اتر پردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں مقابلہ جاتی امتحانات کے پیپر لیک نہ ہوئے ہوں۔ اس کی شروعات 2017 میں یوپی پولیس کانسٹبل اگزام کے پیپر لیک سے ہوئی تھی، جس میں 1.20 لاکھ درخواست دہندگان نے شرکت کی تھی۔
فروری 2024 میں الہ آباد میں پبلک سروس کمیشن کے سامنے طالبعلموں کا مظاہرہ۔ (بہ شکریہ: ایکس)
گورکھپور: بے روزگاری، سرکاری عہدوں پر بحالی نہ ہونا اور مسابقتی امتحانات میں دھاندلی لوک سبھا انتخابات کے دوران کئی ریاستوں میں اہم ایشو بن گئے ہیں۔ اس ایشو پر نوجوانوں میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے خلاف عدم اطمینان دیکھا جا رہا ہے اور وہ اپنے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
مسابقتی اور بھرتی امتحانات کے پیپر لیک کا ایشو اس قدر اہم ہو گیا ہے کہ بی جے پی کو انتخابات سے عین قبل پارلیامنٹ میں دی پبلک ایگزامینیشن (پریوینشن آف ان فیئر مینس) بل 2024 پاس کرنا پڑا اور اپنے منشور میں کہنا پڑا کہ سرکاری امتحانات کو صاف اور شفاف بنایا جائے گا۔
ان دنوں دی وائر کے صحافی سرکاری بھرتیوں میں گھوٹالے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ پچھلی قسط میں ہم نے
گجرات کے بارے میں رپورٹ کیا تھا ۔ یہ قسط اتر پردیش پر مرکوز ہے ۔
اتر پردیش میں سرکاری بھرتیوں میں شدید بے ضابطگیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے اعلان سے ٹھیک پہلے، فروری میں ایک ہفتے کے اندر اتر پردیش میں دو بڑے امتحانات، اتر پردیش کانسٹبل بھرتی امتحان اور ریویو آفیسر/اسسٹنٹ ریویو آفیسر (آر او /اے آر او) کا پیپر لیک ہو گیا تھا۔ سپاہی بھرتی کے اگزام میں 60 ہزار آسامیوں کے لیے 48 لاکھ نوجوانوں نے امتحان میں شرکت کی تھی۔ دونوں امتحانات کے پیپر لیک ہونے سے نوجوان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے لکھنؤ اور الہ آباد سمیت کئی مقامات پر زبردست مظاہرہ کیا۔ بالآخر یوگی حکومت کو امتحان ملتوی کرنا پڑا۔ دونوں امتحانات چھ ماہ بعد دوبارہ کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
عین انتخابات کے دوران اس واقعہ کے بعد 14 مارچ کو مجوزہ یوپی پی سی ایس اگزام کرانے کی ہمت سرکار کو نہیں ہوئی اور اسے بعد میں کرانے کو کہا گیا۔ آر او /اے آر او اور سپاہی بھرتی امتحان کا پیپر لیک ہونے پر اپوزیشن کو حکومت پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور اس نے یوگی حکومت پر زوردار حملے کیے۔ آج جب لوک سبھا انتخابات کے چھ مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور انتخابات کا آخری مرحلہ ایک جون کو ہونا ہے، پیپر لیک کا ایشو اپوزیشن جماعتوں کی انتخابی مہم میں نمایاں طور پر چھایا ہوا ہے۔
پیپر لیک کی سیاہ تاریخ
اتر پردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا جس میں مقابلہ جاتی امتحان کے پرچے لیک نہ ہوئے ہوں۔ اس کی شروعات 2017 میں یوپی کانسٹبل اگزام کے پیپر کے لیک سے ہوئی۔ اس امتحان میں 1.20 لاکھ درخواست دہندگان نے شرکت کی تھی۔ پیپر لیک ہونے کے بعد امتحان رد کر دیا گیا۔
جولائی 2018 میں سب آر ڈینیٹ سروس سلیکشن کمیشن (یوپی ایس ایس ایس سی) کے 14 محکموں میں لوور سب آرڈینیٹ اگزام کا پرچہ لیک ہوگیا تھا اور حکومت کو یہ امتحان رد کرنا پڑا تھا۔ اس میں 67 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
ستمبر 2018 میں یو پی ایس ایس ایس سی کے تحت نلکوپ آپریٹرز کی بھرتی کے لیے منعقدہ امتحان کا پیپر آؤٹ ہو گیا تھا۔ یہ امتحان بھی ردکرنا پڑا۔
اگست 2021 میں یوپی ایس ایس ایس سی کے ذریعے کرائے گئے پریلمنری ایلیجیبلٹی ٹیسٹ (پی ای ٹی) کا پیپر آؤٹ ہو گیا۔ حکومت نے اس امتحان کے لیے سخت انتظامات کیے تھے۔ اگزام سینٹرز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ اس کے باوجود پیپر آؤٹ ہو گیا۔
اسی سال کے اواخر میں 28 نومبر 2021 کو وہاٹس ایپ پر اتر پردیش ٹیچر ایلیجیبلٹی ٹیسٹ (ٹی ای ٹی) کا پرچہ لیک ہو گیا اور امتحان کو رد کرنا پڑا۔ بعد میں 23 جنوری 2022 کو یہ اگزام دوبارہ لیا گیا۔
سرکاری بھرتیوں کے علاوہ دیگر امتحانات کے پیپر بھی لیک ہوتے رہے ہیں۔ اتر پردیش بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے انگلش کا سوالنامہ 30 مارچ 2022 کو بلیا میں لیک ہوگیا تھا۔ اس کے بعد 24 اضلاع میں انٹرمیڈیٹ انگلش کا امتحان رد کر دیا گیا۔ اس معاملے میں بلیا کے ضلع اسکول کے نگراں کو معطل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ پیپر لیک کی خبر شائع کرنے والے تین صحافیوں—اجیت کمار اوجھا، دگوجئے سنگھ اور منوج گپتا کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ صحافی کو 27 دن جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔
بلیا میں جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے صحافیوں کی گرفتاری کے خلاف ایک لمبی تحریک چلائی، جو ضلع مجسٹریٹ کے تبادلے کے بعد ہی ختم ہوئی۔
منشور میں روزگار اور پیپر لیک کی باتیں
بے روزگاری اور پیپر لیک کے معاملے پر نوجوانوں کے بڑھتے غصے نے بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کی حکومت نے بھرتی کے امتحانات شفاف طریقے سے کرائے ہیں تو دوسری طرف پارٹی کے منشور میں بھرتی امتحانات میں بے قاعدگیوں کو روکنے کے لیے بنائے گئے قانون پر سختی سے عملدرآمد کی بات کی گئی ہے۔
بی جے پی نے اپنے منشور ‘مودی کی گارنٹی’ میں کہا ہے کہ ‘ہماری حکومت نے بھرتی امتحانات میں بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے سخت قانون بنایا ہے۔ اب ہم قانون پر سختی سے عملدرآمد کر کے اور نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں گے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم نے سرکاری بھرتیوں کے امتحانات شفاف طریقے سے کروا کر لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرتی کیا ہے۔ ہم مستقبل میں بھی سرکاری بھرتیاں بروقت اور شفاف طریقے سے کرتے رہیں گے۔’
کانگریس کے منشور ‘نیایے پتر 2024’ میں پیپر لیک کے معاملات کو حل کرنے اور متاثرین کو مالی معاوضہ دینے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، سرکاری اور پی ایس یو میں ریگولر بحالی کرنے، کانٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے، مرکزی حکومت میں مختلف سطحوں پر منظور شدہ تقریباً 30 لاکھ خالی آسامیوں کو پُر کرنے، نیا ٹرینی اپرنٹس شپ رائٹس ایکٹ بنا کر 25 سال کی عمر کے گریجویٹ اور ڈپلومہ ہولڈرز کو سرکاری کمپنیوں میں ایک سال کی تربیت دینے اور ہر ٹرینی کو ایک لاکھ روپے دینے کی بات کہی گئی ہے۔
سماج وادی پارٹی نے اپنے منشور ‘ہمارے حقوق’ میں کہا ہے کہ پیپر لیک اور مسابقتی امتحانات میں بدعنوانی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا، سب کے لیے نیشنل ایمپلائمنٹ پالیسی اور مشن ایمپلائمنٹ قائم کی جائے گی، تمام خالی سرکاری نوکریوں کو فوری طور پر پُر کیا جائے گا۔
بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے اپنا کوئی انتخابی منشور جاری نہیں کیا ہے۔لیکن 18 مئی کو بستی میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس پی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے کہا کہ ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں اپوزیشن جماعتوں کے ہوائی منشوروں اور لالچ کا شکار نہیں ہونا ہے۔ یہ جماعتیں انتخابات ختم ہونے کے بعد اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتیں۔ ہم کہنے میں کم اور کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہم کسی الیکشن میں منشور جاری نہیں کرتے۔ ہم نے بغیر کسی انتخابی منشور کے اتر پردیش میں چار بار کی سرکار میں عام لوگوں کے مفاد میں کام کرکے دکھایاہے۔’
‘مودی جی نے نوکری کی گانٹھ ایسی باندھ دی ہے کہ کھولتے نہیں کھل رہی؟’
گورکھپور کے وویک پورم محلے میں کرایہ کا مکان لے کر یو پی ایس سی امتحان کی تیاری کر رہے روشن پرتاپ سنگھ اس سال 11 فروری کو منعقدہ آراو/اے آراو امتحان میں شامل ہوئے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن شام ہوتے ہوتے پیپر لیک کی خبر نے انہیں گہرے صدمے میں ڈال دیا۔
روشن پرتاپ سنگھ۔ (تصویر: منوج سنگھ)
یہ امتحان ان کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ گھر کے حالات انہیں ایک عدد نوکری کے لیے مجبور کر رہے تھے۔ روشن کا مقصد آئی اے ایس بننا ہے۔ انہیں لگتا تھا کہ آر او/اے آر او امتحان میں کامیاب ہوگئے تو اس سے انہیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ پیپر آؤٹ ہونے سے وہ بے حد مایوس تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں نہ صرف امتحان کے پیپر لیک ہو رہے ہیں بلکہ درخواستیں طلب کرنے کے بعد امتحانات بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ پی جی ٹی امتحان کے فارم سال 2022 میں بھروائے گئے تھے اور یہ امتحان ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان نہ صرف بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں بلکہ پیپر لیک ہونے سے ان کے زخم مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
وویک پورم کی ایک پرائیویٹ لائبریری میں پڑھ رہے روشن کہتے ہیں کہ ہم اس مسئلے پر مسلسل بات کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ 90 فیصد نوجوان اس بار بے روزگاری اور پیپر لیک کے معاملے پر ووٹ کریں گے۔
امبیڈکر نگر ضلع کے رہنے والے للت نے بھی آر او /اے آر او امتحان کے لیے درخواست دی تھی، لیکن امتحان کے وقت ہی انہیں بہار میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ وہ اس وقت بھاگلپور میں تعینات ہیں۔ وہ دوبارہ آر او/اے آر او امتحان ہونے پر اس میں شامل ہوں گے۔ ایم اے، بی ایڈ للت کا کہنا ہے کہ پیپر لیک سے ہم سے زیادہ ہمارے خاندان کے افراد کو تکلیف ہوتی ہے۔ ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔
للت کو لگتا ہے کہ بے روزگاری اور پیپر لیک کا مسئلہ لوک سبھا انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کو ایشو کسی پارٹی نے نہیں بنایا بلکہ یہ اپنے آپ ایشو بن گیاہے۔ یہ نوجوانوں کی بیداری کی وجہ سے ہوا ہے۔ نوجوان سوشل میڈیا پر مسلسل اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ تاہم، سرکاروں کو پانچ دس سال میں بدل ہی دینا چاہیے کیونکہ ان میں گھمنڈ آ جاتا ہے، جیسے اس سرکار کو ہوگیا ہے۔
دیوی پرساد نشاد اور ان کے چچا جھنکو۔ (تصویر: منوج سنگھ)
گورکھپور کے چوری چوڑا کے رہنے والے جالندھر پرجاپتی الہ آباد میں رہ کر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکار اور انتظامیہ چاہ لے تو پیپر لیک ہو ہی نہیں سکتا۔ جالندھر پرجاپتی تسلیم کرتے ہیں کہ اس معاملے پر نوجوانوں میں زبردست عدم اطمینان ہے۔
سنت کبیر نگر میں بکھیرا جھیل کے کنارے واقع شنیچرا گاؤں میں ملے 36 سالہ دیوی پرساد نشاد بہار میں ٹیچر کی بھرتی کا امتحان دے کر لوٹے ہیں۔
ایم اے بی ایڈ دیوی پرساد (36 سالہ) گاؤں کے قریب اپنی کوچنگ کلاس چلاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کہیں نوکری نہیں ملی تو انہوں نے خود سوال کر دیا کہ،’اس سرکار میں نوکری ملے گی؟ چھ سال سے اساتذہ کی بھرتی نہیں آئی۔ اب اپنے یہاں نوکری نہیں ہے تو کیا کیا جائے۔ دوسری ریاستوں میں نوکری تلاش کرنی ہی پڑے گی۔ اکاؤنٹنٹ کے اگزام میں انٹرویو میں فیل ہو گئے کیوں کہ رشوت نہیں دے پائے؟ وی ڈی او امتحان میں اچھا پیپر ہوا تھا تو پیپر لیک ہو گیا۔ ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ بھرتی کا وقت طے کرے کہ امتحان کب ہوگا اور کب نتیجہ آئے گا۔راہل جی اس بارے میں کچھ اعلانات کیے ہیں لیکن مودی جی کہتے ہیں مفت راشن اگلے پانچ سال تک جاری رہے گا۔ ارے ہمیں پانچ کلو کیا، پچاس کلو راشن بھی نہیں چاہیے، روزگار چاہیے۔’
دیوی پرساد کے پاس بیٹھے ان کے چچا جھنکو نشاد سرکاری بھرتی نہ ہونے پر بھوجپوری میں تبصرہ کرتے ہیں، ‘مودی جی نے نوکری کی گانٹھ ایسی باندھ دی ہے کہ کوئی اسے کھول ہی نہیں پا رہا ہے۔’
(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)