اتر پردیش کے تمام 75 اضلاع میں راشن سسٹم میں شفافیت لانے کے مقصد سے کوٹہ کی دکانوں پر ای-پاش مشین لگاکرراشن دینے کا انتظام کیا گیا ہے، لیکن اس سے معاشی طور پر کمزور لوگوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔
‘جب سے آن لائن راشن کارڈ کا فارم بھرا جا رہا ہے تب سے تین-چاربار فارم بھر چکے ہیں لیکن ابھی تک راشن کارڈ نہیں بنا ہے۔ میرے تین بچے ہیں، شوہر نہیں ہیں، کسی طرح دکان لگاکر، اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہوں، اسی میں سے ان کو پڑھاتی-لکھاتی ہوں۔ راشن کارڈ بن جاتا تو کچھ راشن ملنے لگ جاتا، جس سے میرے گزر اوقات میں کچھ آرام ہو جاتا۔ ‘
یہ کہنا ہے وارانسی ضلع کے رانی بازار کی سویدالنسا کا۔ سویدا تقریباً 40 سال کی ہیں اور وہ کاسمیٹکس سامان کی دکان لگاتی ہیں۔ سویدا کے شوہر نہیں ہے۔ اپنے تین بچوں کے ساتھ وہ جیسےتیسے اپنا گزر-بسر کر رہی ہیں۔ راشن کارڈ نہیں ہونے کی وجہ سے ان کو کوٹہ سے راشن نہیں مل رہا ہے۔
سویدا بتاتی ہیں،’جب ای-پاش مشین سے راشن نہیں ملتا تھا تو مجھے بھی راشن ملتا تھا، لیکن جب سے یہ مشین والا سسٹم آیا ہے تب سے کوٹہ کا ایک داناملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔تقریباً چھ مہینے سے چکر لگا رہے ہیں لیکن راشن کارڈ بن ہی نہیں پا رہا ہے۔ ‘
واضح ہو کہ ریاست کے تمام 75 اضلاع کے دیہی علاقوں میں واقع کوٹہ کی دکانوں پر ای-پاش مشین لگانے کے لئے دو کمپنیوں سے معاہدہ ہوا ہے۔ معاہدہ کے مطابق 26 اضلاع میں آرمی اور او سی ایس ایجنسی کو ریاست کے 46 اضلاع میں مشین مہیا کروانے سے لےکر کارڈ ہولڈر کی تفصیل کوٹہ کی دکان کے حساب سے مشین میں فیڈ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے راشن تقسیم کا کام پوری طرح ای-پاش مشینوں سے کرنے کی ہدایت دی ہیں۔
راجاتالاب میں جوتے-چپلوں کی دکان پر کام کرنے والے جمال الدین شیخ کو بھی اسی طرح کی مشکل سے دو-چار ہونا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں،’سات مہینے پہلے تک ہمیں راشن ملتا تھا لیکن اس کے بعد پھر یہ کہا گیا کہ راشن کارڈ بدلا جا رہا ہے۔ ہم بھی دو-تین فارم کا فوٹوکاپی لاکرفارم بھرے۔ کئی بار پردھان کو دئے، پردھان بولے کہ کوٹےدار کو دو، جب کوٹےدار کو دئے تو وہ یہی بولا کہ ہم اپنی طرف سے بھیج دئے ہیں لیکن ابھی تک ہوا نہیں ہے۔ پھر یہ کہا گیا گیا کہ ابھی انتخاب ہو رہا ہے اس کے بعد ہوگا۔ ‘
جمال الدین بتاتے ہیں،’جب ہم تمام جگہ سے محنت کرکے تھک گئے تو جن شنوائی پورٹل پر شکایت کی، وہاں شکایت کرنے کے بعد میرا راشن کارڈ بن گیا ہے، میرے گھر کے تمام لوگوں کا نام بھی اس پر چڑھ گیا ہے لیکن اب تک راشن نہیں مل رہا ہے، ایسا کہا جا رہا ہے کہ تین مہینے کے بعد راشن ملےگا۔ ‘
کچنار گاؤں کے رہنے والے جمال الدین کی فیملی میں کل چھ ممبر ہیں، جس میں سے چار بچے پڑھائی کرتے ہیں۔ وہ اپنے گھر میں اکیلے کمانے والے ہیں۔وہ بتاتے ہیں،’ہم اپنے تمام بچوں کو پڑھا رہے رہے ہیں۔ اتنی مہنگائی کے زمانے میں ایک اکیلے انسان کے لئے کماکر بچوں کو پڑھانا اور ان کا پیٹ پالنا کتنا مشکل ہے۔ اگر راشن ملنے لگ جاتا تو کچھ مدد ہو جاتی۔ ‘
ایسا ہی کچھ کہنا ہے مال ڈھلائی کا کام کرنے والے چنداپور گاؤں کے عثمان کا۔ عثمان بتاتے ہیں،’میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سبھی پڑھائی کرتے ہیں۔ راشن کارڈ کے لئے کئی مہینے تک چکر لگاتا رہا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ جب ہم نے جن شنوائی پورٹل پر خودکشی کی دھمکی دی، تب ہمارا راشن کارڈ تو بن گیا ہے لیکن اب تک اس پر نہ فیملی کے تمام لوگوں کے نام چڑھے اور نہ ہی راشن مل رہا ہے۔ ‘
راشن تین مہینے بعد ہی کیوں ملےگا؟ سپلائی انسپکٹر شیام موہن بتاتے ہیں،’ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سب کچھ بایومیٹرک ہو گیا ہے، جب پبلک ڈومین سے جنریٹ ہوتا ہے اس کے بعد ہی راشن ملتا ہے۔ یہ پروسیس ہونے میں تقریباً تین مہینے کا وقت لگ جاتا ہے۔ ‘
راشن کارڈ کے بارے میں شیام موہن کا کہنا ہے، ‘جن لوگوں کا راشن کارڈ نہیں بنا ہے وہ سکریٹری سے تصدیق کروا لیں کہ وہ کون سے گاؤں کے اصل باشندہ ہیں۔ اس کے بعد فارم بھرکر جمع کر دیں۔ راشن کارڈ بن جائےگا۔ ‘
غور طلب ہے کہ ریاستی حکومت کے مطابق ریاست کے تمام 13.50 کروڑ سے زیادہ راشن کارڈ مستفید کو صحیح قیمت اور صحیح مقدار میں اناج تقسیم کرایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کمپیوٹرائزڈ کرکے پورے نظام کو شفاف بنایا گیا ہے۔
موجودہ وقت میں تقریباً اسی ہزار سے زیادہ ای-پاش مشینوں کے ذریعے ریاست بھر میں اناج کی تقسیم ہو رہی ہے۔ اس کے لئے دیہی علاقوں میں 68848 اور شہری علاقوں میں 11649 ای-پاش مشینیں لگائی گئی ہیں۔
وارانسی ضلع کے پرسوپور گاؤں میں ایک چھوٹی-سی جھونپڑی میں رہنے والے شیوناتھ تقریباً ساٹھ سال کے ہیں اور لوہا کا تار بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ تاریں کھڑکی میں لگنے والی جالی بنانے میں کام آتی ہیں۔ شیوناتھ بتاتے ہیں،’ گھر میں ہم کل پانچ لوگ ہیں، لیکن راشن صرف تین لوگوں کو ہی ملتا ہے۔ کتنی بار شکایت کئے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ‘
رندھے گلے سے وہ آگے بتاتے ہیں،’ہم پڑھے-لکھے لوگ نہیں ہیں کہ کسی سرکاری افسر کے یہاں چلے جائیں۔ پوری زندگی ایسے ہی راشن مل رہا تھا لیکن اب یہ پتہ نہیں کیسا مشین آیا ہے کہ ہمیں کم راشن ملنے لگا۔ ‘
ریاست میں راشن کی لگاتار ہو رہی چوری کو کم کرنے کے لئے حکومت نے ای-پاش مشین کے ذریعے لوگوں کو راشن تقسیم کرنے کا طریقہ اپنایا ہے، اس طریقے سے چوری بھلےہی کم ہو گئی ہو، لیکن غریب زیادہ پریشان ہونے لگے ہیں۔
اس نئے طریقے سے سے راشن ملنے سے مزدور زیادہ پریشان ہیں۔ منریگا میں کام کرنے والے کچھ مزدور ایسے ہیں جن کے انگوٹھےکا نشان ای-پاش مشین نہیں لے رہی ہے۔انل کمار مزدوری کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،’جب بھی راشن لینے جاتے ہیں کبھی یا تو انگوٹھا نہیں لیتا ہے، کبھی سرور کام نہیں کرتا ہے۔ کسی ایک کا انگوٹھا نہیں لیتا ہے تو گھر کے دوسرے لوگوں کو بلانا پڑتا ہے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا ہے کہ مشین گھر کے چھ ممبر میں سے کسی کے بھی انگوٹھا کا نشان نہیں لیتا ہے۔ حالانکہ حکومت نے ایسے میں آدھار کارڈ سے راشن دینے کا اصول بنایا ہے، لیکن اس میں بھی کئی بار ہمیں نہیں ملتا ہے۔
اس بارے میں پوچھنے پر سپلائی انسپکٹر شیام موہن بتاتے ہیں،’آدھار کارڈ سے راشن دینے کا اصول تو ہے لیکن ہمارے اوپر دباؤ ہوتا ہے کہ بنا ای-پاش مشین کے غلہ مت دیجئے۔ جب آدھار سے دیا جاتا ہے تو کوٹےدار چوری کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے کہا ہے کہ جو لوگ ہیں ان کو راشن ملنی چاہیے۔ ‘
راشن کارڈ کے بارے میں ضلع سپلائی افسر دیپک کمار واشنے بتاتے ہیں کہ، ‘سارا سسٹم آن لائن ہے۔ سب کچھ آن لائن دکھتا ہے۔ راشن دینے کے لئے ہمیں دو مہینے بیک کا مختص ملتا ہے۔ ہمیں جب تک مختص نہیں ملتا تب تک ہم راشن دینے لائق نہیں ہو پاتے ہیں۔ ‘
مزدوروں کو ای-پاش مشین میں انگوٹھا نہیں لینے سے ہو رہی دقت کے بارے میں دیپک کمار واشنے کہتے ہیں کہ، ‘ ایسے لوگوں کو ان کے آدھار نمبر کی بنیاد پر 23 سے 25 تاریخ کے درمیان راشن دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بھی کوٹےدار راشن دینے میں بہانے بازی کریں تو ان کو فوراً شکایت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی بھی ایسا شخص ہے جن کا انگوٹھا نہیں لگ رہا ہے تو ان کو بھی راشن ملےگا، اس کو راشن سے محروم نہیں کیا جائےگا۔ ‘
(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں۔)