اتراکھنڈ کے سلکیارا میں 12 نومبر کو زیر تعمیر سُرنگ کا ایک حصہ منہدم ہونے کے باعث پھنسے 41 مزدوروں کو بالآخر سترہ دنوں کی سخت جدوجہد کے بعد نکال لیا گیا۔ لیکن وہ کون سی غلطیاں تھیں، جن کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی؟
(تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@jayanta_malla)
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے اترکاشی میں سُرنگ سے 41 مزدوروں نے موت کا دروازہ توڑ کر
زندگی کے آنگن میں آنے کی جنگ جیت لی ہے۔ گزشتہ 17 دنوں سے اترکاشی ضلع کے سلکیارا کی ایک سُرنگ میں ان کی جان پھنسی ہوئی تھی۔ انہیں سُرنگ سے باہر نکالنے کے لیے کئی طریقے آزمائے گئے۔ حکومت کی کئی ایجنسیاں جو کہ بچاؤ اور سرنگ کی تعمیر میں مہارت رکھتی ہیں، انہیں بچانے کے کام میں لگ گئیں۔ بیرون ملک سے ماہرین بلائے گئے اور مشینیں لائی گئیں۔ آخر میں ریٹ مائنرس کی مدد لینی پڑی، جنہوں نے آخری رکاوٹ کوتوڑ کر مزدوروں کو باہر نکالا۔
سلکیارا ٹنل اتراکھنڈ میں 12000 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے چاردھام ہائی وے پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کی تعمیر کا اعلان سال 2018 میں کیا گیا تھا۔ 4.5 کلومیٹر لمبی سُرنگ کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 1383 کروڑ روپے ہے۔ یہ سُرنگ اس مقصد کے ساتھ بنائی جا رہی ہے کہ گنگوتری اور یمنوتری کے درمیان کا 20 کلومیٹرکا فاصلہ کم ہو جائے گا اور اس میں 45 منٹ کم لگیں گے۔
این ایچ آئی ڈی سی ایل نے جون 2018 میں اس ٹنل پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اور کنسٹرکشن کے معاملے پر حیدرآباد میں واقع نویگ انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ کے ساتھ 853.79 کروڑ روپے کا معاہدہ کیا۔
جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو انتظامیہ سمیت کئی لوگ کہتے ہیں کہ ابھی حکومت سے سوال نہ پوچھا جائے، کوئی شکایت درج نہ کی جائے اور بچاؤ کا کام کیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریسکیو کے کام کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔ لیکن کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ وہ غلطیاں حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے بار بار دہرائی جاتی ہیں جو حادثوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بات یہ ہے کہ
ہمالیہ ایک بنتا ہواپہاڑی سلسلہ ہے۔ یعنی ہمالیہ کی عمر کروڑوں سال ہے لیکن یہ دنیا کا قدیم ترین پہاڑ نہیں ہے۔ اس کی پلیٹ ایک دوسرے سے دوسرے پہاڑوں کے نیچے موجود پلیٹ یا ایک طرح سے کہہ لیجیے تو لینڈ ماس کے مقابلے زیادہ ٹکراتی رہتی ہے۔ انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کی ٹکراہٹ اندر ہی اندر مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اس لیے یہ زلزلہ کے نقطہ نظر سے بہت خطرناک علاقہ ہے۔
تاہم، یورپ یا دوسرے براعظموں میں موجود پہاڑوں کے لیے ٹھیک یہی بات نہیں کہی جا سکتی۔ جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائریکٹر
پی سی نوانی کہتے ہیں کہ یورپ یا دوسرے براعظموں کے پہاڑوں میں بڑی بڑی سرنگوں کی مدد سے سڑکیں بنائی جاتی ہیں۔ یورپ یا دوسرے براعظموں کے لیے یہ جتنا آسان ہے، ہندوستان میں ہمالیہ اور شمال مشرق کے پہاڑی علاقوں میں سرنگیں بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل۔ ہندوستانی حالات میں سُرنگ بنانے کے لیے ایک مختلف قسم کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جو فی الحال نظر نہیں آتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمالیہ ویسے کسی بھی ڈھانچے کے لیے انتہائی حساس علاقہ ہے جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا جاتاہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں بننے والے ڈھانچے میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائنسدانوں نے اس ڈھانچے کو بنانے کی اجازت دی تھی؟ کیا سُرنگ بنانے سے پہلے چٹان کا ارضیاتی سروے کیا گیا تھا؟ جیولوجیکل سروے میں ماہر ارضیات کو کیا پتہ چلا؟ اگر یہ نکل کر آیا کہ وہاں سُرنگ بنائی جا سکتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ جو سُرنگ ابھی بن کر تیار بھی نہیں ہوئی ، ااس کے منہ سے صرف 210 میٹر کے اندر اتنا ملبہ گرا کہ تقریباً 60 میٹر کا علاقہ ملبے سے بھر گیا؟
کیوں ملبے کا اتنا زیادہ دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہاں سے ایک میٹر ڈائی میٹر والی پائپ نکالنے کاکام بھی ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا ان سوالات سے یہ امکان نہیں پیدا ہوتا کہ 41 مزدور اسی لیے پھنسے تھے کیونکہ سُرنگ کی تعمیر سے پہلے طریقہ کار پر عمل کرنے سے متعلق ضروری شرائط پوری نہیں کی گئیں۔ کیا ان چٹانوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ سُرنگ تیار ہوتی اور وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں پر کبھی ملبہ بھربھرا کرگر جاتا تو کیا ہوتا؟
کئی ماہرین کا
کہنا ہے کہ معیارات کے مطابق ٹنل میں کام ماہرین اور ارضیات کے ماہرین کی نگرانی میں ہونا چاہیے لیکن اگر آپ زمین پر جاکر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مزدور ٹھیکیداروں کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ ٹھیکیدار اپنی لاگت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، حفاظت اور سائنس پر کم۔ ماہرین کی موجودگی نہیں ہے، ماہرین ارضیات کی مہارت اور سائنس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرنگیں بنانے کی دو تکنیک ہیں۔ ایک کو بلاسٹ اور ڈرلنگ مشین کہتے ہیں اور دوسری ٹنل بورنگ مشین۔ ان دونوں میں ٹنل بورنگ مشین کا کام دھیما ہوتا ہے۔ یہ مشین مہنگی ہے۔ لیکن یہ دھماکے اور ڈرلنگ مشینوں سے کم مہلک ہے۔ سلکیارا ٹنل میں بلاسٹ اور ڈرلنگ مشینوں کے ذریعے کام کیا جا رہا تھا۔
اس طریقے میں بلاسٹ کرکے چٹانوں کو توڑا جاتا ہے، جہاں چٹان تو ٹوٹ جاتی ہے لیکن یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ دھماکے کی وجہ سے کچھ دور کی چٹانیں کمزور ہو جائیں اور بعد میں یہ چٹانیں جان لیوا ثابت ہوں۔
اتراکھنڈ یونیورسٹی کے ماہر ارضیات ایس پی ستی
کہتے ہیں، ‘اگرچہ سُرنگ بنانے والی کمپنیاں کبھی یہ تسلیم نہیں کرتی ہیں کہ وہ اپنے کام میں دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتی ہیں، لیکن ہم نے ماضی میں چٹانوں کو ضرورت سے زیادہ دھماکہ خیز مواد سے اڑا کر بار بار خلاف ورزیاں دیکھی ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ سُرنگ کے گرنے کی حتمی وجہ ایک زبردست جھٹکا تھا۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ بھاری دھماکہ خیز مواد کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔’
سلکیارا ٹنل چاردھام پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ وہی پروجیکٹ جس کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ یہ آل ویدر روڈ پروجیکٹ ہے۔ یعنی اتراکھنڈ میں سڑکوں کا ایسا جال بنایا جائے گا کہ ہر موسم میں چاردھام کا دورہ کیا جا سکے۔
ایکٹیوسٹ اندریش میخوری نے اس پر کہا ہے کہ آل ویدر روڈ اب آل ویدر سلائیڈنگ روڈ ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر 100 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سڑک بن رہی ہے تو اس کے لیے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ چاردھام پروجیکٹ 889 کلومیٹر طویل پروجیکٹ ہے۔ لیکن ماحولیاتی اثرات کی تشخیص سے بچنے کے لیے 889 کلومیٹر طویل اس منصوبے کو 53 حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کی ماحولیاتی اثرات کی تشخیص نہیں کی گئی۔
ایسے میں اس حادثے یا چاردھام پروجیکٹ کے تحت بننے والی سڑکوں پر مستقبل میں ہونے والے حادثات کے لیے کون ذمہ دار ہوگا؟
ماہرین کے مطابق معیاری طریقہ کار یہ ہے کہ اتنی بڑی سُرنگ بنانے کے لیے اسکیپ روٹ ٹنل (بچنے کا راستہ) بھی بنایا جاتا ہے، تاکہ کسی آفت کی صورت میں اس راستے کو وہاں سے نکلنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اگر سلکیارا ٹنل میں ایسا کوئی راستہ ہوتا تو وہاں سے مزدوروں کو آسانی سے نکالا جا سکتا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ سلکیارا ٹنل بناتے وقت اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ ایسے میں ٹنل بنانے والی کمپنی کو مورد الزام کیوں نہ ٹھہرایا جائے۔ اس کے لیے حکومت اور انتظامیہ کو ذمہ دار کیوں نہ ٹھہرایا جائے؟
سوشل ڈیولپمنٹ فار کمیونٹی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر
انوپ نوٹیال لکھتے ہیں، ‘2021 کے چمولی آفت میں ابتدائی وارننگ سسٹم نے کام نہیں کیا اور اترکاشی میں 900 کروڑ روپے کی 4.5 کلومیٹر لمبی سرنگ میں اسکیپ سُرنگ نہیں بنائی گئی۔ ذمہ دار کون ہے؟ ہوٹلوں اور دفاتر میں ہنگامی راستے ہوتے ہیں، یہاں کیوں نہیں؟ اتراکھنڈ میں تمام نئے/جاری منصوبوں کا سیفٹی آڈٹ ہونا چاہیے۔’