اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام منعقد ریویو آفیسر (آر او) اور اسسٹنٹ ریویو آفیسر (اے آر او) کے امتحانات میں 10 لاکھ سے زیادہ امیدواروں نے شرکت کی تھی، جسے اب رد کردیا گیا ہے۔ وہیں، حال ہی میں 12 ویں بورڈ کے امتحان کے دو مضامین کے پرچے امتحان کے دوران وہاٹس ایپ گروپ میں شیئر کیے گئے تھے۔
نئی دہلی: اترپردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سرکار میں مبینہ پیپر لیک اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے امتحانات کی منسوخی کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست بھر میں پیپر لیک اور دیگر بے ضابطگیوں کی وسیع پیمانے پر شکایات کے بعد ریاستی حکومت کی جانب سے پولیس کانسٹبل بھرتی کے امتحان کو منسوخ کرنے کے ایک ہفتہ بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک بار پھر سے احتجاج کرنے والے امیدواروں کے دباؤ میں آگئے اور ریویو آفیس (آر او) اور اسسٹنٹ ریویو آفیسر (اے آر او) کی بھرتی کے لیے ابتدائی امتحان منسوخ کر دیا گیا ہے۔
آر او اور اے آر او کی 411 آسامیوں کے لیے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام 11 فروری کو امتحان منعقد کیا گیا تھا۔
صرف سرکاری ملازمتوں کے لیے بھرتی کے امتحانات میں ہی نہیں ، بلکہ اب ریاست میں ہونے والے بورڈ امتحانات میں بھی پیپر لیک کے الزامات لگ رہے ہیں۔ آگرہ میں پولیس نے 29 فروری کو ہونے والے اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے امتحان کے حیاتیات اور ریاضی کے پیپر لیک کرنے کے الزام میں ایک انٹر کالج کے پرنسپل سمیت تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
گزشتہ 24 فروری کو کئی شہروں میں امیدواروں کے زبردست احتجاج کے بعد حکومت نے پولیس کانسٹبل کی بھرتی کے امتحان کو منسوخ کر دیا، لیکن اسی طرح کے الزامات کے باوجود آر او اور اے آر او امتحانات میں صرف جانچ شروع کی۔آر او اور اے آر او امیدواروں نے احتجاج جاری رکھا اور 2 مارچ 2024 کو وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا کہ 11 فروری کا امتحان رد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے یو پی پی ایس سی کو چھ ماہ کے اندر دوبارہ امتحان منعقد کرنے کی ہدایت دی۔
آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘امتحان کے تقدس سے کھیلنے والوں کو کسی بھی صورت میں بخشا نہیں جائے گا۔ مجرموں کو ایسی سزا دی جائے گی جو ایک مثال قائم کرے گی۔’
لاکھوں کا سوال
آر او اور اے آر آو امتحان کے لیے 10 لاکھ سے زیادہ امیدواروں حاضر ہوئے تھے، جبکہ 48 لاکھ سے زیادہ امیدوار صرف 67000 پولیس کانسٹبل کی نوکریوں کے لیے مقابلہ کر رہے تھے۔
ان امتحانات میں پیپر لیک اور بدعنوانی کے الزامات نے اپوزیشن جماعتوں کو آزادانہ اور منصفانہ امتحانات کرانے اور بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے عمل کو یقینی بنانے میں بی جے پی حکومت کی ناکامی کے ریکارڈ پر سوال اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ بے روزگاری سب سے بڑے مسائل میں سے ایک کے طور پر ابھری ہے جسے اپوزیشن پارٹیاں (سماج وادی پارٹی اور کانگریس) حکومت کے ترقیاتی دعووں کو ناکام بتانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
تاہم، بورڈ کے امتحانات میں مبینہ پیپر لیک نے ریاست میں امتحانات کی منصفانہ کارکردگی پر سنگین سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
آگرہ کے فتح پور سیکری پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق، 29 فروری کو سہ پہر تقریباً 3.11 بجے جب بورڈ کے امتحانات چل رہے تھے،تب ریاضی اور حیاتیات کے پیپر کی تصویریں فتح پور سیکری کےاتر سنگھ انٹر کالج کے کمپیوٹر آپریٹر ونے چودھری سے جڑے ایک فون کے ذریعے ‘آل پرنسپلز آگرہ’ نامی ایک وہاٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی تھیں۔
پولیس شکایت میں ڈسٹرکٹ اسکول انسپکٹر دنیش کمار نے چار معلوم افراد – چودھری، ان کے والد راجندر سنگھ (اتر سنگھ انٹر کالج کے پرنسپل)، گمبھیر سنگھ (جی ایس کے انٹر کالج میں اضافی سینٹر ایڈمنسٹریٹر) اور گجیندر سنگھ (اسٹیٹک مجسٹریٹ اور ویٹرنری آفیسر) پکو یپر لیک کے لیے ملزم بنایا ہے۔
پولیس نے ملزم کے خلاف یوپی پبلک ایگزامینیشن (پریوینشن آف ان فیئر مینس ) ایکٹ 1998 کی دفعہ 3 اور 4 اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 72 لگائی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ چودھری، راجندر سنگھ اور گمبھیر سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم، یوپی سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے امتحان کے دن واضح کیا تھا کہ مبینہ طور پر پیپر لیک ایک طالبعلم کو نقل کرنے میں مدد کرنے کے لیے چودھری نامی شخص کے ذریعے کیا گیا بدعنوان فعل تھا۔
یوپی سیکنڈری ایجوکیشن کونسل کے سکریٹری دیویہ کانت شکلا نے دعویٰ کیا کہ اس سے امتحان متاثر نہیں ہوا ہے۔
اہلکار نے دلیل دی کہ امتحان دوپہر 2 بجے سے شام 5:15 بجے تک ہونا تھا لیکن پیپر تقریباً 3:10 بجے ایک ویاٹس ایپ گروپ پر لیک ہو گیا۔ شکلا نے کہا، اس وقت تک امتحان ایک گھنٹے سے زیادہ ہو چکا تھا۔
خودکشی کی وجہ سے دو کی موت
پیپر لیک کا سلسلہ اور عام امتحانی نظام الاوقات میں خلل ان لاکھوں امیدواروں کے لیے تناؤ کا ایک بڑا سبب رہا ہے جو سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
فیروز آباد میں ایک 22 سالہ خاتون نے پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔ 2 مارچ کو پولیس نے کہا کہ اس کی طرف سے چھوڑے گئے ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ نوکری نہ ملنے اور حالیہ پیپر لیک سے مایوس تھی۔ گزشتہ ہفتے، قنوج میں ایک 24 سالہ نوجوان کی اسی طرح کے حالات میں موت ہو گئی تھی کیونکہ وہ پولیس کانسٹبل کی بھرتی کے امتحان سمیت کئی امتحانات میں شرکت کرنے کے باوجود نوکری نہ ملنے سے مایوس تھا۔
دریں اثنا، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ آر او اور اے آر او امتحانات کی منسوخی سے پتہ چلتا ہے کہ ‘بی جے پی پہلے اپنی بداعمالیوں کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن جب عوامی دباؤ ہوتا ہے تو وہ انتخابی شکست کے خوف سے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔’
یادو نے ایکس پر کیا،’یہ نوجوانوں کی جیت ہے اور آنے والے انتخابات میں بی جے پی کی شکست کا ایک اور یقینی پیغام ہے۔ بی جے پی کی ہار کا پیپر لیک ہو گیا ہے۔’بھاجپا ہٹاؤ، نوکری پاؤ۔’
کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا نے بھی سوشل میڈیا سائٹ پر پوچھا کہ یوپی میں نوکریوں سے لے کر بورڈ کے امتحانات تک پیپر کیوں لیک ہو رہا ہے۔ واڈرا نے کہا، ‘اگزام مافیا اور حکومت میں بیٹھے بدعنوان لوگوں کو بچانے کے لیے بی جے پی کروڑوں بچوں اور نوجوانوں کی بنیاد کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔’
جہاں پولیس آگرہ میں بورڈ امتحانات کے پیپر لیک اور آر او اور اے آر او امتحانات کی تحقیقات کر رہی ہے، وہیں یہ ابھی بھی ان لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 17 اور 18 فروری کو پولیس کانسٹبل کی بھرتی کے امتحان کا پیپر لیک کیا تھا۔
غازی آباد میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے امتحان میں کسی کو نقل کرنے میں مدد کرنے کی کوشش کرنےکے الزام میں یوپی اسپیشل ٹاسک فورس نےایک ملزم کپل تومر کو گرفتار کیا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)