شدید گرمی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ مزدوروں کاہے۔ ایسے میں یوپی کے اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے مہاجر مزدور (فائر مین) لکڑی کی بوسیدہ چپلوں، لیموں، نمک اور چینی کے سہارے جھلسا دینے والی گرمی میں انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے کو مجبور ہیں۔
اتر پردیش کے چندولی میں دگہی کا ایک اینٹ بھٹہ اور اس میں کام کرنے والے مزدور۔ (تمام تصاویر: تنمے بھادری)
مغل سرائے : اتر پردیش کے چندولی ضلع میں صبح کے 11 بجے ہیں اور درجہ حرارت تقریباً 45 ڈگری سیلسیس ہے۔ مستری ارجن کا دن ابھی شروع ہی ہوا ہے۔
پینتالیس سالہ ارجن، پرتاپ گڑھ کے لکشمن پور گاؤں میں اپنے گھر سے تقریباً 250 کلومیٹر دور ایک اینٹ بھٹے پر فائر مین ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو اپنے مندروں اور کَرَونْدَو کے لیے جانا جاتا ہے اور ساتھ ہی ملک بھر میں بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور فائر مین کا مرکز ہے۔ ہر سال جنوری اور جون کے درمیان اینٹ بنانے کے’ سیزن’ میں یہاں سے مزدور ملک بھر کے بھٹوں پر کام کرنے جاتے ہیں۔
مستری بھی بہت سے دوسرے مزدوروں کی طرح، چار ماہ (مارچ-جون) کے لیے ہجرت کرتے ہیں اور پرتاپ گڑھ میں اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ کر باہر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناقص آبپاشی کی وجہ سے کھیتوں میں کام کرنے کے مواقع بھی کم ہو گئے ہیں۔
اینٹ بھٹوں پر کام کرنا ان کا ذریعہ معاش ہے۔ لیکن جب ہندوستان کا بڑا حصہ شدید گرمی کی زد میں ہے اور نئی دہلی میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ کے ریکارڈ کوپار کر گیا ہے، اس وقت بھٹے پر فائر مین مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔
مستری نے کہا، ‘درجہ حرارت میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مجھے اس چلچلاتی گرمی میں ہمیشہ بیمار پڑنے کی فکر ستاتی ہے۔ میں زیادہ تھکا ہوا محسوس کرتا ہوں اور ٹھنڈک پانے کے لیے بار بار پانی پیتا ہوں۔’
مستری نے بتایا، ‘ہمارے پاس گاؤں میں کھیتی کی زمین نہیں ہے۔ ہم دوسرے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے تقریباً چار ماہ اینٹ بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔’
مستری (فائر مین) بھٹے میں کوئلہ ڈالتے ہیں، پکی ہوئی اینٹ بہتر معیار کی ہو، اس میں بھٹے کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مستری کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ان کے برسوں کے تجربے سے اینٹ کی صحیح پکائی کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے – ایک اچھے معیار کی اینٹ کی پہچان یہ ہے کہ وہ آسانی سے نہیں ٹوٹتی۔
لیکن اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے چار فائر مین کو دو—دو کے جوڑے میں چوبیس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر جوڑا چھ سے آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے اور پھر اس دوران وقفہ بھی لیتا ہے تاکہ بھٹے پر کام جاری رہ سکے۔
وہ دستانے یا ماسک نہیں پہنتے، لیکن بھٹے کی چھت اور آگ کے شعلوں کی گرمی سے بچانے کے لیے ان کے مالکان انہیں لکڑی کی چپل دیتے ہیں۔ تاہم، جیسا کہ فائر مین نے کہا کہ یہ چپل تیزی سے خراب ہو جاتی ہیں اور گرمی میں ان کے پاؤں جل جاتے ہیں۔ بھٹے میں کوئلہ ڈالنے سے اٹھنے والے شعلے ان کے کالک سے شرابور پاجامہ کو بھی جلا دیتے ہیں۔
چند سال پہلے تک فائرمین کو مالکان سے ہر ہفتے راشن کے طور پر گڑ ملتا تھا، جس کے بارے میں اینٹ بھٹہ مزدوروں کا ماننا ہے کہ گڑ کھانے سے انہیں راحت ملتی ہے۔
مستری نے کہا، ‘گڑ کھانے سے انہیں بدن میں پانی کی کمی کم محسوس ہوتی ہے اور جسم کا درجہ حرارت ٹھیک رہتا ہے۔ تاہم، اب ہمیں اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے لیموں، نمک اور چینی خریدنے کے لیے ہر ہفتے 50 روپے ملتے ہیں۔’
کئی فائر مین ایسے ہیں جن کے پاس زمین نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ بھٹہ پر کام کرنے کا مطلب ہے بغیر کسی سایہ کے لمبے وقت تک دھوپ میں کام کرنا۔ لیکن ان کے پاس روزگار کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
مستری نے کہا، ‘اینٹ بھٹہ مالکان کے ایجنٹ ہمارے گاؤں میں آنے لگے تھے اور پیشگی دینے کے لیے تیار تھے، اس لیے ہم نے بھٹوں پر جانے کا فیصلہ کیا۔’
ہندوستان میں اینٹ بھٹے کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں اینٹ کے 10 لاکھ بھٹے کام کر رہے ہیں، جن میں سے 20 ہزار صرف اتر پردیش میں ہیں، اس کے بعد پنجاب، مغربی بنگال اور بہار میں ہیں۔ دنیا بھر میں اینٹ کی پیداوار میں چین کے بعد ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔
دیہی ہندوستان میں اینٹ بھٹے کی صنعت زراعت کے بعد موسمی مہاجر مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے والی دوسری سب سے بڑی صنعت ہے۔
تاہم کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والی آلودگی کی وجہ سے انڈسٹری کو بھی مسائل درپیش ہیں۔ پچھلے سال صرف اتر پردیش میں تقریباً 20 ہزار اینٹ بھٹوں میں سے تقریباً 8 ہزار کو ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ نے کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
پرتاپ گڑھ کے گاؤں سرائے لاہرکئی گاؤں کے فائر مین چندریکا پرساد یادو نے کہا کہ ہاتھ سے پتھائی اور ڈیزل سے چلنے والے ایئر کنٹرول کے بجائے پتھائی کی مشین اور ایئر بلورز جیسے نظام متعارف کرائے گئے ہیں۔ لیکن وہ مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور مزدوری کے اخراجات کو کم نہیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگرچہ کوئلے کے بجائے دیگر مواد استعمال کیا جائے تب بھی انہیں مناسب طریقے سے جلانے کے لیے فائر مین کی ضرورت ہوگی، کیونکہ اس کے لیے صحیح علم اور تجربہ ہونا ضروری ہے۔’
پرتاپ گڑھ کے سرائے لاہرکئی گاؤں کے چندریکا پرساد یادو پچھلے 40 سالوں سے اینٹ بھٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے بھی بھٹے پر کام کریں۔ اگر انہیں اچھی تنخواہ ملے تو وہ بھی کھیتی باڑی کرنا پسند کریں گے۔
فائر مین ہر ماہ 16000 روپے کماتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایجنٹوں کے ذریعے مالک سے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لیتے ہیں اور باقی رقم ہر ماہ۔
ساٹھ سالہ فائر مین یادو، جو پچھلے 40 سالوں سے اینٹ بھٹوں پر کام کر رہے ہیں، نے کہا، ‘میں بھٹے پر کام کر کے 15000 روپے (روزانہ 500 روپے سے زیادہ) کما سکتا ہوں۔ سال کے بقیہ مہینوں میں، میں روزانہ 300 روپے کمانے والے دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتا ہوں۔’
اینٹ بھٹہ مالکان نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ یہ شعبہ گرین بنے۔ لیکن وہ اس کے لیے ضروری مدد کا بندوبست نہیں کر رہی ہے۔
اتر پردیش اینٹ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے چیئرمین رتن سریواستو نے کہا، ‘ہم ایک غیر منظم شعبہ ہیں۔ ٹکنالوجی کو بڑھانے کے لیے ہمیں بینک سے قرض کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فائر مین کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم توانائی کی بچت کی صنعت کی طرف بڑھ سکیں۔’
مزدور بھٹے کے قریب ہی رہتے ہیں۔ وہ دوپہر کے کھانے کے لیےصبح ہی روٹی اور سبزی بناتے ہیں اور کبھی کبھی چاول بھی۔ لیکن وہ جسم میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے چائے اور پانی پیتے رہتے ہیں۔
لیکن ٹھنڈک برقرار رکھنا ہی کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ بھٹے پر اکثر پانی کی فراہمی محدود ہوتی ہے یا یہ بھٹے سے کچھ فاصلے پر ہوتا ہے۔ کچھ بھٹوں نے احاطے میں گہرے ٹیوب ویل لگائے ہیں، لیکن زیادہ تر جگہوں پر مزدوروں کو پینے کے پانی کے نل کے حصول یا پانی کے کھلے منبع میں نہانے کے لیے پیدل لمبی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔
پچاس سالہ اشوک کمار نے کہا، ‘اینٹ بھٹوں پر کام کرنے والے تقریباً 285 مزدور ایک نل پر انحصار کرتے ہیں۔’
زیادہ تر مزدور نہیں چاہتے کہ ان کے بچے یہ کام کریں۔ یادو کہتے ہیں، ‘میرا بڑا بیٹا کنسٹرکشن کا کام کرتا ہے جو میرے کام سے کم تھکا دینے والا ہے اور اس کے کام کی مانگ ہمیشہ رہتی ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بہتر آبپاشی سے ان کے گاؤں کے کھیتوں میں جان آجائے تو وہ ہجرت نہیں کریں گے۔
اس شعبے پر روز بروز بڑھتی ہوئی موسمی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے خدشات بھی ہیں۔
اینٹ بھٹہ مالک وریندر کمار سنگھ نے بتایا کہ پہلے اینٹ بھٹوں پر کام نومبر یا دسمبر میں شروع ہوتا تھا اور جون کے وسط تک جاری رہتا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘اب ہم جنوری فروری میں کام شروع کرتے ہیں اور جون کے وسط تک کام ختم کر دیتے ہیں۔ گزشتہ سال خشک کرنے کے لیے رکھی گئی تقریباً 9 لاکھ اینٹیں اچانک ہوئی بارش سے خراب ہو گئیں اور اس سال بھی جنوری میں ہونے والی بارش کی وجہ سے ہمارا کام میں تاخیر ہوئی۔’
لیکن فائر مین مستری کا خیال ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی گرمی اور اینٹ بھٹہ کے شعبے میں حفظان صحت کے طریقہ کار میں ہونے والی تبدیلیوں، دونوں ہی حالات میں کام کر لیں گے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمیں (فائر مین) ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اور ہمارے کام کے لیے تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے خاندان کے تمام افراد اس شعبے میں ہنر مند نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارا کام انتہائی ہنر مندی والا ہے، ہمارے بغیر بھٹیوں میں آگ نہیں جل سکتی’۔
(تنمے بھادری دہلی میں مقیم ڈیولپمنٹ کمیونی کیشن کے ماہر ہیں۔)
( بہ شکریہ: انڈیا اسپینڈ ہندی )
(یہ رپورٹ بنیادی طور پر انگریزی میں دی مائگرینٹ اسٹوری پر شائع ہوئی ہے اور یہ ‘بنیاد’ کے تعاون سے مجوزہ تین رپورٹ کی سیریز کا پہلا حصہ ہے۔ ‘بنیاد’ اینٹ بھٹہ کے شعبے میں منصفانہ تکنیکی منتقلی کے لیے کام کرتا ہے، جس کا مقصد اتر پردیش کی اینٹ بھٹہ صنعت میں مساوی تبدیلی سے متعلق سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی کہانیوں کو سامنے لانا ہے۔)