گیان واپی کیس میں بنارس کی عدالت نے ابھی صرف یہ کہا ہے کہ ہندو خواتین کی عرضی قابل غور ہے۔ میڈیا اس فیصلے کو ہندوؤں کی جیت قرار دے کر مشتہر کر رہی ہے۔ اس سے آگے کیا ہوگا ،یہ صاف ہے۔ وہیں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ متھرا کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: کبیر اگروال/د ی وائر)
بنارس کی گیان واپی مسجد کو بالآخر عدالتوں نے متنازعہ بنا ہی دیا۔ جو انہوں نے کیا ہے، وہ صرف گیان واپی مسجد کو ہی نہیں بلکہ دیگر مسجدوں کو نزاعی معاملہ بناے کی راہ ہموار کرے گا، یہ اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کے بیان سے بھی ظاہرہوگیا ہے۔
انہوں نے بنارس کی عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد ٹوئٹ کیا، ‘کروٹ لیتی متھرا، کاشی…’۔
بنارس کی ضلع عدالت نے
یہ کہا کہ گیان واپی مسجد کی ایک دیوار پر ماں شرنگار گوری، بھگوان گنیش اور ہنومان کی پوجا کرنے کے پانچ ہندو خواتین کے دعوے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ یہاں واضح طور پر کہا گیا کہ1991 کا پیلیس آف ورشپ ایکٹ (1947 کے وقت جو ان کی پوزیشن تھی) یعنی مذہبی مقامات کی حالت کو برقرار رکھنےکا قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روکتا ہے۔
بنارس کی ضلع عدالت کو ان ہندو دعویداروں کی عرضی پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے ہی کہا تھا۔ یہ سب کچھ عدالتوں نے حیران کن رفتار سے کیا۔ اس سال کے شروع میں، بنارس کی ایک عدالت نے ہندو خواتین کے مسجد کے احاطے میں پوجا کرنے کے حق پر غور کرنے کے لیے جواز تیار کیا۔ مسجد کے سروے کا حکم دیا گیا۔
برسوں تک مسجد میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کو روکنے والے الہ آباد ہائی کورٹ کو اس بار سروے سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ نہ صرف یہ کہ جلد بازی میں سروے کیا گیا بلکہ سروے ٹیم نے عدالت کو رپورٹ کرنے سے پہلے ہی باہراپنی کھوج کا اعلان کیا کہ اسے مسجد میں شیولنگ مل گیاہے۔
اس دوران مسجد کمیٹی سپریم کورٹ گئی کہ سروے کو روکاجائے۔ انہیں اس بات کاخدشہ اور اندیشہ تھا کہ کہ اس سروے سے مسجد کے کردار کو بدلنے کی شروعات ہو سکتی ہے۔یہ 1991 کے اس قانون کے خلاف ہے۔ قانون میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں تمام مذہبی مقامات کو اسی حالت میں رکھا جائے گا جس حالت میں وہ 15 اگست 1947 کو تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی ایسا نہیں کیا جائے گا جو اس کے کردار کو بدلنے کا بہانہ بنے۔
کیا یہ سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ذہانت کی ضرورت ہے کہ اگرمسجد کے کسی بھی حصے میں پوجا شروع کر دی جائے تو وہ وہیں تک نہیں رکے گی؟ خاص طور پر جب ایک سیاسی پارٹی اور کئی تنظیمیں ‘ہندو جغرافیائی توسیع’ کا ارادہ رکھتی ہوں اور اس کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہوں؟
یہ بھی نہ بھولیں کہ آج ریاست کے تمام اداروں کی طاقت ان کے پاس ہے۔ لیکن پرائمری عدالتوں کو چھوڑ دیں ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی اس صورتحال کی سنگینی کو نظر انداز کر دیا۔
سپریم کورٹ نے تو ایک اور عجیب و غریب اصول پیش کیا، جس کی مدد سے 1991 کے ایکٹ میں رہتے ہوئے اسے بیکارکردیا جا سکتا ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ مسجد کے سروے پر آخر کیوں اعتراض ہونا چاہیے۔ وہ کوئی ملکیت کے دعوے کوطے کرنے کے لیے تو نہیں کیا جا رہا! آخر یہ جاننےکاتجسس ہوسکتا ہے کہ مسجد میں کیا ہے۔ کیا اس تجسس کی تسکین نہیں ہونی چاہیے؟
ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے اشتراکیت کی دلیل بھی دی کہ جس طرح ہمارے رہن سہن کے طریقے میں ملاوٹ ہے، اسی طرح ہمارے ثقافتی یا مذہبی مقامات بھی آمیزش ہو سکتی ہے۔ اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد کے کسی حصے میں پوجا کیوں نہیں کی جا سکتی؟ اگر مسجد والے اعتراض کریں تو انہیں تنگ دل اور تنگ دماغ کہا جائے گا۔
قانون کے جاننے والوں اور
ماہرین نے لکھا ہے کہ 1991 کے ایکٹ کا مقصد ذہن میں رکھنا چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ بابری مسجد جیسے تنازعات کو جڑ نہ پکڑنے دیا جائے۔ خیال رہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی کاشی متھرا کی باری آنے دھمکی دی گئی تھی۔
تیس سال بعد اب کاشی کی مسجد پر نام نہاد ‘ہندو’ فریق کے دعوے کے درست ہونے کے سوال پر عدالتوں نے قابل غور تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح 1991 کے ایکٹ کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ اس قانون کے پس پردہ سمجھ یہ تھی کہ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیا جائے۔
مندروں کوتوڑ کر یا ان کے کھنڈرات پر مسجدیں بنانے کی مثالیں موجود ہیں، توبودھ اور جین کے استوپوں یا مندروں کو گرا کر ہندو مندروں کی تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ کیا بدھ مت اور جین کے دعوے اس لیے اہم نہیں ہوں گے کہ ان میں ہندؤوں کی طرح عددی طاقت نہیں ہے؟ یا اس لیے کہ ان کی آواز کو شور میں بدلنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جیسی کوئی تنظیم نہیں ہے؟
اگر ان سب باتوں کو درست مان لیا جائے گا تو اس طرح کا انتشار پیدا ہو گا جس کے سدباب کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ سوال صرف اپنی طاقت بڑھانے کا رہ جائے گا۔ کیا ہم اس نوع کی زور آزمائی چاہتے ہیں؟
ہندوستان کی تاریخ جمہوریہ کی تاریخ نہیں تھی، راجاؤں اور بادشاہوں کے طور طریقوں سے آج نہ توریاست چل سکتی ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی زندگی۔ 1950 میں آئین کو قبول کرتے ہی ہم نے مشترکہ زندگی کے اصول طے کیے۔ تاریخ کا بدلہ آج نہیں لیا جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ رانا پرتاپ کی شکست کا بدلہ آج کے مسلمانوں سے لیا جائے۔
مسجدوں کے حوالے سے ہندوؤں کے ذہن میں کئی طرح کے تعصبات ہیں۔ مسجدوں کےآگے ہندو ضرور اپنے مذہبی جلوس لے جانا چاہتے ہیں، وہ وہاں رک کر ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔ اس پر چڑھ جانا چاہتے ہیں؟ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ تمام مساجد ہندوؤں کی جگہ پر بنائی گئی ہیں۔ اس لیےکسی ایک مسجد کو نزاعی بنانے کا مطلب اس اکثریتی توسیع پسندی کو ہوا دینا ہے۔
بنارس کی عدالت نے ابھی صرف اتنا کہا ہے کہ ہندو خواتین کی عرضی قابل غور ہے۔ میڈیا اس فیصلے کو ہندوؤں کی جیت قرار دے کر مشتہر کر رہی ہے۔ اس سے آگے کیا ہوگا، یہ صاف ہے۔ اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ متھرا کی دھمکی دے رہے ہیں۔
مسجد کمیٹی آگے کی عدالتوں میں اس فیصلے کوچیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں ہندوتوا تنظیموں نے بلڈوزر کی دھمکی دی ہے۔ اگر اس کے بعد بھی ہمیں یا عدالت کو لگتا ہے کہ معاملہ مذہبی ہے تو اس فہم و فراست اور معصومیت پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)