدد اپیل  کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دہلی پولیس نے ایک نیوز آرگنائزیشن ‘مولیٹکس’ کے ٹوئٹر ہینڈل کو نوٹس دیا،جس نے اس واقعے کی اطلاع دی تھی۔

دہلی پولیس نے ٹوئٹر پر مولیٹکس کی پوسٹ کو ‘قابل اعتراض، بدنیتی پر مبنی اور لاء اینڈ آرڈرپرمنفی اثر ڈالنے والا اور اشتعال انگیز پیغام پایا’۔ غور طلب  ہے کہ ویڈیو میں موجود سناتن دھرم سنسد کےمقررین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

نوٹس کا جواب دیتے ہوئے مولیٹکس کے بانی نے ٹوئٹ کیا،’میں اب بھی کنفیوژ ہوں! آپ اسے ہمیں کیوں بھیجیں گے؟ مجھے امید ہے کہ اس طرح کا نوٹس ان بھگوا پوش مجرموں کو بھی گیا ہوگا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔