لوک سبھا انتخاب میں وارانسی سے امیدوار اور وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں فوج اور شہیدوں کا لگاتار تذکرہ کر رہے ہیں۔ ان کے پارلیامانی حلقہ کے ہی توفہ پور گاؤں کے سی آر پی ایف جوان رمیش یادو پلواما حملے میں شہید ہوئے تھے۔ انتخاب میں وزیر اعظم اور بی جے پی کے ذریعے فوج اور پلواما حملے کے استعمال پر کیا سوچتے ہیں شہید کے رشتہ دار اور گاؤں کے لوگ۔
توفہ پور (وارانسی): ‘ مودی کون ہوتے ہیں فوج کے نام پر ووٹ مانگنے والے؟ میرے شوہر تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، وہ تو چلے گئے اور آج مودی ان کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اگر مودی ہوائی جہاز کا انتظام کر دیتے، تو آج میرے شوہر زندہ ہوتے۔ اس دنیا میں ہوتے، ہمارے ساتھ ہوتے۔ فوج کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں مودی، میرے شوہر کو واپس لاکر دیںگے کیا۔ اگر وہ میرے شوہر کو واپس لانے کی بات کریں، تب فوج کے نام پر ووٹ مانگے۔ ‘
اتنا کہتے ہی 26 سال کی رینو یادو پھوٹ پھوٹکر رونے لگتی ہیں۔ ان کی آواز میں اداسی اور غصہ دونوں ہے۔ رینو یادو سی آر پی ایف جوان رمیش یادو کی بیوی ہیں۔
رمیش یادو گزشتہ 14 فروری کو جموں و کشمیر میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہوئے دہشت گرد انہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ رمیش یادو تقریباً 18 مہینے پہلے سی آر پی ایف میں شامل ہوئے تھے۔ ایک سال کی ٹریننگ کے بعد چھ مہینے پہلے ہی انہوں نے نوکری جوائن کی تھی۔حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام سے پلواما کے شہیدوں کے نام پر بی جے پی کو ووٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کیا وہ نوجوان، جو پہلی بار ووٹ کرنے والے ہیں پلواما شہیدوں کے لئے بی جے پی کو اپنا ووٹ دے سکتے ہیں۔پی ایم مودی کی اس تقریر کے بارے میں پلواما دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہوئے سی آر پی ایف جوان رمیش یادو کے گاؤں توفہ پور میں ان کی فیملی اور لوگوں سے بات چیت کی گئی، تو لوگوں نے وزیر اعظم مودی کی فوج کے نام پر ووٹ مانگنے پر اپنی رائے شیئر کی۔
وزیر اعظم کی تقریر کے بارے میں رمیش یادو کے اکلوتے بھائی راجیش یادو نے کہا، ‘مودی کیا بکواس کر رہے ہیں۔ ان کی باتیں سنکر مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ یہ شہیدوں کے خون سے کرسی سجانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ‘راجیش کہتے ہیں،’جوانوں کے نام پر ووٹ مانگنے سے بدتر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یوگی اور مودی سب بکواس ہیں، یہ ہمارے ملک کی فوج ہے، کسی یوگی مودی کی نہیں۔ ‘راجیش ڈرائیور ہیں اور کرایے کی گاڑی چلاتے ہیں۔ راجیش کہتے ہیں،’میں نے خبر میں پڑھا تھا کہ جوانوں نے ہوائی جہاز کی مانگ کی تھی تاکہ وہ محفوظ اپنے کیمپ میں پہنچ جائیں لیکن حکومت نے ان کی بات نہیں سنی، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی سی بی آئی جانچ ہو۔ ‘
گاؤں کے کسان رامناتھ پٹیل سے جب وزیر اعظم کے اس بیان کے بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا، ‘ شہید کے نام پر ووٹ ہم کیسے دے سکتے ہیں؟ شہید کیا، کسی کے نام پر بھی ہم ووٹ کیسے دے سکتے ہیں۔ مودی اپنا کام دکھاکر ووٹ مانگے۔ عوام کو جیسا ٹھیک لگےگا، ویسا ان کو ووٹ ملےگا۔ ویسے اگر پی ایم مودی ہی ایسا بولیںگے تو کون ان کو ووٹ دےگا۔رامناتھ نے آگے کہا، ‘ جس دن ہمارے گاؤں کا جوان شہید ہوا تھا اس دن ہمارے گاؤں میں اتنی بھیڑ تھی جتنی پوری زندگی میں کبھی نہیں ہوئی۔ یہ سبھی لوگ میرے گاؤں کے نہیں تھے، الگ الگ جگہ سے آئے تھے۔ لوگ خوب نعرے لگا رہے تھے، لوگوں کی آنکھوں میں غصہ صاف جھلک رہا تھا، سب کو احساس تھا کہ ہم نے اپنا ایک جوان کھو دیا ہے۔ اس فیملی کے بارے میں سوچنے کے بجائے آج مودی شہید کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ‘
یہاں لوگوں نے بتایا کہ پلواما حملے کے بعد شہید جوان کے گھر پر آکر افسروں نے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں میں رمیش یادو کے نام پر گیٹ بنایا جائےگا اور ان کے گھر کی طرف جانے والے راستے پر بھی سڑک بن جائےگی، لیکن آج تقریباً تین مہینے کا وقت گزر جانے کے بعد بھی صورت حال جیوں کی تیوں ہیں۔شہید رمیش یادو کے والد شیام نارائن یادو کہتے ہیں،’جب میرا بیٹا شہید ہوا تھا تو ڈی ایم کے ساتھ کئی افسر میرے گھر پر آئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ راستے بن جائیںگے، میرے بیٹے کے نام پر گیٹ بنےگا، لیکن وہ لوگ کہہکر چلے گئے اور ابھی تک نہیں آئے۔ ‘
پیشے سے کسان اور گوالے شیام نارائن کہتے ہیں،’میرے گھر پر پہلے بجلی نہیں تھی۔ جس دن یہ حادثہ ہوا تھا اس دن گھر پر بہت سارے لوگ آئے تھے اور گھر میں بہت اندھیرا تھا۔ ہمارے گاؤں کے پردھان نے جنریٹر کا انتظام کیا اور بجلی کا انتظام کرایا۔ ‘وہ آگے بتاتے ہیں،’ عوام نے میرا بہت ساتھ دیا، سب لوگ بہت سپورٹ کئے۔ عوام نے چندہ جمع کرکے میرے گھر پر ہینڈ پمپ لگوا دیا ہے۔ ‘
شہید کی فیملی سے پورے گاؤں کی ہمدردی نظر آتی ہے، لیکن وزیر اعظم کا اپنی انتخابی تقریر میں شہید جوانوں کے نام پر ووٹ مانگنا زیادہ تر کو ناگوار گزرا ہے۔ گاؤں کے نوجوان بھی اس بیان سے غصے میں ہیں۔19 سال کے ببلو یادو گریجویشن کے پہلے سال میں ہیں۔ ببلو کہتے ہیں،’جس دن سے ٹی وی پر پی ایم کی تقریر سنا ہوں دماغ اس دن سے خراب ہے۔ ہم کتنی عزت کرتے تھے مودی کی۔ ہمیں لگتا تھا کہ یہ ہمارے جوان کی شہادت کا بدلہ لیںگے لیکن کیا کیا انہوں نے، کچھ تو نہیں۔ ‘
ببلو کے ساتھ ان کے ایک دوست انوپ کمار ہیں۔ 11ویں کلاس کا امتحان دے چکے انوپ کہتے ہیں،’جب ہمارے جوانوں کی شہادت کی خبر آئی تھی تبھی سوچ لیا کہ جتنی بھی محنت ہو، کرنا ہے لیکن فوج میں بھرتی ہونا ہے۔ ہمارے جوانوں کے ساتھ جس نے بھی ایسا کیا ہے اس کو سبق سکھانا ہے۔ مودی جی بھی نے کہا کہ جوانوں کی شہادت بےکار نہیں جائےگی۔ لیکن انہوں نے کیا کیا؟ کچھ تو نہیں۔ ایئر اسٹرائک میں کتنے مرے، سب لوگ الگ الگ بتا رہے ہیں۔ جو چیز ہماری فوج کو بتانی چاہیے وہ مودی جی بتا رہے ہیں اور اب وہی مودی جوان کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ‘
جوانوں کی شہادت پر عورتوں میں بھی ناراضگی دکھتی ہے۔ گریجویشن فائنل ایئر کی ریکھا سنگھ کہتی ہیں،’اس حکومت سے اتنا دل اوب گیا ہے کہ کسی کو ووٹ دینے کا دل ہی نہیں کرتا ہے۔ اب تو اس پارٹی کو ووٹ دیںگے ہی نہیں۔ ہمارے جوان لگاتار شہید ہو رہے ہیں۔ ملک میں بےروزگاری لگاتار بڑھ رہی ہے لیکن لوگوں کو صرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے، کسی کو عوام کی فکر ہی نہیں ہے۔ کوئی عورتوں کے تحفظ پر بات کرنے والا نہیں ہے۔ ‘
آگے ریکھا کہتی ہیں،’بی جے پی کی حکومت کیسی حکومت ہے کہ ان کو شرم بھی نہیں آتی۔ یہ اپنی غلطی کو اپنی تعریف بتا رہے ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں سوچ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اپنا جوان کھویا ہے وہ ابھی اس دکھ سے ابر بھی نہیں پائے ہیں اور آج یہ جگہ جگہ بینر لگاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ مودی کو دیکھیے، وہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ پلواما شہیدوں کے لئے آپ ووٹ نہیں کریںگے۔ مطلب یہ کیا چاہتے ہیں کہ ہم ان کو ووٹ دےکر پھر اپنے جوانوں کو جانکے دشمن بن جائیں۔ ‘
گاؤں میں چاٹ کی دوکان لگانے والے چھوٹےلال گپتا جیسے ہی اپنے گاؤں کے شہید کو یاد کرتے ہیں، تھوڑا اداس ہوتے ہیں لیکن اگلے ہی پل ان کے چہرے پر غصہ صاف نظر آتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘اتنے جوان کبھی شہید نہیں ہوئے جتنا اس حکومت میں ہوئے ہیں۔ یہی حکومت جوانوں کے نام پر ووٹ بھی مانگ رہی ہے۔ لگتا ہے ان کے پاس دماغ نام کی چیز نہیں ہے۔ کم سے کم ان کو اتنا سوچنا چاہیے کہ ہمارے جوان ان کی حکومت میں شہید ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کے سب سے زیادہ جوان بی جے پی کی حکومت میں ہی شہید ہوئے ہیں۔ یہ ووٹ کیسے مانگ سکتے ہیں۔ یہ کام تو دوسری پارٹی کو کرنا چاہیے۔ ‘
وزیر اعظم کے بیان کے علاوہ بی جے پی حکومت سے بھی ناراضگی دکھ رہی ہے۔ ٹی جی ٹی کا امتحان پاس کر چکے بھولا یادو سرکاری ٹیچر بننے والے ہیں۔ بھولا یادو کا کہنا ہے، ‘یہ حکومت صرف برباد کرنے کے لئے ہے۔ کسی کا اچھا نہیں سوچ سکتی۔ کام تو اس حکومت سے کچھ ہوا نہیں، اب جب ووٹ لینے کی باری آئی تو شہیدوں کے نام پر مانگ رہے ہیں۔ اس سے گھٹیا سیاست بی جے پی اور کیا کرےگی۔ ‘شہید جوان کی ماں راجمتی دیوی وزیر اعظم کی تقریر پر زیادہ کچھ نہیں کہہ پائیں۔ آنسو بھری آنکھوں سے انہوں نے کہا، ‘ میرے جگر کا ٹکڑا چلا گیا اب کیا بچا ہے میرے پاس۔ ‘
روتے ہوئے راجمتی دیوی کہتی ہیں،’میرے بچےنے کتنی محنت کی تھی فوج میں جانے کے لئے اور میرا لال نوکری بھی زیادہ دن نہیں کر سکا۔ سال بھر کی ٹریننگ اور چھ مہینے کی نوکری کے بعد ہی بھگوان نے اس کو ہم سے چھین لیا۔ ‘شہید کے والد کہتے ہیں،’ہم غریب آدمی ہیں، بہت مشکل سے اپنے بچے کو پڑھا-لکھاکر فوج میں بھیجے تھے۔ ملک کی حفاظت کرنے بھیجے تھے، اب تو وہ چلے گئے، اب کون ہمارا سہارا ہے۔ ان کے شہید ہونے کے بعد ہمارے یہاں بجلی لگا دی گئی، بجلی کا میٹر بھی لگا ہے لیکن ہم بجلی کا بل کیسے بھریںگے۔ کسی طرح سے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں، اب بل کیسے بھریںگے۔ ‘
نریندر مودی کی تقریر کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتے ہیں، ‘ نہ نہ… مودی کیسے ووٹ مانگ سکتے ہیں۔ ہمارے دکھ میں تو عوام ہمارا ساتھ دیا ہے، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ یہ یوگی-مودی کون ہیں، اب ہم کسی رہنما کو نہیں جانتے۔ ہمارا بیٹا ملک کی راہ میں شہید ہوا ہے۔ اب ہم بھی ملک کے لئے کچھ کریںگے۔ یہ ہمارے ملک کی فوج ہے، یوگی-مودی کی نہیں۔ ملک کے لوگوں نے میری مدد کی ہے، ہم بھی عوام کی مدد کریںگے، کسی رہنما کی نہیں۔ ‘
(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں۔)