یوپی: سنبھل تشدد معاملے میں پولیس کے دفاع میں بی جے پی نے دیا ’ترک بنام پٹھان‘ کا اینگل

بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

سنبھل تشدد کے حوالے سے دکھائی جا رہی خبریں۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب)

سنبھل تشدد کے حوالے سے دکھائی جا رہی خبریں۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب)

نئی دہلی:سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران گزشتہ اتوار (24 نومبر) کو مسلمانوں پر پولیس کی مبینہ فائرنگ سے توجہ ہٹانے کے لیے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس پرتشدد واقعے کو مسلم کمیونٹی کے درمیان نسلی  تشدد کارنگ  دے دیا ہے۔

معلوم ہو کہ اس تشدد میں پانچ لوگوں کی جان چلی گئی تھی اور اب اس پورے معاملے کو دو مسلم کمیونٹی— ترک اور پٹھان کے درمیان طویل عرصے سےجاری تنازعہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جہاں پولیس اور انتظامیہ کو الزامات سے بری کرنے کے لیےاسے مسلم پٹھان بنام مسلم ترک کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ وہیں، میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی بغیر کسی تصدیق یا تفتیش کے اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔

بی جے پی کےمطابق ،مسجد کے سروے کے دوران فائرنگ کا واقعہ سنبھل کے ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ یہ خاندان سابق ایم پی شفیق الرحمان برق اور سابق ایم ایل اے نواب محمود حسن خان کے خاندان ہیں، جن کے لوگ آزادی کے بعد سے ایک دوسرے کے خلاف کئی الیکشن لڑ چکے ہیں۔

برق خاندان کا تعلق ترک برادری سے ہے، جو ترکوں کی اولاد ہیں، جبکہ خان پٹھان ہیں۔

سنبھل سے موجودہ ایم پی ضیاء الرحمان برق شفیق الرحمان کے پوتے ہیں، جبکہ خان کے بیٹے اقبال محمود سنبھل اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں،اس سیٹ پر انہوں نے سات بار جیت حاصل کی ہے اور 1996 سے مسلسل اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے۔ دونوں سیاستدانوں کا تعلق سماج وادی پارٹی سے ہے۔

سنبھل پولیس نے سات ایف آئی آر میں سے ایک میں ضیاء الرحمان اور محمود کے بیٹے سہیل اقبال کو بھی نامزد کیا ہے، ان پر بھیڑ کو مسجد کے قریب جمع ہونے کے لیے اکسانے  کا الزام لگایا گیا ہے۔

تاہم، دونوں نے پولیس کے الزامات کی تردید کی ہے۔ بتایا گیاہے کہ واقعہ کے دن ضیاء الرحمان ایک سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے بنگلورو گئے ہوئے تھے۔

معلوم ہو کہ اس پورے معاملے میں پولیس انتظامیہ سوالوں کی زد میں ہے۔ پولیس اہلکاروں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے بھیڑ پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پانچ مسلمانوں کی موت ہو گئی۔

لیکن مقامی میڈیا میں نامعلوم پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ہجومی تشدد کے لیے ان دونوں خاندانوں کے درمیان سیاسی دشمنی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک نیا زاویہ پیش کیا گیا ہے۔

‘ترک بنام پٹھان’کا زاویہ سب سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت میں وزیر نتن اگروال نے پیش کیا۔ 25 نومبر کو اگروال نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا، ‘سنبھل میں آگ زنی اور تشدد بالادستی کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ترک پٹھان تنازعہ نے نہ صرف امن کو درہم برہم کیا بلکہ عام لوگوں کے تحفظ پر بھی سوالات اٹھائے۔ یوپی پولیس کی مستعدی  قابل ستائش ہے۔’

اگروال نے پوسٹ کے ساتھ ہیش ٹیگ ‘ایس پی پرایوجت تشدد'(ایس پی کی سرپرستی میں تشدد) کا استعمال کیا۔ بی جے پی کے اتر پردیش کے ریاستی صدر، بھوپیندر سنگھ چودھری نے بھی اگروال کی پیروی کی اور سنبھل کے دو بااثر سیاسی خاندانوں کے درمیان تشدد کو ‘اندرونی جھگڑے کا نتیجہ’ قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ‘سنبھل میں سماج وادی پارٹی میں اندرونی جھگڑے کی وجہ سے تشدد ہوا ہے۔ حکومت یقینی طور پر اس واقعہ میں جو بھی قصوروار پایا جائے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔’

انہوں نے مزید اشارہ دیا کہ واقعے کی تحقیقات میں ‘ترک پٹھان’ زاویہ کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اگروال کےایکس  پر متنازعہ پوسٹ کرنے کے فوراً بعد ٹیلی ویژن نیوز چینلوں  اور نیوز ویب سائٹس نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، تو کچھ نے بغیر کسی ذرائع کا حوالہ دیے بی جے پی لیڈروں کے متنازعہ باتوں کو دہرایا اور خبریں شائع کرنا شروع کیں۔

دی وائر کو سرچ کرنے پر ایک درجن سے زیادہ مین اسٹریم نیوز پورٹلوں اور چینلوں کی طرف سے شائع ہونے والی ‘ترک پٹھان’ خبریں یا ویڈیوز ملے۔

IMG_20241127_125746-1024x884-1-768x663

انڈیا ٹی وی کی ویب سائٹ پر ایک سرخی میں کہا گیا،’سنبھل تشدد: ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے ترک بنام  پٹھان کی لڑائی ہے، جس میں چار لوگ مارے گئے۔’

وہیں،  زی نیوز نے سوالیہ نشان کے ساتھ لکھا، ‘ترک پٹھان جنگ میں جلا سنبھل ؟’

IMG_20241127_125706-1024x877-1-768x658

نوبھارت ٹائمز نے کہا، ‘ترک بنام پٹھان کی  لڑائی میں چلی گولی۔’ تو، ہندی اخبار امر اُجالا نے بھی اپنے پورٹل پر اس عنوان کے ساتھ ایک اسٹوری شائع کی،جس میں سوالیہ نشان کے ساتھ کہا گیا،’ترکوں-پٹھانوں کا  تنازعہ ہےسنبھل معاملے کا پورا سچ؟’

نیوز 18 انڈیا اور نیوز 18 یوپی نے بھی اسی طرح کے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز پوسٹ کیے ہیں۔ نیوز 18 یوپی نے کہا، ‘سنبھل میں خونی گھماسان۔ ترک بنام پٹھان۔ ری پبلک بھارت نے بھی کچھ ایسا ہی پوسٹ کیا۔

ٹی وی 9 بھارت ورش نے سوالیہ نشان کے ساتھ پوچھا، ‘ترک-پٹھان لڑائی یا پولیس-مسلم کی  لڑائی؟’

IMG_20241127_125652-1024x948-1-768x711

اے بی پی کی ہیڈ لائن  میں کہا گیا،’سنبھل کی لڑائی، ترک پٹھانوں  پر آئی ۔’ تووہیں ، ٹائمز ناؤ نوبھارت میں یہ خبر اس طرح نظر آئی، ‘سنبھل میں ترک بنام  پٹھان جنگ کی پوری  کہانی’

تاہم، اس واقعہ کے اصل اسٹیک ہولڈرز نے اس پٹھان بنام ترک کے زاویہ  کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

شاہی جامع مسجد کمیٹی کے چیئرمین ظفر علی نے بدھ (27 نومبر) کو دی وائر کو بتایا ، ‘اس علاقے میں یا یہاں تک کہ اس سےکچھ دوری پر بھی  کوئی ترک نہیں رہتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا ایسی باتیں کہنا انتہائی نامناسب ہے۔

اس کے ساتھ ہی علی اپنے پہلے لگائے گئے الزامات پرقائم  رہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے بھیڑ پر گولیاں چلائیں، جس کی وجہ سے پانچ لوگوں کی موت ہو گئی۔ تاہم، پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پانچوں کی موت دیسی ہتھیاروں سے لگی گولیوں کی وجہ سے ہوئی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھیڑ کے ارکان نے ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں۔

علی اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے اپوزیشن لیڈروں نے اس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس اپنے سروس ہتھیاروں کے علاوہ دیسی  ہتھیار بھی لے جا رہی تھی۔

علی نے کہا، ‘پولیس نے انہیں مار ڈالا۔ میں گواہ ہوں۔ جب یہ ہوا تب میں وہاں تھا۔’

ایک اور ذرائع، مسجد کمیٹی کےایک  نمائندے نے کہا کہ اگرچہ دونوں خاندانوں کے درمیان ایک دیرینہ سیاسی دشمنی ہے جو کہ اکثر سیاسی نمائندگی کے لیے ترک بنام پٹھان لڑائی کے طور پر نظر آتی ہے، لیکن جب مسجد کا مسئلہ آیا تو وہ متحدتھے۔

ذرائع نے کہا، ‘پہلے سروے کے دن (19 نومبر)، ایم پی، ایم ایل اے اور چیئرمین سبھی مسجد میں ایک ساتھ کھڑے ہوئے اور جلد بازی میں کیے گئے سروے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔’

تشدد بھڑکانے کے الزام میں ایم ایل اے کے بیٹے سہیل اقبال اس وقت پریشان نظر آئے، جب زی نیوز کے ایک رپورٹر نے ان سے ترک بنام پٹھان کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے۔

اقبال نے کہا،’ مجھے یہ سن کر دکھ ہوا کہ جب مسجد کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے تو آپ ایسے سوال کر رہے ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے ہمارے عقیدے سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم سب ہندو اور مسلمان یہاں امن و امان  سے رہتے ہیں۔ میں آپ سے گزارش کروں گا کہ کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کریں۔ ‘

لکھنؤ کے سینئر ایس پی ایم ایل اے اور اتر پردیش میں اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے بھی ‘ترک پٹھان’ بیانیہ کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ پولیس خود کو بچانے کے لیے ایسی کہانیاں بنا رہی ہے۔

پانڈے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘پولیس خود کو بچانے کے لیے یہ باتیں کہہ رہی ہے کیونکہ وہ بری طرح سے پھنس گئی ہے۔ پولیس کی فائرنگ سے چاروں افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بات غیرجانبدارانہ  تحقیقات کے بعد سامنے آئے گی۔’

قابل ذکر ہے کہ ایم ایل اے اقبال محمود نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جونیئر برق کو شکست دی تھی، جب انہوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ اقبال محمود نے 1991 اور 2002 میں شفیق الرحمان برق کو شکست دی تھی، جبکہ 2007 میں انہوں نے شفیق الرحمان کے بیٹے اور ضیاء الرحمان کے والد مملوک الرحمان کو بھی شکست دی تھی۔

اقبال محمود کے والد محمود حسن خان نے سنبھل اسمبلی سیٹ سے تین بار 1957، 1962 اور 1969 میں کامیابی حاصل کی تھی۔

شفیق الرحمان برق، جنہوں نے مرادآباد اور سنبھل سے پانچ بار لوک سبھا الیکشن جیتا ، نے چار بار سنبھل اسمبلی سیٹ جیتی ہے۔ 1974، 1977 اور 1985 میں انہوں نے محمود حسن خان کو شکست دی جبکہ 1989 میں انہوں نے ان کے بیٹے اقبال محمود کو شکست دی تھی۔

سال 2022 میں، ضیاء الرحمان برق مراد آباد کی کندرکی سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ ووٹنگ سے چند ماہ قبل اپنے دادا کی موت کے بعد انہوں نے سنبھل سیٹ سے 2024 کا لوک سبھا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ حال ہی میں کندرکی ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے، جس میں اس مسلم اکثریتی حلقے میں چونکا دینے والا نتیجہ دیکھنے میں آیا، یہاں بی جے پی نے 1.45 لاکھ ووٹوں کے فرق سے الیکشن جیتا ہے۔

اپوزیشن نے اس شکست کے لیے اپنے ووٹروں کوووٹ دینے سے روکنے کا الزام  لگایا۔ اس الیکشن میں بدانتظامی اور پولیس کی بدانتظامی کے کئی الزامات لگے تھے۔

بی جے پی نے اس جیت کو مختلف مسلم ذاتوں کے درمیان اندرونی کشمکش کا نتیجہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس سیٹ پر ایس پی کے امیدوار محمد رضوان جو کہ سابق ایم ایل اے ہیں، ترک برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

موجودہ تشدد کے معاملے میں مرادآباد ڈویژن کے کمشنر انجنیا کمار سنگھ نے بتایا ہے کہ تشدد کے الزام میں اب تک 27 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 74 ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

آندھرا پردیش: سی ایم چندر بابو نائیڈو بولے – ریاستی حکومت وقف املاک کے تحفظ کے لیے پابند عہد

این ڈی اے  حکومت میں اتحادی چندربابو نائیڈو نے وقف (ترمیمی) بل 2024 کو پیش کرنے کے اقدام کی وسیع تنقید کے درمیان وجئے واڑہ میں ریاستی حکومت کی جانب سے منعقد افطار میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ڈی پی حکومت نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اورآگے بھی کرتی رہے گی۔

آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندربابو نائیڈو (درمیان میں، سنہری ٹوپی میں) افطار میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر: X/@ncbn)

آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندربابو نائیڈو (درمیان میں، سنہری ٹوپی میں) افطار میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر: X/@ncbn)

نئی دہلی: آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندربابو نائیڈو نے ریاست میں وقف بورڈ کی جائیدادوں کے تحفظ کا وعدہ کیا اور کہا کہ تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی حکومت نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ  انصاف کیا ہے اور ریاست میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ایسا کرتی رہے گی۔

نائیڈو نے یہ تبصرہ جمعرات (27 مارچ) کو وجئے واڑہ میں ریاستی حکومت کی جانب  سے منعقد افطار میں شرکت کے دوران کیا۔

انہوں نے ایکس  پر لکھا ، ‘میں نے رمضان کے مہینے کے موقع پر وجئے واڑہ میں ریاستی حکومت کی طرف سے منعقد افطار میں شرکت کی۔ میں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اللہ سے ریاست اور یہاں کے لوگوں کی بھلائی کی دعا کی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں کل، آج اور ہمیشہ مسلم اقلیتی برادری کی حمایت کروں گا۔ مجھے رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ وقت گزار کر بہت اچھا لگا۔’

دی ہندو کے مطابق ، تقریب کے دوران نائیڈو نے یہ بھی کہا کہ ٹی ڈی پی حکومت نے اس سے پہلے بھی وقف بورڈ کی جائیدادوں کا تحفظ کیا تھا جب ریاست کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، اور اب بھی اس کی پابند ہے۔

نائیڈو نے کہا کہ تلگودیشم حکومت کے دوران مسلمانوں کے ساتھ تمام موچوں  پر انصاف کیا گیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ این ڈی اے کے دور حکومت میں ان کی حالت بہتر ہوگی۔

اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کا تذکرہ کرتے ہوئے نائیڈو نے کہا کہ یہ سابق چیف منسٹر این ٹی راما راؤ کےذہن  کی اختراع تھی… جن کے دور میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اسکیمیں نافذ کی گئیں۔

نائیڈو نے کہا کہ حیدرآباد میں حج ہاؤس ٹی ڈی پی حکومت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا، اور امراوتی میں حج ہاؤس کی بنیاد بھی رکھی گئی تھی، لیکن وائی ایس آر سی پی حکومت کی وجہ سے یہ اٹک گیا۔

نائیڈو کا یہ بیان این ڈی اے حکومت کے ذریعے پارلیامنٹ میں وقف (ترمیمی) بل 2024 لانے کے اقدام کی تنقید کے درمیان آیا ہے ۔ یہ قانون جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیجا گیا تھا اور اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی ہے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل   مشترکہ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی تجویز کردہ 44 ترامیم کو مسترد کر دیا تھا اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) خیمہ سے 14 کو منظور کر لیا تھا۔

اس وقت اپوزیشن کے تمام 11 ارکان نے وقف (ترمیمی) بل پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا اور اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔

اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ اس سے نئے تنازعات کھلیں گے اور وقف کی جائیدادیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اپوزیشن ارکان نے جے پی سی کے کام کاج کے طریقے میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت نے 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا تھا۔ پیش کیا تھا ۔ تاہم، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی مخالفت کے باعث اس بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا۔ اس کمیٹی کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخر تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی، جس میں اپوزیشن ارکان نے توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کمیٹی کے کئی اجلاس تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ اس سے قبل اپوزیشن اراکین نے  اوم برلا کو ایک خط لکھا تھا  جس میں الزام لگایا تھا کہ کمیٹی کی کارروائی کو چیئرپرسن جگدمبیکا پال کی طرف سے جانبدارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی کے صدر پال نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کو بولنے کے کافی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

Next Article
Next Article

مدراس ہائی کورٹ نے کامیڈین کنال کامرا کو عبوری پیشگی ضمانت دی

‘نیا بھارت’ ویڈیو کے بعد درج معاملے میں اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو مدراس ہائی کورٹ نے پیشگی ضمانت دی ہے۔ دریں اثنا، پونے میں مبینہ طور پر شیو سینا (یو بی ٹی) کی جانب سے لگائے گئے ایکناتھ شندے کے کارٹون والے پوسٹر پربھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

(بائیں سے) ایکناتھ شندے کا پونے میں لگا کارٹون، کنال کامرا اور ایکناتھ شندے۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: ایکس)

(بائیں سے) ایکناتھ شندے کا پونے میں لگا کارٹون، کنال کامرا اور ایکناتھ شندے۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو عبوری  پیشگی ضمانت دے دی ہے، جو 7 اپریل تک لاگو رہے گی۔ کامراسے متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے ضمانتی بانڈے بھرنے کو کہا گیا ہے۔

لائیو لاء کے مطابق ، کنال کامرا نے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے خلاف اپنے مبینہ ریمارکس کے لیے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے معاملے میں ٹرانزٹ پیشگی ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ان کی درخواست آج صبح (28 مارچ) ہنگامی سماعت کے تحت لی گئی۔

پچھلے کچھ دنوں سے کامرا اپنے نئے ویڈیو کی وجہ سے تنازعات میں ہیں۔ ایکناتھ شندے کے خلاف مبینہ ریمارکس پر کامراکے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اگرچہ کامرا نے اپنے شو میں شندے کا نام نہیں لیا تھا، لیکن شندے کے حامیوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا اور ممبئی کے اس اسٹوڈیو میں توڑ پھوڑ کی جہاں کامرا کا شو منعقد کیا گیا تھا۔

کامرا نے اسی شو کا ویڈیو 23 مارچ کو اپنے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کیا اور تنازعہ شروع ہوگیا۔

دریں اثنا، انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 26 مارچ کو پونے پولیس نے ایک اور ایف آئی آر درج کی ہے۔ یہ ایف آئی آر پونے میں الکا ٹاکیز پل کے قریب لگائے گئے پوسٹر کے سلسلے میں درج کی گئی ہے۔ پوسٹر پر ایکناتھ شندے کا کارٹون بنا تھا۔

کامرا کے خلاف مقدمہ کس نے درج کرایا؟

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، کامرا کی پیشگی ضمانت کی درخواست اس زیرو ایف آئی آر سے متعلق ہے، جو شیوسینا کے ایم ایل اے مراری پٹیل کی طرف سے ان کے خلاف درج کرائی گئی تھی۔ ایف آئی آر بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 (1) (بی) (عوامی طور پر شرپسندی)، 353 (2) اور 356 (2) (ہتک عزت) کے تحت درج کی گئی تھی۔ بعد میں یہ معاملہ ممبئی کے کھار پولیس اسٹیشن کے حوالے کردیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کامرا تمل ناڈو کے ویلوپورم ضلع کے مستقل رہائشی ہیں۔ لہذا، ان کی ضمانت کی عرضی مدراس ہائی کورٹ میں دائر کی گئی، کیونکہ یہ ان کی رہائش گاہ کے عدالتی دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

پوسٹر کس نے لگایا؟

پونے پولیس نے ایکناتھ شندے کے کارٹون والے پوسٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ یہ ایف آئی آر پونے میونسپل کارپوریشن کے افسر راجندر کیوٹے کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔ یہ شکایت 26 مارچ کو وشرام باغ پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔

پوسٹر میں ایکناتھ شندے کا کارٹون تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا مہاراشٹر میں ‘تھانے، رکشہ، چشمہ، داڑھی، گوہاٹی اور غدار’ جیسے الفاظ پر پابندی لگا دی گئی ہے؟ یہ پوسٹر کنال کامرا کے شو اور اس سے جڑے تنازعات کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ کامرا نے اپنے شو میں ایک پیروڈی گانا گایا تھا جس میں  یہ الفاظ  استعمال کیے گئےتھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ پوسٹر شیو سینا (اُدھو ٹھاکرے) کی پونے یونٹ نے لگایا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مہاراشٹر پریوینشن آف ڈیفیسمنٹ آف پراپرٹی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

Next Article

یوپی میں عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر پابندی – یوگی حکومت کا امتیازی رویہ

میرٹھ پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔ یوپی کے تمام اضلاع میں عوامی مقامات پر نماز پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے برعکس، کانوڑ یاترا سمیت دیگر ہندو مذہبی تقریبات کے دوران یوپی حکومت خصوصی سہولیات فراہم کرتی رہی ہے، جو اس کے دوہرے اور متعصبانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔

[علامتی تصویر: Public.Resource.Org/Flickr (CC BY 2.0)]

[علامتی تصویر: Public.Resource.Org/Flickr (CC BY 2.0)]

نئی دہلی: ایک ماہ کے روزے کے بعد منایا جانے والا تہوار عید الفطر اب قریب ہے۔ ادھر ملک کی سب سے بڑی ریاست (اتر پردیش) کی پولیس حفاظتی انتظامات کے نام پر دوہرا معیار اپناتی نظر آرہی ہے۔ کانوڑ یاترا کے لیے سڑک خالی کروانے  والی اتر پردیش پولیس اب سڑک پر نماز پڑھنے پر پابندی لگا رہی ہے۔

میرٹھ میں پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پولیس نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، فوجداری مقدمات بھی درج کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاسپورٹ اور لائسنس منسوخ کرنے کی وارننگ بھی دی گئی ہے۔

بی جے پی کی حلیف جماعت کے سربراہ نے احتجاج کیا

اپوزیشن سے پہلے حکمران جماعت کی اتحادی جماعت کے رہنما اس فیصلے کی مخالفت کی۔ مرکزی وزیر اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے سربراہ جینت سنگھ چودھری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے، ‘ اآرویل کے پولیس 1984 جیسا پولیسیا کا رویہ!’

جینت جارج آرویل کے ناول ‘1984’ کی  تھاٹ پولیس کا حوالہ دے رہے تھے، جو نہ صرف لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے بلکہ ان کے خیالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔

دراصل، 1984 کا حوالہ استعمال کر کے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت اور پولیس حد سے زیادہ کنٹرول کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں شہریوں کے ذاتی حقوق اور مذہبی آزادی پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو، جینت چودھری کا یہ ٹوئٹ ایک علامتی احتجاج ہے، جس میں وہ یوپی پولیس کی اس پالیسی کا موازنہ ایک اورویلیائی ریاست سے کر رہے ہیں، جہاں حکومت لوگوں کی شخصی آزادی پر بے جا کنٹرول رکھتی ہے اور سخت سزاؤں کا سہارا لیتی ہے۔

کیا ہےمیرٹھ پولیس کا فرمان؟

بدھ (26 مارچ) کو میرٹھ پولیس نے آٹھ افراد کی فہرست ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر وجئے کمار سنگھ کو سونپی، جن پر گزشتہ سال عید کے دوران سڑک پر نماز پڑھنے کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے ان کے لائسنس اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔

میرٹھ شہر کے ایس پی آیوش وکرم سنگھ نے کہا، ‘ہم نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قریبی مساجد میں نماز ادا کریں یا وقت پر عیدگاہ پہنچ جائیں۔ ہم نے سخت ہدایات دی ہیں کہ کسی بھی صورت میں سڑکوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کچھ لوگوں نے سڑک پر نماز پڑھی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اگر اس بار بھی کوئی کھلے میں نماز پڑھتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہم لوگوں سے مسلسل اپیل کر رہے ہیں۔’

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال کانوڑ یاترا کے دوران پوری دہلی میرٹھ ایکسپریس 28 جولائی سے 4 اگست تک بند کی گئی تھی ۔

نماز کے حوالے سے صرف میرٹھ میں فرمان نہیں

نماز پر ایسی پابندیاں صرف میرٹھ میں ہی نہیں لگائی جا رہی ہیں بلکہ یوپی کے کئی اضلاع سے بھی ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ لوگوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ نہ صرف عوامی مقامات پر بلکہ اپنی چھتوں پر بھی نماز نہ پڑھیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار بشنوئی نے بتایا کہ پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے کے خلاف ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، ‘کوئی  بھی شخص سڑک پر نماز نہیں پڑھے گا۔ گھر پر اجتماعی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔’

علی گڑھ کے ایس پی مرگانک شیکھر پاٹھک نے کہا کہ عید کی نماز کو لے کر کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ ‘ہم اتر پردیش حکومت کی ایڈوائزری پر عمل کر رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ امن کمیٹی کا اجلاس بلا کر لوگوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں۔’

ہاتھرس کے ایس پی چرن جیو ناتھ سنہا نے کہا ہے کہ انہوں نے بھی کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا ہے۔ ‘ہم کسی بھی برادری کے کسی کو سڑکوں یا عوامی مقامات پر عبادت کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ایک تہوار کا دن ہے اور لوگ اسے اپنے گھروں میں منا سکتے ہیں۔’

غازی آباد پولیس نے کہا ہے کہ اگر بھیڑ زیادہ ہو جاتی ہے تو لوگوں سے شفٹوں میں نماز پڑھنے کو کہا جائے گا۔ ٹرانس ہندن ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تمام حساس علاقوں، مساجد اور عیدگاہوں کے قریب سیکورٹی فورسز کو تعینات کر دیا ہے… ڈرون کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔’

بتادیں کہ عام طور پر نماز کو مکمل کرنے میں 5 سے 10 منٹ لگتے ہیں، جبکہ کانوؑ یاترا پورے مہینے چلتی ہے۔ رام نوامی جیسی یاترا کئی گھنٹے اور لمبی دوری تک چلتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کی حکومت ہندو تہواروں میں جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے،سیکورٹی کے نام پر کوئی پابندی نہیں لگاتی بلکہ زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتی ہے۔

کمبھ اس کی تازہ ترین مثال ہے، جس کی وجہ سے الہ آباد کے آس پاس کے اضلاع میں بھی ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ کمبھ کی وجہ سے عام شہری کی زندگی درہم برہم ہوگئی تھی، لیکن اس کی وجہ سے حکومت نے کمبھ کو بند نہیں کیا۔ کانوڑ یاترا کے دوران مذہبی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف نان ویجیٹیرینز کی دکانیں بند کرائی گئیں بلکہ دیگر اشیاء فروخت کرنے والے مسلمان دکانداروں کو بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بعد میں عدالت کی مداخلت کے بعد ا س پر روک لگی۔

Next Article

ہندوستانی ریاست مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح  پیش کر رہی ہے

پہلے ہم ہندوتوا کے حامیوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد پھیلاتے ہوئے دیکھتے تھے، اب ہم پولیس اور انتظامیہ کو یہی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہندوستان کے ہندوائزیشن کا یہ آخری مرحلہ ہے، جہاں سرکاری مشینری مسلمانوں کو مجرم بنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

عید آ رہی ہے، کس دن ہوگی، یہ تو چاند پر منحصر ہے، لیکن ہمیں معلوم پڑا مسلمانوں کو دی گئی اتر پردیش پولیس کی دھمکی اور وارننگ سے۔ میرٹھ پولیس چیف نے کہا کہ کسی کو سڑک پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس کے باوجود کسی نے یہ جرٲت کی  تو اس کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

یہ الگ ہی سوال ہے کہ پولیس کو یہ دھمکی دینے کا اختیار کس نے دیا؟ پولیس یہ بھول گئی ہے کہ سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس کا نہیں۔ پاسپورٹ منسوخ کرنا بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پھر بھی وہ غیر قانونی وارننگ کیوں جاری کر رہی ہے۔

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کے دن الوداع نماز کے موقع پر سنبھل پولیس نے فرمان جاری کیا کہ کوئی اپنی چھت پر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ پور ےلاؤلشکر کے ساتھ پولیس سڑکوں پر گشت کرتی نظر آئی۔ تلک دھاری شخص ڈرون اڑا رہا تھا اور پولیس کے جوان انتہائی سنجیدگی سے اسے آسمان میں اڑتے ہوئےدیکھ رہے تھے۔

اگر آپ وہ ویڈیو دیکھیں گے تو  معلوم ہوگا کہ وہ کسی بھاری  دشمن کا سراغ لگا رہے ہیں۔ وہ بھی کھلے عام۔ اتر پردیش کے دیگر شہروں میں بھی پولیس نے کہا کہ سب کو عید گھر میں  منانی چاہیے۔ بہار میں بھی ہندوتوا لیڈروں نے یہ مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ہندوؤں کے جلوس اور اجتماع سے  کبھی انتظامیہ اور پولیس کو  پریشانی نہیں ہوئی

سڑک پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ اس کے لیے  دلیل پیش کی جارہی  ہے کہ اس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، حتیٰ کہ  ایمبولینس بھی نہیں جا پاتی ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر ہندو اس جھوٹ پر یقین کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ہم خاموش رہ جاتے ہیں۔

یہ دلیل بھی بے ایمانی ہے کہ ہم صرف عید کی نماز کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم سڑک پر کسی بھی طرح  کے تہوار کو غلط نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ پولیس کبھی بھی درگا پوجا، رام نومی، گنیش چترتھی، رتھ یاترا، کانوڑ یاترا کے دوران ایسی وارننگ جاری نہیں کرتی ہے۔ ہر منگل کو دہلی میں کئی جگہوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ لوگ سڑک کے کنارے ہنومان مندروں کے درشن  کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے  ہر کچھ دن پرلنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پولیس کبھی کچھ نہیں کہتی۔ سال بھر سڑکوں پر ہندوؤں کے جلوس اور اجتماع ہوتے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کو کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ اب ہندوستانی ریاست کے کارندے کہہ رہے ہیں کہ سڑکیں مسلمانوں کی  نہیں، عوامی مقامات مسلمانوں کے نہیں۔

گڑگاؤں میں کچھ سال پہلے کھلے اور خالی جگہوں پر مسلمانوں  کی نماز پر ہندوتوا گروپوں کے  حملوں کے ساتھ پولیس کھڑی ہوئی اور ان جگہوں سے مسلمانوں کابائیکاٹ کردیا گیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ اور وزراء نے کہا کہ کھلے میں نماز پڑھنا دراصل زمین پر قبضہ کرنے کی سازش ہے۔ کیا مسئلہ واقعی سڑک کا ہے؟

سنبھل میں ایک مؤذن کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس نے مسجد سے افطار کے وقت کا اعلان کیا۔ اس پر کسی  ہندو نے شکایت کر دی۔ تو کیا پولیس اب یہ ماننے لگی ہے کہ اذان یا افطار کے اعلان سے ہندوؤں کے کان گندے  ہوتے ہیں اور یہ جرم ہے؟

مسلمانوں کے ہر اجتماعی عمل کو ایک سازش اور جرم کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ ‘انڈین ایکسپریس’نے اپنے اداریے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ جس طرح انگریزوں نے کئی قبائل کو مجرم قرار دیا تھا، اسی طرح موجودہ ہندوستانی ریاست مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح پیش کر رہی ہے۔ وہ کہیں  مکان  خریدے،  کوئی دکان کھولے، چوڑی فروخت کرنے کے لیے گلیوں میں پھیری کرے، پڑھائی کرے، مقابلہ جاتی  امتحان میں کامیاب ہو، سب کچھ ہندوؤں کے حصے پر قبضہ کرنے کی مجرمانہ سازش ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے سال بھر پہلےہی  مسلمانوں کے لیے فلاحی اسکیموں کو ہندوؤں کا حصہ چھیننے کی سازش قرار دیا تھا۔

پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے

ہندو تہواروں کو تو مسلمانوں کی تذلیل اور ہراساں کرنے کا موقع بنا دیا گیا ہے۔ اناؤ میں محمد شریف کو اس لیے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا کہ وہ زبردستی رنگ لگانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اہل خانہ اور برادری کے لوگوں نے ان کے جنازہ کو کچھ دیر سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا۔ پولیس نے 117 مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ کیا اس ناانصافی  دیکھ پانا اتنا مشکل ہے؟

اس پورے معاملہ میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جہاں پہلے ہم بی جے پی کے لوگوں یا ہندوتوا کے حامیوں کو مسلم مخالف نفرت پھیلاتے اور تشدد میں ملوث دیکھتے تھے، اب ہم پولیس اور انتظامیہ کو ایسا ہی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ہندوستان کے ہندوائزیشن کا آخری مرحلہ ہے، جس میں ریاستی مشینری مسلمانوں کو مجرم بنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

میرے ایک نوجوان مسلمان دوست نے ٹھیک ہی کہا کہ اب انتظامیہ اور پولیس ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور کرنے کا کام کر رہی ہے۔ سنبھل میں پولیس نے ہولی کے موقع پر بھی جس طرح سے مسلمانوں کوجمعہ کی نماز گھر پر ادا کرنے کو کہا، ایسا لگتا ہے کہ ہندو اور مسلمان سڑکوں پر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اب ریاست خود ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر رہی ہے۔

پولیس اور انتظامیہ اب آر ایس ایس سے زیادہ ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تئیں خوف اور نفرت پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو اس کا سامنا یا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے؟ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہندوؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ اس نفرت انگیز انتظامی رویہ سے متفق ہیں؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)