آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرکٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
حراست میں محمد زبیر۔ فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مبینہ طور پر ‘مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے الزام میں سیتا پور میں درج ایف آئی آر کے سلسلے میں ملزم آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی عبوری ضمانت میں منگل کو اگلے حکم تک توسیع کردی ہے۔
اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور اے ایس بوپنا کی بنچ کو بتایا کہ وہ سیتا پور میں درج ایف آئی آر کو خارج کرنے کو لےکر محمد زبیر کی طرف سے دائر عرضی کے خلاف ایک حلف نامہ داخل کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے بعد، بنچ نے صحافی زبیر کی الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کو چیلنج دینے والی عرضی کو حتمی سماعت کے لیےتقریباً دو مہینے بعد سات دسمبر کے لیےلسٹ کیا اور اتر پردیش حکومت سے کہا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرے۔
بتادیں کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے مبینہ طور پرایک ٹوئٹ میں کٹر ہندوتوا رہنماؤں یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔ اس سلسلے میں یکم جون کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بنچ نے 8 جولائی کو اس کیس میں زبیر کو پانچ دن کے لیے عبوری ضمانت دی تھی۔
ملک کے سرکردہ فیکٹ چیکرس میں سے ایک زبیر، جو فرضی خبروں کوخارج کرنے والی جانکاریاں ٹوئٹ کرنے کے لیےمعروف ہیں، کے خلاف دہلی اور اتر پردیش پولیس نے دو ہفتوں کے اندر کئی مقدمے درج کیے ہیں۔
زبیراس وقت چار مقدمات کا سامناکر رہے ہیں- جس میں فلم کے ایک سین کے اسکرین شاٹ کو 2018 میں ٹوئٹ کرنے کے لیے ٹوئٹر پر ایک گمنام اکاؤنٹ کی طرف سے درج کی گئی شکایت پر دہلی پولیس نے ایف آئی آر درج کی، مبینہ ایف سی آر اے کی خلاف ورزی کا معاملہ، مئی 2022 کے ٹوئٹ اور 2021 میں سدرشن نیوز کی جھوٹی خبر کے خلاف ٹوئٹ کے لیےیوپی پولیس کی دو ایف آئی آر۔
محمد زبیر کو گزشتہ 27 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
زبیر کی گرفتاری 2018 کے اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
اس سلسلے میں دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق، ٹوئٹر صارف ہنومان بھٹ نے سال 2018 میں زبیر کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک فلم کے اسکرین شاٹ والے ٹوئٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ ، ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔
بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو
ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
اب یہ ہینڈل دوبارہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے ،تاہم زبیر سے متعلق ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
دریں اثنا،
دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔
زبیر کی گرفتاری گجرات میں ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے کنوینر وکاس اہیر سے جڑے گمنام اور غیرمصدقہ اکاؤنٹ کے ایک نیٹ ورک کی برسوں سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔
زبیر کی ضمانت کی عرضی پر 14 جولائی کو سماعت کرے گی دہلی کی عدالت
منگل کو ہی دہلی کی ایک عدالت نے 2018 کے ٹوئٹ سے متعلق کیس میں محمد زبیر کی ضمانت عرضی پر 14 جولائی کو سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جانگلا نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔ استغاثہ نے کیس میں تفصیلی دلائل کے لیے مہلت مانگی تھی۔
ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شامل ہوئےاسپیشل پبلک پراسیکیوٹر اتل سریواستو نےعدالت سے معاملے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ زبیر کے خلاف دائر دیگر مقدمات کی سماعت منگل کو سپریم کورٹ میں ہونی ہے۔
اس کے بعد زبیر کی وکیل ورندا گروور نے عدالت سے درخواست کی کہ معاملے کی سماعت بدھ کو ہی کی جائے۔ اس پر اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ بھوپال میں ہیں اور بدھ کو سماعت کے لیے حاضر نہیں ہو سکیں گے۔
گروور نے دلیل دی کہ اگر سریواستو نہیں ہیں، تو کیس کسی اور پراسیکیوٹر کو سونپ دیا جائے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ضمانت عرضی دائر کی گئی ہے۔ یہ کسی کی آزادی کا سوال ہے۔ معاملے کی سماعت کل ہو۔ وہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیش ہو سکتے ہیں۔
سریواستو نے پھر کہا کہ معاملہ 14 جولائی کے لیے لسٹ کیا جائے، جس کی جج نے اجازت دےدی۔
غور طلب ہے کہ 2 جولائی کو مجسٹریل کورٹ نے زبیر کی ضمانت عرضی خارج کر دی تھی اور 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ عدالت نے زبیر کے خلاف الزامات کی نوعیت اور سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ تحقیقات کے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)