سی اے اے کے خلاف ریاست میں ہوئے مظاہرے کے دوران ہوئے تشدد کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے والوں سے ہی اس کی بھرپائی کی جائےگی۔ اس بارے میں جاری حکومت کے وصولی نوٹس کو کانپور کے شخص کے ذریعے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: الٰہ آباد ہائی کورٹ نے شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کرنے کے دوران ہوئے پبلک پراپرٹی کے نقصان کی بھرپائی کرنے کے اترپردیش حکومت کے نوٹس پر روک لگا دی ہے۔
لائیو لاء کے مطابق کانپور کے ایک درخواست گزار نے اترپردیش حکومت کے ذریعے نقصان کی بھرپائی کے لئے دیے گئے نوٹس کے جواز کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس پنکج نقوی اور جسٹس سوربھ شیام شمشیری کی عدالتی بنچ نے حکومت کے وصولی نوٹس پر روک لگا دی ہے۔
درخواست گزار کو شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے دوران یوپی حکومت کے ذریعے پبلک پراپرٹی کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے وصولی نوٹس دیا گیا تھا۔ فی الحال ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو نقصان کی بھرپائی کے نوٹس سے عبوری تحفظ دیا ہے۔ درخواست گزار نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ ریاستی حکومت کے ذریعے منصوبہ بند اصولوں کے مبینہ مشق میں اے ڈی ایم کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا، جبکہ ایسا کرنا ڈسٹرکشن آف پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹیز بنام حکومت (2009) 5 اے سی سی 212 میں منظور ہدایتوں کی خلاف ورزی ہے۔
ان ہدایتوں میں کہا گیا ہے کہ حرجانے یا تفتیش کی ذمہ داری کا اندازہ لگانے کے لئے ایک موجودہ یا سبکدوش ہائی کورٹ کے جج کی دعویٰ کمشنر کے طور پر تقرری کی جا سکتی ہے۔ ایسا کمشنر ہائی کورٹ کی ہدایت پر ثبوت لے سکتا ہے۔ ذمہ داری کا اندازہ لگانے کے بعد اس کو تشدد کے مجرموں اور واقعہ کے کنوینر کے ذریعے برداشت کیا جائےگا۔
دینک بھاسکر کے مطابق، کانپور میں گزشتہ 19 اور 20 دسمبر کو سی اے اے کی مخالفت میں تشدد ہوا تھا، جس میں دو پولیس چوکیوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا، ساتھ ہی تمام عوامی جائیدادوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو نشان زد کر کے ان کو نوٹس بھیجا، جو کانپور کے رہنے والے محمد فیضان کو بھی ملا۔ فیضان نے ہی اس نوٹس کو چیلنج کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ جس کے بعد عدالت کے حکم پر فیضان کو عبوری راحت ملی ہے۔ عدالت نے اس بارے میں ریاستی حکومت کو کاؤنٹر ایفیڈیوٹ فائل کرنے کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا ہے۔
ایک ایسی ہی عرضی پر سپریم کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ بھی سماعت کر رہی ہے۔ وکیل پرویز عارف ٹیٹو کے ذریعے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کا یہ حکم سپریم کورٹ کے ذریعے خود نوٹس لےکر دیے گئے ڈسٹرکشن آف پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹیز بنام حکومت (2009) 5 اے سی سی 212 میں منظور ہدایتوں کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ میں زیر التوا عرضی کے مدنظر ہائی کورٹ نے سماعت کی اگلی تاریخ تک سپریم کورٹ کے سامنے کارروائی کے نتیجہ کے تحت لگائے نوٹس پر روک لگا دی ہے۔ بنچ نے کہا، ‘ ہمارا خیال ہیں کہ جن اصولوں کے تحت نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان کو سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا ہے، اس لئے انصاف کی مانگ ہے کہ جاری کئے گئے نوٹس کے اثر اور جاری عمل کو تب تک روک دیا جائے جب تک کہ سپریم کورٹ میں مسئلہ کا تصفیہ نہ ہو جائے۔ ‘
سپریم کورٹ کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ان نوٹس کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو اس ہفتے کے شروع میں خارج کر دیا تھا۔ معاملے کو 20 اپریل کو آگے غور کے لئے لسٹڈ کیا گیا ہے۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے 29 جنوری کو سپریم کورٹ نے سی اے اے مظاہرہ کے دوران ہوئے پبلک پراپرٹی کے نقصان کی بھرپائی کا نوٹس رد کرنے سے متعلق عرضی پر
اترپردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اتر پردیش میں بی جےپی قیادت والی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار مظاہرین کی جائیداد ضبط کرکے،سرکاری املاک کو ہوئے نقصان کا بدلہ لینے کے وزیر اعلیٰ کے وعدے پر آگے بڑھ رہی ہے تاکہ اقلیتی کمیونٹی سے سیاسی وجہوں کے لیے بدلہ لیا جا سکے۔
معاملے میں عرضی گزاراور وکیل پرویز عارف ٹیٹو نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ان نوٹس پر روک لگانے کی گزارش کی ہے کہ یہ ان افراد کو بھیجے گئے ہیں جن کے خلاف کسی اہتمام کے تحت معاملہ درج نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی ایف آئی آریا جرم کا ریکارڈ دستیاب کرایا گیا ہے۔اس کے علاوہ وکیل نیلوفرخان کے ذریعے دائر عرضی میں کہا گیا کہ یہ نوٹس 2010 میں دیے گئے الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے پر مبنی ہیں، جو 2009 میں عدالت کے ذریعےدیےگئے فیصلے کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ ان ہدایات کی2018 کے فیصلے میں دوبارہ تصدیق کی گئی تھی۔
معلوم ہو کہ 19-20 دسمبر، 2019 کو لکھنؤ اور ریاست کے دیگر حصوں میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ اسی دوران مبینہ طور پر سرکاری اور نجی جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا جس میں سرکاری بسیں، میڈیا وین، موٹر بائیک وغیرہ بھی شامل تھی۔ اس کے بعد اترپردیش حکومت نے پبلک پراپرٹی کے نقصان کو روکنے سے متعلق قانون، 1984 کی دفعہ 3 اور 4 کے تحت نوٹس جاری کیا تھا۔
بجنور میں 20 دسمبر کو ہوئے تشدد آمیز مظاہرہ کے دوران ہوئے نقصان کا اندازہ لگانے کے بعد ضلع انتظامیہ نے 43 لوگوں کو وصولی نوٹس بھیجا تھا۔ یہاں تشدد کے دوران دو لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور اس سلسلے میں 146 گرفتاریاں کی گئی تھی۔
گورکھپور شہر میں 33 لوگوں کو پولیس نے نوٹس بھیجا تھا۔ وہیں سمبھل میں 11 لاکھ 66 ہزار روپے کا نقصان پایا گیا تھا اور 26 لوگوں کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔
رام پور میں 28 لوگوں کو نوٹس جاری کرکے 25 لاکھ کی بھرپائی کرنے کو کہا گیا تھا۔ نوٹس میں ان 28 لوگوں کو تشدد اور پبلک پراپرٹی کے نقصان کا ذمہ دار بتایا گیا تھا۔
اتر پردیش کے
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خبردار کیا تھا کہ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو بخشا نہیں جائےگا، ان سے بدلہ لیا جائےگا اور نقصان کی بھرپائی کی جائےگی۔