بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
سنبھل تشدد کے حوالے سے دکھائی جا رہی خبریں۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب)
نئی دہلی:سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران گزشتہ اتوار (24 نومبر) کو مسلمانوں پر پولیس کی مبینہ فائرنگ سے توجہ ہٹانے کے لیے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس پرتشدد واقعے کو مسلم کمیونٹی کے درمیان نسلی تشدد کارنگ دے دیا ہے۔
معلوم ہو کہ اس تشدد میں پانچ لوگوں کی جان چلی گئی تھی اور اب اس پورے معاملے کو دو مسلم کمیونٹی— ترک اور پٹھان کے درمیان طویل عرصے سےجاری تنازعہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جہاں پولیس اور انتظامیہ کو الزامات سے بری کرنے کے لیےاسے مسلم پٹھان بنام مسلم ترک کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ وہیں، میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی بغیر کسی تصدیق یا تفتیش کے اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔
بی جے پی کےمطابق ،مسجد کے سروے کے دوران فائرنگ کا واقعہ سنبھل کے ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ یہ خاندان سابق ایم پی شفیق الرحمان برق اور سابق ایم ایل اے نواب محمود حسن خان کے خاندان ہیں، جن کے لوگ آزادی کے بعد سے ایک دوسرے کے خلاف کئی الیکشن لڑ چکے ہیں۔
برق خاندان کا تعلق ترک برادری سے ہے، جو ترکوں کی اولاد ہیں، جبکہ خان پٹھان ہیں۔
سنبھل سے موجودہ ایم پی ضیاء الرحمان برق شفیق الرحمان کے پوتے ہیں، جبکہ خان کے بیٹے اقبال محمود سنبھل اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں،اس سیٹ پر انہوں نے سات بار جیت حاصل کی ہے اور 1996 سے مسلسل اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے۔ دونوں سیاستدانوں کا تعلق سماج وادی پارٹی سے ہے۔
سنبھل پولیس نے سات ایف آئی آر میں سے ایک میں ضیاء الرحمان اور محمود کے بیٹے سہیل اقبال کو بھی نامزد کیا ہے، ان پر بھیڑ کو مسجد کے قریب جمع ہونے کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
تاہم، دونوں نے پولیس کے الزامات کی تردید کی ہے۔ بتایا گیاہے کہ واقعہ کے دن ضیاء الرحمان ایک سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے بنگلورو گئے ہوئے تھے۔
معلوم ہو کہ اس پورے معاملے میں پولیس انتظامیہ سوالوں کی زد میں ہے۔ پولیس اہلکاروں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے بھیڑ پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پانچ مسلمانوں کی موت ہو گئی۔
لیکن مقامی میڈیا میں نامعلوم پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ہجومی تشدد کے لیے ان دونوں خاندانوں کے درمیان سیاسی دشمنی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک نیا زاویہ پیش کیا گیا ہے۔
‘ترک بنام پٹھان’کا زاویہ سب سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت میں وزیر نتن اگروال نے پیش کیا۔ 25 نومبر کو اگروال نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا، ‘سنبھل میں آگ زنی اور تشدد بالادستی کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ترک پٹھان تنازعہ نے نہ صرف امن کو درہم برہم کیا بلکہ عام لوگوں کے تحفظ پر بھی سوالات اٹھائے۔ یوپی پولیس کی مستعدی قابل ستائش ہے۔’
اگروال نے پوسٹ کے ساتھ ہیش ٹیگ ‘ایس پی پرایوجت تشدد'(ایس پی کی سرپرستی میں تشدد) کا استعمال کیا۔ بی جے پی کے اتر پردیش کے ریاستی صدر، بھوپیندر سنگھ چودھری نے بھی اگروال کی پیروی کی اور سنبھل کے دو بااثر سیاسی خاندانوں کے درمیان تشدد کو ‘اندرونی جھگڑے کا نتیجہ’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ‘سنبھل میں سماج وادی پارٹی میں اندرونی جھگڑے کی وجہ سے تشدد ہوا ہے۔ حکومت یقینی طور پر اس واقعہ میں جو بھی قصوروار پایا جائے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔’
انہوں نے مزید اشارہ دیا کہ واقعے کی تحقیقات میں ‘ترک پٹھان’ زاویہ کو بھی شامل کیا جائے گا۔
اگروال کےایکس پر متنازعہ پوسٹ کرنے کے فوراً بعد ٹیلی ویژن نیوز چینلوں اور نیوز ویب سائٹس نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، تو کچھ نے بغیر کسی ذرائع کا حوالہ دیے بی جے پی لیڈروں کے متنازعہ باتوں کو دہرایا اور خبریں شائع کرنا شروع کیں۔
دی وائر کو سرچ کرنے پر ایک درجن سے زیادہ مین اسٹریم نیوز پورٹلوں اور چینلوں کی طرف سے شائع ہونے والی ‘ترک پٹھان’ خبریں یا ویڈیوز ملے۔
انڈیا ٹی وی کی ویب سائٹ پر ایک سرخی میں کہا گیا،’سنبھل تشدد: ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے ترک بنام پٹھان کی لڑائی ہے، جس میں چار لوگ مارے گئے۔’
وہیں، زی نیوز نے سوالیہ نشان کے ساتھ لکھا، ‘ترک پٹھان جنگ میں جلا سنبھل ؟’
نوبھارت ٹائمز نے کہا، ‘ترک بنام پٹھان کی لڑائی میں چلی گولی۔’ تو، ہندی اخبار امر اُجالا نے بھی اپنے پورٹل پر اس عنوان کے ساتھ ایک اسٹوری شائع کی،جس میں سوالیہ نشان کے ساتھ کہا گیا،’ترکوں-پٹھانوں کا تنازعہ ہےسنبھل معاملے کا پورا سچ؟’
نیوز 18 انڈیا اور نیوز 18 یوپی نے بھی اسی طرح کے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز پوسٹ کیے ہیں۔ نیوز 18 یوپی نے کہا، ‘سنبھل میں خونی گھماسان۔ ترک بنام پٹھان۔ ری پبلک بھارت نے بھی کچھ ایسا ہی پوسٹ کیا۔
ٹی وی 9 بھارت ورش نے سوالیہ نشان کے ساتھ پوچھا، ‘ترک-پٹھان لڑائی یا پولیس-مسلم کی لڑائی؟’
اے بی پی کی ہیڈ لائن میں کہا گیا،’سنبھل کی لڑائی، ترک پٹھانوں پر آئی ۔’ تووہیں ، ٹائمز ناؤ نوبھارت میں یہ خبر اس طرح نظر آئی، ‘سنبھل میں ترک بنام پٹھان جنگ کی پوری کہانی’
تاہم، اس واقعہ کے اصل اسٹیک ہولڈرز نے اس پٹھان بنام ترک کے زاویہ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
شاہی جامع مسجد کمیٹی کے چیئرمین ظفر علی نے بدھ (27 نومبر) کو
دی وائر کو بتایا ، ‘اس علاقے میں یا یہاں تک کہ اس سےکچھ دوری پر بھی کوئی ترک نہیں رہتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا ایسی باتیں کہنا انتہائی نامناسب ہے۔
اس کے ساتھ ہی علی اپنے پہلے لگائے گئے الزامات پرقائم رہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے بھیڑ پر گولیاں چلائیں، جس کی وجہ سے پانچ لوگوں کی موت ہو گئی۔ تاہم، پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پانچوں کی موت دیسی ہتھیاروں سے لگی گولیوں کی وجہ سے ہوئی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھیڑ کے ارکان نے ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں۔
علی اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے اپوزیشن لیڈروں نے اس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس اپنے سروس ہتھیاروں کے علاوہ دیسی ہتھیار بھی لے جا رہی تھی۔
علی نے کہا، ‘پولیس نے انہیں مار ڈالا۔ میں گواہ ہوں۔ جب یہ ہوا تب میں وہاں تھا۔’
ایک اور ذرائع، مسجد کمیٹی کےایک نمائندے نے کہا کہ اگرچہ دونوں خاندانوں کے درمیان ایک دیرینہ سیاسی دشمنی ہے جو کہ اکثر سیاسی نمائندگی کے لیے ترک بنام پٹھان لڑائی کے طور پر نظر آتی ہے، لیکن جب مسجد کا مسئلہ آیا تو وہ متحدتھے۔
ذرائع نے کہا، ‘پہلے سروے کے دن (19 نومبر)، ایم پی، ایم ایل اے اور چیئرمین سبھی مسجد میں ایک ساتھ کھڑے ہوئے اور جلد بازی میں کیے گئے سروے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔’
تشدد بھڑکانے کے الزام میں ایم ایل اے کے بیٹے سہیل اقبال اس وقت پریشان نظر آئے، جب زی نیوز کے ایک رپورٹر نے ان سے ترک بنام پٹھان کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے۔
اقبال نے کہا،’ مجھے یہ سن کر دکھ ہوا کہ جب مسجد کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے تو آپ ایسے سوال کر رہے ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے ہمارے عقیدے سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم سب ہندو اور مسلمان یہاں امن و امان سے رہتے ہیں۔ میں آپ سے گزارش کروں گا کہ کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کریں۔ ‘
لکھنؤ کے سینئر ایس پی ایم ایل اے اور اتر پردیش میں اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے بھی ‘ترک پٹھان’ بیانیہ کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ پولیس خود کو بچانے کے لیے ایسی کہانیاں بنا رہی ہے۔
پانڈے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘پولیس خود کو بچانے کے لیے یہ باتیں کہہ رہی ہے کیونکہ وہ بری طرح سے پھنس گئی ہے۔ پولیس کی فائرنگ سے چاروں افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بات غیرجانبدارانہ تحقیقات کے بعد سامنے آئے گی۔’
قابل ذکر ہے کہ ایم ایل اے اقبال محمود نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جونیئر برق کو شکست دی تھی، جب انہوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ اقبال محمود نے 1991 اور 2002 میں شفیق الرحمان برق کو شکست دی تھی، جبکہ 2007 میں انہوں نے شفیق الرحمان کے بیٹے اور ضیاء الرحمان کے والد مملوک الرحمان کو بھی شکست دی تھی۔
اقبال محمود کے والد محمود حسن خان نے سنبھل اسمبلی سیٹ سے تین بار 1957، 1962 اور 1969 میں کامیابی حاصل کی تھی۔
شفیق الرحمان برق، جنہوں نے مرادآباد اور سنبھل سے پانچ بار لوک سبھا الیکشن جیتا ، نے چار بار سنبھل اسمبلی سیٹ جیتی ہے۔ 1974، 1977 اور 1985 میں انہوں نے محمود حسن خان کو شکست دی جبکہ 1989 میں انہوں نے ان کے بیٹے اقبال محمود کو شکست دی تھی۔
سال 2022 میں، ضیاء الرحمان برق مراد آباد کی کندرکی سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ ووٹنگ سے چند ماہ قبل اپنے دادا کی موت کے بعد انہوں نے سنبھل سیٹ سے 2024 کا لوک سبھا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ حال ہی میں کندرکی ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے، جس میں اس مسلم اکثریتی حلقے میں
چونکا دینے والا نتیجہ دیکھنے میں آیا، یہاں بی جے پی نے 1.45 لاکھ ووٹوں کے فرق سے الیکشن جیتا ہے۔
اپوزیشن نے اس شکست کے لیے اپنے ووٹروں کوووٹ دینے سے روکنے کا الزام لگایا۔ اس الیکشن میں بدانتظامی اور پولیس کی بدانتظامی کے کئی الزامات لگے تھے۔
بی جے پی نے اس جیت کو مختلف مسلم ذاتوں کے درمیان اندرونی کشمکش کا نتیجہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس سیٹ پر ایس پی کے امیدوار محمد رضوان جو کہ سابق ایم ایل اے ہیں، ترک برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
موجودہ تشدد کے معاملے میں مرادآباد ڈویژن کے کمشنر انجنیا کمار سنگھ نے بتایا ہے کہ تشدد کے الزام میں اب تک 27 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 74 ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )