کہا جا رہا ہے کہ رودرپریاگ ضلع کے گاؤں میں گرام سبھا نے ایسے بورڈ لگائے ہیں۔ تاہم، گاؤں کے پردھان کے مطابق، یہ گاؤں والوں نے لگائےہیں۔ وشو ہندو پریشد نے اس مسئلے کو اپنی حمایت دے کر ماحول کو مشتعل کر دیا ہے۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ میں پچھلے کچھ سالوں میں کئی مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اب مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ رودرپریاگ ضلع کے کئی گاؤں کے باہر سائن بورڈ لگا کر مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
پہلی نظر میں یہ معاملہ مقامی لگ رہا تھا، لیکن وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے اس کو اپنی حمایت دے کراس کو بڑا بنا دیا ہے اور ایک مہم کی شکل دے دی ہے۔ وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں آئے روز مسلمانوں کے ہاتھوں ہندو بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، جس کی وجہ سے ہندو سماج غصے میں آکر ایسے قدم اٹھا رہا ہے۔
وی ایچ پی کے صوبائی تنظیمی وزیر (اتراکھنڈ) اجئے نے دی وائر سے بات چیت میں مسلمانوں پر اتراکھنڈ کی ہندو خواتین کو پھنساکر بھگانے کا الزام لگایا۔ وزیر کا خیال ہے کہ ان کی تنظیم ہندوؤں کو بیدار کرنے کا کام کر رہی ہے، ‘ہمارا کام معاشرے کو بیدار کرنا ہے۔ معاشرے میں بیداری آ رہی ہے۔ …اب ہندو خواتین موم بتی نہیں بلکہ درانتی لے کر چلیں گی۔‘
دی وائر سے بات کرتے ہوئے رودرپریاگ کے سرکل آفیسر پربودھ کمار گھلڈیال نے تصدیق کی کہ کچھ ایسے سائن بورڈ لگائے گئے تھے، لیکن انہیں ہٹا دیا گیا ہے۔ ریاستی پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
’جو بھی اس میں ملوث پایا گیااس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اگر اس طرح کے بورڈ کہیں اور رہ گئے ہیں تو نوٹس میں آتے ہی ہم انہیں ہٹا دیں گے ،‘ انہوں نے کہا۔
اس سلسلے میں مسلم سیوا سنگٹھن کے وفد نے 5 ستمبر کو اتراکھنڈ کے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی پی ) ابھینو کمار سے ملاقات کی اور ریاست میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔
تاہم، جب دی وائر نے گڑھوال کے ایم پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیشنل میڈیا ہیڈ انل بلونی سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے پورے معاملے سے لاعلمی کااظہار کیا۔
سوشل میڈیا پرنیالسو گاؤں کا سائن بورڈ وائرل
رودرپریاگ کے نیالسو گاؤں کے باہر لگےجس سائن بورڈ کی تصویر وائرل ہوئی ہے ، اس میں لکھا ہے ، ‘ غیر ہندوؤں / روہنگیا مسلمانوں اور پھیری والوں کے لیے گاؤں میں کاروبار کرنے / گھومنےکی ممانعت ہے ۔ اگر ( وہ ) گاؤں میں کہیں بھی پائے گئے تو تعزیری اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ‘
سائن بورڈ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہدایت نیالسو گرام سبھا کی جانب سے ہے۔
لیکن ہندوستان ٹائمز کے مطابق، نیالسو کے پردھان پرمود سنگھ نے کہا کہ یہ سائن بورڈ گرام سبھا نے نہیں ، بلکہ گاؤں والوں نے لگایا ہے ۔
ہندوستان ٹائمز کو دوسرے گاؤں میں لگائے گئے اس طرح کے سائن بورڈ کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے ، انہوں نے کہا ، ‘ شیرسی ، گوری کنڈ ، تریوگینارائن ، سون پریاگ ، بارسو ، جامو ، اریا ، روی گرام اور مکھنڈا سمیت علاقے کے تقریباً تمام گاؤں میں اسی طرح کے بورڈ دلگے ہیں۔ یہ بورڈ پولیس کی تصدیق کے بغیر پھیری والوں کو گاؤں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے لگائے گئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے زیادہ تر مرد سفر پر باہر ہی رہتے ہیں۔ ‘خواتین گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔ جن (پھیری والوں) کی پولیس تصدیق ہو چکی ہے وہ باقاعدگی سے گاؤں آتے ہیں اور انہیں نہیں روکا جاتا۔ لیکن کئی پھیری والے درست شناختی کارڈ اور پولیس کی تصدیق کے بغیر گاؤں میں آتے ہیں۔ اگر پھیری والے کوئی جرم کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں ، تو ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔‘
پھیری والوں کی پولیس تصدیق پر رودرپریاگ کے سرکل آفیسر نے کہا ، ‘یہ آئین کے تحت دیا گیا حق ہے کہ آپ قانونی طور پر کہیں بھی کاروبار کر سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت وزٹ کر سکتے ہیں۔ کہیں بھی جا کر بس سکتے ہیں۔ ہندوستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے۔ ویسے بھی پہاڑیوں کے تمام لوگ بازارتو نہیں جا سکتے ، اس لیے پھیری کی روایت ہے۔‘
مسلم تنظیموں کا کیا کہنا ہے ؟
دی وائر سے بات کرتے ہوئے مسلم سیوا سنگٹھن کے صدر نعیم قریشی نے ریاست میں بڑھتے ہوئے مذہبی پولرائزیشن پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا،’ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سیاسی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور معاشی طور پر بے دخل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا ، ‘ہم نے ڈی جی پی صاحب سے ملاقات کی ہے اور انہیں اس معاملے سے واقف کرایاہے۔ یہ باتیں آئین کے خلاف ہیں۔ ‘
وشو ہندو پریشد کا کیا کہنا ہے ؟
وی ایچ پی کے صوبائی تنظیمی وزیر ( اتراکھنڈ ) اجئے نے دی وائر کو بتایا، ‘ہاں، اس طرح کے بورڈ اس لیے لگائے جا رہے ہیں کیونکہ ہر روز ہندو بہو اور بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ‘
انھوں نے کہا ، ‘ایسے واقعات روز کسی نہ کسی ضلع ، کسی گاؤں میں ہو رہے ہیں۔ یہ ( مسلمان ) لوگ کسی نہ کسی کام سے سماج میں جاتے ہیں اور وہاں ہندو سماج کی بہنوں اوربیٹیوں کو پھنسا کر بھگالے جاتے ہیں۔ ‘
تاہم، وی ایچ پی کے صوبائی تنظیمی وزیر نے واضح کیا کہ بورڈ انہوں نے نہیں لگائے بلکہ ‘ہندو سماج خود ہی لگا رہاہے۔ ‘
صوبائی وزیر نے کہا کہ ان کی تنظیم ایسے واقعات کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ کل رودرپریاگ میں ایک مظاہرہ ہے ، جس میں خود ہندو سماج آگے آ رہا ہے۔ خواتین کہہ رہی ہیں کہ اب ہم موم بتیاں لے کر نہیں چلیں گے، اب ہم درانتی ، کدال لے کر چلیں گے ۔ ‘
وی ایچ پی کی جانب سے چندولی میں ضلع کلکٹر (ڈی ایم) کو میمورنڈم بھی دیا گیا۔ صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ کل (9 ستمبر ) کو رودرپریاگ میں ہندو برادری کی جانب سے ڈی ایم کو ایک میمورنڈم دیا جائے گا۔
کہیں بھی جا کر کاروبار کرنے کے آئینی حق پر وی ایچ پی لیڈر کہتے ہیں ، ‘ جب 90 کی دہائی میں لوگوں کو جموں و کشمیر سے باہر نکالا گیا تو یہ حق کہاں چلاگیا تھا۔‘
اقتدار کی سرپرستی میں فرقہ وارانہ جنون: لیفٹ لیڈر
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ – لیننسٹ ) لبریشن کی مرکزی کمیٹی کے صدراور ریاستی سکریٹری اندریش میکھوری نے دی وائر کو بتایا ، ‘یہ نفرت پھیلانے کی مہم ہے۔ اقتدار کی سرپرستی میں ریاست میں فرقہ وارانہ جنون پھیلایا جا رہا ہے۔ ایک نقلی ڈرپیدا کیا جا رہا ہے۔ تمام مسلمانوں کو روہنگیا کہا جا رہا ہے ، حکومت کو حقائق سامنے لانا چاہیے کہ روہنگیا کہاں ہیں اور انہوں نے کتنے روہنگیا پکڑے ہیں۔ ‘