یہ معاملہ سون بھدر ضلع کے اوبرا تھانہ کے پرسوئی گاؤں کا ہے۔ معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے 7 لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ حالانکہ قتل کا کلیدی ملزم مقامی آر ایس ایس کی شاکھاچلانے والا ٹیچر فرار ہے۔
ہولیکا دہن کی رات جب پورا ملک ہولی کی خوشیاں منانے کی تیاری کر رہا تھا اسی وقت اتر پردیش کے سون بھدر ضلع میں سالوں سے قائم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرتے ہوئے کلہاڑی سے کاٹکر ایک مسلم بزرگ کا قتل کر دیا گیا۔یہ معاملہ سون بھدر ضلع کے اوبرا تھانہ کے پرسوئی گاؤں کا ہے۔ 20 مارچ کو خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ (اجمیر، راجستھان)سے زیارت کرکے لوٹے 60 سالہ محمد انور ابھی ٹھیک سے اپنے گھر والوں سے مل بھی نہیں پائے تھے کہ رات کو ان کا قتل کر دیا گیا۔
پرسوئی گاؤں کے باشندہ انور علی کے گھر کے پاس تعزیہ رکھنے والا چبوترہ (امام چوک)بنا ہوا تھا۔ پچھلے چھے مہینے سے یہاں پر روندر کھروار نام کے ایک سرکاری ٹیچر نے آرایس ایس کی شاکھا چلانا شروع کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو پچھلے تین مہینے میں تین بار توڑ دیا گیا تھا۔محمد انور کے رشتہ داروں نے روندر کھروار اور اس کے دوستوں کے اوپر انور کے قتل کا الزام لگایا ہے۔انور کے رشتہ داروں کے مطابق، رات کو تقریباً1 بجے، محمد انور کو 20 لوگوں نے لاٹھی ڈنڈے سے پیٹکر مار ڈالا۔ انور کا بیٹا محمد حسنین بتاتت ہیں کہ، میرے ابو کے منھ کو پہلے تولیہ سے باندھ دیا گیا، اس کے بعد لاٹھی ڈنڈوں سے ان کی خوب پٹائی کی گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں (ملزمین) نے میرے ابو کو کلہاڑی سے کاٹ دیا۔
حسنین آگے کہتے ہیں کہ،6 مہینے پہلے جب پہلی بار تنازعہ ہوا تھا تبھی پولیس کو اطلاع دے دی گئی تھی لیکن پولیس نے ہم لوگوں کو ہی چپ کرا دیا۔گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں پر یہ چبوترہ پچھلے20 سال سے بنا ہوا ہے لیکن کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا لیکن جب سے روندر کھروار (معاملے کا کلیدی ملزم)یہاں پر سنگھ کی شاکھا چلا رہا ہے تب سے ہر دن کوئی نا کوئی تنازعہ ہوتا رہتا ہے۔
اس سے پہلے فروری مہینے میں تعزیہ کے چبوترہ کو لےکر دو بار تنازعہ ہوا تھا۔ اس وقت پولیس نے سمجھا بجھا کر معاملہ ختم کرا دیاتھا۔انور کے بڑے بیٹے محمد عین الحق نے کہا، اس سے پہلے دو بار جب تنازعہ ہوا تھا تبھی اگر پولیس ان پر کارروائی کرتی تو آج میرے ابو کا قتل نہیں ہوتا، وہ آج اس دنیا میں ہوتے، وہ زندہ ہوتے اور ہمارے ساتھ ہوتے۔
انور کے بڑے بھائی نعیم غازیپوری بتاتے ہیں،ریندر کھروار پہلے جونیئر ہائی سکول میں اپنی شاکھا چلاتے تھے، لیکن چھے مہینے پہلے سے وہ شاکھا کو چبوترہ کے پاس لےکر آ گئے اور وہیں پر اپنی شاکھا چلانے لگے۔انہوں نے کہا، اس بیچ ان کی نیت بدل گئی۔ ان کو لگا کہ وہ اس چبوترہ کو توڑکر اس پر قبضہ کر لیں۔ تین مہینے پہلے روندر کھروار نے چبوترہ کو توڑ دیا۔ جب انہوں نے چبوترہ توڑا تو پولیس کو اطلاع دی گئی۔
انہوں نے کہا،ایس ڈی ایم سمیت پولیس کے تمام اعلیٰ افسر آئے اور چبوترہ کو واپس بنوا دیا گیا۔ لیکن ایک مہینہ پہلے پھر سے چبوترہ کو توڑ دیا گیا۔ اس دوران پولیس نے 107/16 کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔نعیم غازی پوری آگے بتاتے ہیں،روندر کھروار اور ان کے دوستوں کی پہلے سے ہی اسکیم تھی کہ ہولیکا دہن والی رات کو چبوترہ کو اکھاڑکر پھینک دیںگے اور اس کے بعد ہولیکا دہن کرنے جائیںگے۔اسی رات 20 مارچ کو میرے چھوٹے بھائی انور اجمیر شریف سے زیارت کرکے لوٹے تھے۔
انہوں نے کہا، رات کو کھانا کھانے کے بعد وہ باہر ٹہل رہے تھے۔ تب انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ چبوترہ کے پاس بھیڑ لگائے ہوئے ہیں، جب وہ وہاں پر دیکھنے گئے تو ان کے اوپر کپڑا ڈالکر، کلہاڑی سے، لاٹھی ڈنڈا سے مار ڈالا۔اس گاؤں میں رہنے والے 25 سالہ گڈو بتاتے ہیں کہ، ہم نے آج تک کبھی ایسا کچھ نہیں سنا تھا اور نا ہی ہمارے گاؤں میں ایسا کچھ ہوا تھا۔ ہم سب مل کر ہولی اور محرم مناتے تھے۔ کبھی ہمارے گاؤں میں ہندومسلم جیسی بات ہی نہیں ہوئی لیکن جب سے یہاں پر سنگھ کی شاخ شروع ہوئی ہے تب سے اکثر یہاں تنازعہ ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے تہوار کے دن ایک بےقصور مسلم کی جان چلی گئی۔
اس خبر کے بارے میں سون بھدر پولیس سپرنٹنڈنٹ سلمان تاج کا کہنا ہے کہ، 20 مارچ کو جب ہمیں اطلاع ملی اور ہم موقع پر پہنچے تو انور زخمی تھے اور ان کو ہاسپٹل لے جایا گیا، جہاں پر ڈاکٹروں نے ان کی موت کا اعلان کر دیا۔ انور کے بیٹے کی تحریر پر آئی پی سی 147، 148، 149، 295 اور 302 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
پولس سپرنٹنڈنٹ بتاتے ہیں کہ کچھ مہینے پہلے بھی وہاں پر تنازعہ ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔اوبرا پولیس نے بتایا کہ 7ملزم گرفتار ہو چکے ہیں۔ گرفتار ملزمین میں دو بالغ ہیں جن کا نام راجیش کمار پرجاپتی اور راجیش کھروار ہے جبکہ پانچ ملزم نابالغ ہیں۔ ایک ملزم کرشنانند کی عمر 13 سال ہے۔
پولیس نے بتایا کہ بالغ ملزمین سے پوچھ تاچھ جاری ہے۔ حالانکہ ابھی تک کلیدی ملزم روندر کھروار فرار ہے۔پولیس نے اپنے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ کلیدی ملزم رویندر کھروار سنگھ کی شاخ چلاتا تھا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ شاخ کے دوران وہ بچوں کو اس چبوترہ کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا۔ گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں امن و سکون قائم رکھنے کے لئے پولیس اور پی اے سی کی تعیناتی کر دی گئی ہے۔ خبر لکھے جانے تک علاقے میں امن ہے۔
اتر پردیش کے وارانسی ضلع کے انسانی حقوق کے کارکن لینن ڈاکٹر لینن رگھو ونشی نے ہیومن رائٹس کمیشن میں ایک عرضی دائر کی ہے۔ کمیشن کی طرف سے عرضی کو منظورکر لیا گیا ہے۔
(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں)