’میں محفوظ ہوں‘: امریکی الزام کے فوراً بعد وکاس یادو نے اہل خانہ سے کہا

وکاس کے اہل خانہ نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے 17 اکتوبر کو الزام عائد کیے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی 18 اکتوبر کو وکاس نے انہیں فون پر کہاتھا، 'تشویش کی کوئی بات نہیں، میں خیریت سے ہوں اور محفوظ ہوں۔'

وکاس کے اہل خانہ نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے 17 اکتوبر کو الزام عائد کیے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی 18 اکتوبر کو وکاس نے انہیں فون پر کہاتھا، ‘تشویش کی کوئی بات نہیں، میں خیریت سے ہوں اور محفوظ ہوں۔’

وکاس یادو کے گاؤں پران پورہ کاایک اسکول۔ (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر)

وکاس یادو کے گاؤں پران پورہ کاایک اسکول۔ (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر)

ریواڑی: جو وکاس یادوپچھلے کچھ دنوں سے ہندوستان، امریکہ اور کینیڈا کے درمیان جاری سفارتی تنازعہ کے مرکز میں ہیں، امریکی محکمہ انصاف کے مطابق سکھ علیحدگی پسند گروپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کے شریک ملزم  ہیں اور کئی مہینوں سے غائب بتائے جا رہے ہیں- انہوں نے حال ہی میں اپنےاہل خانہ  کو فون کرکے بتایا ہے کہ وہ بالکل محفوظ ہیں۔

امریکی محکمہ انصاف کے دستاویز اور دہلی پولیس کی جانب سے وکاس یادو کے خلاف درج کیس کے مطابق ان کا گھر ہریانہ کے ریواڑی ضلع کے پران پورہ گاؤں میں ہے۔ ایف بی آئی (فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن) نے انہیں ‘وانٹیڈ’ قرار دیا ہے۔ امریکہ کے مطابق وہ مفرور ہیں۔ حکومت ہند نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وکاس یادو کہاں ہیں۔

لیکن جب دی وائر پران پورہ پہنچا تو وکاس کے گھر والوں نے بتایا کہ امریکہ کی طرف سے 17 اکتوبر کو الزام عائد کیے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی 18 اکتوبر  کووکاس نے انہیں فون کیا تھا۔ ‘انہوں نے ہم سے پوچھا کہ نیوز میں جو چل رہا ہے وہ دیکھا؟ ہم نے جواب دیا ہاں۔ انہوں نے کہا-تشویش  کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں خیریت سے ہوں اورمحفوظ ہوں۔ ‘

تاہم، اہل خانہ کے مطابق وہ نہیں جانتے کہ وکاس کہاں ہیں۔ انہوں نے فون پر بات چیت کے دوران اپنی لوکیشن نہیں بتائی۔

پران  پورہ گاؤں میں وکاس یادو کے گھر کے نزدیک کی  ایک گلی۔

پران  پورہ گاؤں میں وکاس یادو کے گھر کے نزدیک کی  ایک گلی۔

گھر والوں نے بتایا کہ وکاس یادو اس سال مئی میں صرف ایک رات کے لیے گھر آئے تھے۔ اس کے بعد سے گھر والوں نے انہیں نہیں دیکھا ہے۔ تاہم، وکاس کی اپنے اہل خانہ  کے ساتھ فون پر باقاعدہ بات چیت ہوتی رہی ہے۔ گاؤں کے لوگوں  نے یہ بھی کہا کہ انہیں حالیہ واقعہ کے بارے میں خبروں سے معلوم ہوا۔

اگرچہ حکومت ہند نے اس وقت وکاس یادو کو سرکاری ملازم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ، جب 17 اکتوبر کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ حکومت ہند کے حصہ نہیں تھے،تمام خبروں کے مطابق ، یادو پروبیشن پر طویل عرصے تک  راکے لیے بطور سینئر فیلڈ آفیسر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے کئی سال تک سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) میں کیس لڑا، جس کے بعد انہیں 9 اکتوبر 2023 کو پرماننٹ کیا گیا۔

اہل خانہ اور گاؤں والوں کے مطابق کم  نظر آنے والا یہ شخص اچانک علاقے کی یادوں کا حصہ بن گیا ہے۔

آپ وکاس یادو کے بارے میں جانتے ہو؟’ہاں، انھوں نے امریکہ میں کچھ کر دیا ہے نا؟’ وکاس کے گھر کا راستہ بتاتے ہوئے ان کے گاؤں کا ایک بچہ کہتا ہے۔ بچے کو حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ اس کے گاؤں کے ایک شخص نے بیرون ملک ‘کچھ کر دیا ہے۔’

گاؤں میں لگا 'گورو پٹ' آزاد ہند فوج کے ایک مجاہد آزادی  کی کہانی سنا رہاہے۔

گاؤں میں لگا ‘گورو پٹ’ آزاد ہند فوج کے ایک مجاہد آزادی  کی کہانی سنا رہاہے۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وکاس ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق، وکاس ایک سرکاری ملازم ہیں اور سی آر پی ایف میں افسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے بھائی اجئے یادو کہتے ہیں،’ہمارے لیے تو آج بھی وہ سی آر پی ایف میں ہی ہیں۔ ہمیں را کے بارے میں پتہ ہی نہیں … کب جوائن کیا، کب کیا رہا’۔اہل خانہ  کو وکاس کے کسی غیر ملکی سفر کے بارے میں بھی علم نہیں ہے۔

اہل خانہ  نے بتایا کہ وکاس اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں بہت کم بات کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر والوں کو ان کی پوسٹنگ اور عہدے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھی۔ اہل خانہ کے مطابق، وکاس کی آخری پوسٹنگ دہلی میں تھی، اور ان کی پہلی پوسٹنگ نکسلائٹ سے متاثرہ ریاست چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ میں تھی۔

وکاس یادو کا آخری آفیشیل پتہ  دہلی کے اینڈریوز گنج ایکسٹینشن میں ایک سرکاری کمپلیکس تھا۔ 19 اکتوبر کو شائع ہونے والی دی وائر کی رپورٹ کے مطابق ، وکاس کو آخری بار دسمبر 2023 میں اس پتے پر دیکھا گیا تھا۔ وہ اس پتے پر اپنی بیوی کے ساتھ تقریباً تین سال تک رہے،لیکن پڑوسیوں سے ان کی کوئی بات چیت نہیں تھی۔ پڑوسیوں کو ان  کے’سرکاری ملازم’ ہونے کے علاوو، ان کےکام کی کوئی جانکاری نہیں تھی۔

اغوا اور ڈکیتی کی واردات کے بارے میں اہل خانہ کوجانکاری نہیں

انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ، امریکہ کی طرف سے گزشتہ نومبر میں پہلی فرد جرم داخل کرنے کے تین ہفتے بعد دہلی پولیس نے وکاس یادو کو اغوا اور پیسہ وصولی کے الزام میں  18 دسمبر 2023 کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے  22  مارچ  2024 کو وکاس کو ان کی بیٹی کی بیماری کی وجہ سے عبوری ضمانت دی تھی۔ انہیں 22 اپریل کو باقاعدہ ضمانت مل گئی۔ چند ماہ تہاڑ جیل میں رہنے کے بعد اپریل میں رہا کر دیا گیا۔

وکاس تقریباً چار ماہ تک تہاڑ جیل میں رہے۔ لیکن اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ انہیں بھی اس کیس کے بارے میں حالیہ خبروں سے معلوم ہوا۔

گھر والوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وکاس سے طویل عرصے تک بات نہ ہوئی ہو۔ جس دوران  وکاس  کے جیل میں رہنے کی بات سامنے آئی ہے،اہل خانہ کے مطابق، وہ اس وقت  بھی ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور انہوں نے جیل یا اس کیس سے متعلق کسی بات کا ذکر نہیں کیا۔

وکاس کے ماموں کے بیٹے اویناش نے دہلی پولیس کیس کے بارے میں کہا، ‘ہو سکتا ہے حکومت نے  بھائی کو بچانے کے لیے ایسا کیا ہو۔’

غور کریں، دہلی پولیس کی طرف سے درج کیے گئے اس کیس کا اثر یہ ہوگا کہ یادو کی حوالگی کی امریکی درخواست کو اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک روک دیا جائے گا ۔ اس عمل میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

پڑھائی میں اول، قومی سطح کے شوٹر اور پیرا کمانڈوکی  ٹریننگ

وکاس یادو کے دادا کسان تھے۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑے وکاس یادو کے والد رام سنگھ یادو تھے۔ چچا یشونت یادو کے مطابق، رام سنگھ یادو بی ایس ایف میں سپاہی کے طور پر (اسپورٹس کوٹے سے) بھرتے  ہوئے تھے اور ڈی ایس پی کے عہدے تک پہنچے تھے۔ 2007 میں تریپورہ میں ڈیوٹی کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوگئی۔

والد کی پوسٹنگ ملک کے مختلف حصوں (شیلانگ، جموں، جھارکھنڈ، تریپورہ وغیرہ) میں ہونے کی  وجہ سے وکاس اور ان کے بھائی اجئے کا اسکول بھی بدلتا رہا۔ یہ سلسلہ دسویں جماعت تک جاری رہا۔ دونوں بھائیوں نے 11ویں اور 12ویں کی تعلیم کیندریہ ودیالیہ ریواڑی سے  حاصل کی۔

کالج کی تعلیم کے لیے دونوں بھائی اہیر کالج، ریواڑی گئے، جہاں وکاس نے بی ایس سی اور اجئے نے بی اے کیا۔

تمام گھر والوں نے بتایا کہ وکاس بچپن سے ہی پڑھائی میں ہونہار تھے، کالج میں کھیلوں میں ٹاپر تھے اور قومی سطح کے شوٹر بھی رہے۔ وکاس کےبھائی اجئے 2008 سے ہریانہ پولیس میں ہیں۔ ان کی پوسٹنگ گڑگاؤں میں ہے۔

گوپال پورہ عرف پران پورہ گاؤں۔

گوپال پورہ عرف پران پورہ گاؤں۔

صرف 22 سال کی عمر میں 2009 میں سی آر پی ایف میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے طور پر بھرتی ہونے سے پہلے وکاس نے این ڈی اے کا امتحان بھی دیا تھا۔ کادر پور سی آر پی ایف کیمپ (ریواڑی) سے تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کی پہلی پوسٹنگ رائے گڑھ، چھتیس گڑھ میں ہوئی۔ اہل خانہ کے مطابق ٹریننگ  کے بعد انہیں بیسٹ کیڈیٹ کے اعزز سے نوازا گیا تھا۔ انہیں ایک پروگرام میں اس وقت کے وزیر اعلی بھوپیندر سنگھ ہڈا نے اعزاز سے نوازا تھا ۔

اہل خانہ کے مطابق، وکاس نے پیرا کمانڈو کی ٹریننگ بھی لی ہے۔

وکاس یادو کا خاندان خوشحال دکھائی دیتا ہے۔ ان کے بڑے سے گھر کی دیواریں گلابی رنگ کی ہیں۔ زراعت سے متعلق مشینیں گھر کے برآمدے میں رکھی ہوئی ہیں۔ دروازے پر ایک پالتو کتا ہے، جسے وکاس لائے تھے۔ دہلی میں ان کے پڑوسیوں نے بتایا تھا کہ وکاس کے پاس کچھ بلیاں بھی تھیں۔

گاؤں میں شاید ان کا کوئی دوست نہیں ہے

اہل خانہ کے مطابق، وکاس یادو کی شادی  دوسرے ذات میں راجستھان کی رہنے والی ایکتا کے ساتھ 2015 میں ہوئی تھی۔ دونوں کی ملاقات کہاں ہوئی یہ واضح نہیں ہے ۔ یشونت بتاتے ہیں کہ وکاس کی ملاقات ایکتا سے اپنے ایک دوست کے ذریعے ہوئی تھی۔

اینڈریوز گنج ایکسٹینشن میں وکاس کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وکاس زیادہ تر وقت اپنی بیوی کے ساتھ ہی رہے۔ دہلی میں پڑوسیوں کے مطابق، ایکتا فلائٹ اٹینڈنٹ ہیں، جبکہ پران پورہ میں ام کے گھر والوں نے بتایا کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ وکاس کے چچا نے بتایا کہ ایکتا اپنے سسرال میں بہت کم آئی ہیں۔

گاؤں کے بہت سے لوگوں کو وکاس کا چہرہ بھی یاد نہیں ہے۔ گاؤں میں شاید اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔  گاؤں کے لوگوں سے اس کی زیادہ بات چیت بھی نہیں رہی۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے اسے آخری بار ڈیڑھ سال قبل ان کی بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد منعقدہ ایک پروگرام میں دیکھا  تھا۔

 وکاس یادو کے گھر کے سامنے والی گلی میں رہنے والے سابق فوجی سمپت لال کا کہنا ہے کہ انھوں نے آخری بار انھیں کئی سال پہلے دیکھا تھا۔ بہت شریف لڑکا ہے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد افسر بنا تھا۔

وکاس کی نوکری پر ان  کے بھائی اجئے کہتے ہیں،’سی آر پی ایف یا فوج میں شامل ہونا اس کا خواب نہیں تھا۔ ہریانہ میں ملازمت کے لیے، ہم تمام ملازمتوں کے لیے درخواستیں بھرتے ہیں اور جو بھی نوکری ملتی ہے اس پر چلے جاتے ہیں۔’