گراؤنڈ رپورٹ: اتر پردیش میں گوتم بدھ نگر ضلع کے دادری واقع گوتم پوری علاقے کی ایک گلی کا نام پاکستانی والی گلی ہونے کی وجہ سے یہاں رہ رہے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوگوں کو کہنا ہے کہ اس نام کی وجہ سے ان کو جلدی کہیں کام نہیں ملتا اور اسکول بچوں کو داخلہ دینے میں بھی بہانے بازی کرتے ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستان اور پاکستان کے بیچ اس وقت کشیدگی کا جو ماحول ہے، اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر ہندوستان کے ہی اندر ایک بستی کو ‘پاکستانی والی گلی’کے نام سے بلایا جائے تو وہاں رہنے والے لوگوں کے لئے کس طرح کی مشکلیں آ رہی ہوںگی، اس کا تصور کا جا سکتاہے۔ہم بات کر رہے ہیں دہلی سے متصل اتر پردیش کی دادری قصبے کے گوتم پوری بستی کی۔ دادری گوتم بدھ نگر ضلع میں آتا ہے۔ گوتم پوری کے اندر ایک محلے کو ‘پاکستانی والی گلی’کے نام سے بلایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے ان کو طرح-طرح کی دقتیں آ رہی ہیں۔
اس کا جائزہ لینے کے لئے دی وائر کی ٹیم نے یہاں کا دورہ کیا۔ حالانکہ دہلی سے دادری کا راستہ محض 50 کلومیٹر کا ہے لیکن بس میں تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر پورا کرنے کے بعد ہی ہم دادری پہنچ پائے۔دادری ریلوے اسٹیشن کے پاس بس سے اترنے کے بعد وہاں سے گوتم پوری تک پہنچنے کا راستہ بھی آسان نہیں تھا۔ ذرا سی بارش سے سڑکیں پوری طرح سے تالاب کی صورت لے چکی تھیں۔ پانی سے بھری سڑک پر گاڑی چلانا بھی دوبھر تھا۔ جگہ جگہ کیچڑ۔ بارش اور سیور کا پانی سڑکوں پر بہہ رہا تھا۔
جب ہم ‘پاکستانی والی گلی’ کو تلاش کرتے ہوئے کئی تنگ گلیوں سے گزر رہے تھے، تب پانی کا بہاؤ کم ہو رہا تھا۔ گلیاں اتنی تنگ تھیں کہ کوئی بھی اپنے دونوں ہاتھ پھیلاکر دونوں طرف کی دیواریں چھو سکتا ہے۔ کہیں کہیں تو گلی کی چوڑائی اس سے بھی کم ہے۔سائیکل یا موٹرسائیکل کے علاوہ کسی چار پہیہ گاڑی کا ان گلیوں میں داخل ہونا مشکل ہے۔ گلیوں کے دونوں بغل سے کھلی نالیاں بہہ رہی تھیں۔ کچھ مکان تو اتنے نیچے تھے کہ بارش کا پانی اور نالی کا پانی گھروں میں گھسا ہوا تھا۔
کئی گلیوں کے چکر کاٹنے کے بعد جب ہم ‘پاکستانی والی گلی’میں پہنچے تو وہاں کھڑے لوگوں نے ایک بجلی کے پول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا کہ وہی’واگھا بارڈر’ہے۔ پول سے دائیں جانب مڑنے پر ایک چھوٹی سی بند گلی تھی۔
وہاں سب سے پہلے ہماری ملاقات جئےسنگھ (55) سے ہوتی ہے جن کو ‘پاکستانی والی گلی’کا ترجمان کہنا غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں ان کے والد دوجی رام، ماں کوشلیا، اور دوسے رشتہ دارراجستھان سے متصل پاکستان کی کسی جگہ سے یہاں آئے تھے۔جئےسنگھ کا تعلق دلت کمیونٹی کی جاٹو ذات سے ہے اور ان کی گلی کے چاروں طرف رہنے والے دوسرے لوگوں میں بھی زیادہ تر دلت (جاٹو) کمیونٹی کے ہی ہیں۔ جئےسنگھ کی دو فیملی کی اب آٹھ فیملی ہو گئی۔
اس گلی کے ٹھیک بغل میں رہنے والے وکیل اور بہوجن سماج پارٹی کے نگر صدر راج کمار گوتم نے ہمیں تھوڑی تفصیل سے بتایا۔انہوں نے بتایا،’ان کے آباواجداد ملک-تقسیم کے وقت سب سے پہلے دادری سے تقریباً 15 کلومیٹر دور واقع جارچا گاؤں میں آکر بس گئے تھے۔ وہاں روزی-مزدوری کرتے ہوئے کچھ پیسہ اکٹھا کرنے کے بعد انہوں نے دادری کے گوتم پوری میں پلاٹ لےکر گھر بنائے اور یہیں رہنے لگ گئے۔ ‘جئےسنگھ اور ان کے بیٹے اور بھائی-بھتیجے جس گلی میں رہتے ہیں، اس کو کافی پہلے سے ‘پاکستانی والی گلی ‘کے نام سے بلایا جاتا رہا۔ لیکن اس سے ان کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، ایسا جئےسنگھ کا کہنا ہے۔
لیکن جب سے آدھار کارڈ میں ان کی بستی کا نام ‘پاکستانی والی گلی’ درج ہونا شروع ہوا، تبھی سے پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔جئےسنگھ کہتے ہیں،’کہیں کام کے لئے جانے سے آدھار کارڈ میں پتہ دیکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ تم تو پاکستانی ہو۔ تم کو کام پر نہیں رکھیںگے۔ اسکول میں بچوں کے داخلہ کے دوران بھی پریشانیاں آ رہی ہیں۔ ‘اس بستی میں غریبی اور پسماندگی کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ تقریباً سبھی لوگ مزدوری کرنے والے ہی ہیں۔ تعلیم کی سطح بھی بہت کم ہے۔ بستی کے ایک نوجوان جتیندر کمار نے بتایا، ‘ سبھی مزدوری کرکے ہی پیٹ پالتے ہیں۔ اکا-دکّا خواتین باہر چوکا-برتن کرنے جاتی ہیں۔ ‘
جب سے آدھار کارڈ بننا شروع ہوا، تبھی سے اس پر ‘پاکستانی والی گلی’لکھا جانا شروع ہوا۔ لیکن کبھی کسی نے اس کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ وہاں کھڑے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘ پاکستانی والی گلی’ کو لےکر شور-شرابا پچھلے ایک-دو ہفتوں سے ہی زیادہ ہو رہا ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے پوچھنے پر نام نہ چھاپنے کی شرط پر ایک آدمی نے بتایا کہ یہ سب بجرنگ دل والوں کی تشہیر کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا،’8سے10 دن پہلے محلے کا ایک لڑکا کام پر گیا تھا۔ تب بجرنگ دل کے کچھ ممبروں نے اس کے آدھار کارڈ میں’پاکستانی والی گلی’لکھا ہوا دیکھ لیا تھا۔ اس بات کو سوشل میڈیا میں پھیلا دیا گیا۔ ‘
حالانکہ اس آدمی نے اس لڑکے کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔
آخر آدھار کارڈ میں’پاکستانی والی گلی’درج کیسے ہوا؟ آدھار سینٹر چلانے والے ملازمین کی غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا یا پھر لوگوں نے خودہی اپنا پتہ’ پاکستانی والی گلی’کے طور پر درج کرایا ہوگا؟ اس کے جواب میں جئےسنگھ کہتے ہیں کہ بستی کے لوگوں نے ہی ایسا بتایا ہوگا۔اس بات پر بعد میں دادری میونسپلٹی کے ایگزیکٹوافسر سمیر کمار کشیپ نے بتایا کہ آدھار کارڈ میں نام درج کرنے کا ٹھیکہ نجی اداروں کو دیا جاتا ہے۔
کشیپ نے کہا،’لوگ اپنا پتہ جو بھی بتائیںگے وہی درج کیا جاتا ہے۔ لینڈمارک کے طور پر بستی کے لوگوں نے خودہی ایسا بتایا ہوگا تبھی تو اس طرح درج ہوا ہوگا۔ حالانکہ ہمارے میونسپلٹی کے دستاویزوں میں تو کہیں بھی اس نام کی گلی کا ذکر نہیں ہے۔ ہم نے گوتم پوری بستی کے اندر الگ الگ گلیوں کو نمبر دے رکھا ہے۔ ‘
ہم نے مبینہ’پاکستانی والی گلی’کے گھروں کی چوکھٹ پر ٹنگے میونسپلٹی کی تختیوں کو بھی دیکھا۔ ان پر مکان نمبر، وارڈ نمبر، پانچ نمبرات والی یو آئی ڈی نمبر درج ہے اور گوتم پوری محلہ لکھا ہوا ہے۔ لیکن’پاکستانی والی گلی’ کا ذکر اس میں نہیں ہے۔
جئےسنگھ سمیت کئی دیگر لوگوں نے بھی تصدیق کی کہ غیر رسمی طریقے سے ان کے محلے کو ‘ پاکستانی والی گلی’کے نام سے بلانے پر ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب آدھار کارڈ پر درج ہونے پر ان کو کئی دقتیں ہو رہی ہیں اور اب لوگ اس کو بدلوانا چاہتے ہیں۔ ‘اسی گلی میں رہنے والی ہرویر دیوی(55)، بتاتی ہیں،’ہمیں تو اس کو لےکر کوئی پریشانی نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن جب بچوں کا ایڈمیشن کرانے اسکول میں جاتے ہیں تو آدھار کارڈ میں’ پاکستانی والی گلی’دیکھکر لوگ چونک جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو دہشت گرد ہوںگے۔ ‘
دی وائر سے بات کرنے والی دو اسکولی طالبات ڈالی(10ویں کلاس)اور سونم (8ویں کلاس) نے بھی یہی بات کہی۔ ان کو اس گلی کے نام سے اسکول میں چڑھایا جاتا ہے۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ ان کی گلی کو اس نام سے نہ بلایا جائے۔وہیں پر رہنے والی 58 سالہ جئےپالی دیوی نے کہا ہے، ‘اگر کہیں رشتہ جوڑنے جاتے ہیں تب بھی پاکستانی والی گلی کا نام سنتے ہی منع کر دیتے ہیں۔ ‘
اس محلے میں ہمیں آدھار کارڈ میں درج پتوں میں کئی اور غیرمطابقت دکھیں۔ جیسا کہ ایک فیملی میں سب کے آدھار کارڈ میں الگ الگ پتہ درج ہے۔ مثال کے طور پر دیپک کمار (35) کے آدھار کارڈ میں’ چماران ‘ لکھا ہے، بیوی کے کارڈ میں’پاکستانی محلہ’ لکھا ہے اور ان کے دو بیٹوں کے کارڈ میں صرف گوتم پوری لکھا ہوا ہے۔
اپنی بستی کو ‘چمارن ‘ لکھے جانے پر راج کمار گوتم نے بھی خاصی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سراسر قوم پرستی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ گوتم پوری کا جو اہم حصہ ہے اس میں دلت ہی زیادہ ہیں۔ اس سے سٹے ہوئے چار اور محلے ہیں۔ ایک برہم پوری ہے جس میں زیادہ تر برہمن ہیں۔ ایک مسلمانوں کا محلہ اور راجپوتوں کا محلہ بھی ہے۔ محلوں کو ذات پر مبنی نام دینا بالکل غلط ہے۔ ‘
‘ پاکستانی والی گلی’کہے جانے پر ان کو کتنی پریشانی ہو رہی ہے، یہ پوچھے جانے پر راج کمار گوتم نے کہا، ‘دقت 10 فیصد ہوگا تو اس کی تشہیر 90 فیصد ہے۔ میں 20 سالوں سے اس بستی میں رہ رہا ہوں۔ یہیں سے پڑھا ہوں۔ مجھے کبھی کوئی دقت نہیں ہوئی۔ بس بستی کا یہ نام سننے میں تھوڑا عجیب لگتا ہے۔ ‘
اس پر میونسپلٹی کے افسر سمیر کمار کشیپ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بڑا مدعا نہیں ہے۔کشیپ نے کہا، ‘میڈیا نے ہی اس کو اچھالا ہے۔ یہ تو بول چال کی زبان میں سالوں سے چلا آ رہا ہے، اب تک کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ لوگ کسی کو صحیح لوکیشن بتانے کے لئے پاکستانی والی گلی کے نام سے ہی اس محلے کو جانتے ہیں۔ ‘
انہوں نے بتایا،’یہ معاملہ ان کے علم میں آیا ہے اور انہوں نے آدھار کارڈ بنانے والے سینٹر سے بھی بات کی ہے۔ نام بدلنے کے لئے ان کو (کارڈ ہولڈر کو) خود آدھارسینٹر میں جاکردرخواست دینا ہوگا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ‘وہیں راج کمار گوتم کا اس پر کہنا ہے کہ آدھارکے افسروں کو ایک خصوصی کیمپ چلانا چاہیے۔ سبھی کے کارڈ میں سے ‘پاکستانی والی گلی’کو ہٹا دینا چاہیے۔ یہی اس مسئلہ کا صحیح حل ہوگا۔