سی آر پی سی کی دفعہ41 (اے)کے تحت بھیجے گئے نوٹس میں فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’ کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
ایودھیا کے کلکٹر (دائیں)، پجاریوں اور دیگر لوگوں کےساتھ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ملک گیر لاک ڈاؤن کے بیچ اتر پردیش پولیس نے جمعہ کو ‘د ی وائر’ کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کو نوٹس بھیجا اور منگل، 14 اپریل کو ایودھیا پولیس اسٹیشن میں پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔یہ
نوٹس کچھ پولیس والے وردراجن کے دہلی واقع رہائش گاہ پر لےکر آئے۔ ان میں سے کچھ نے بتایا کہ وہ یہ نوٹس دینے کے لیے ایودھیا سے 700 کیلومیٹر کی دوری طے کرکے آئے ہیں۔
بتا دیں کہ، آئندہ 14 اپریل تک ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے اور اس دوران لوگوں کی آمد ورفت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ان پابندیوں کے بڑھنے کے بھی امکانات ہیں۔سی آر پی سی کی دفعہ41 (اے)کے تحت بھیجے گئے نوٹس میں فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
یہ ان دو ایف آئی آر میں سے ایک ہے، جنہیں فیض آباد کےرہنے والے دو لوگوں کی شکایتوں پر درج کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایف آئی آر میں شکایت گزار نے وردراجن کے نامعلوم ٹوئٹ پراعتراض کیا ہے۔وہیں، ایف آئی آر کے مطابق، دوسرے شکایت گزارنے کہا ہے، اپنے بلاگ پر ‘دی وائر’ ایڈیٹر نے عوام کے بیچ افواہ اور دشمنی پھیلانے کے مقصد سے مندرجہ ذیل پیغام مشتہر کیا:
‘جس دن تبلیغی جماعت کا انعقاد ہوا تھا، اس دن یوگی آدتیہ ناتھ نے زور دےکر کہا تھا کہ 25 مارچ سے 2 اپریل تک رام نومی کے موقع پر ایودھیا میں منعقد ہونے والا ایک بڑا میلہ پہلے کی طرح منعقد ہوگا۔ جبکہ آچاریہ پرم ہنس نے کہا تھا کہ بھگوان رام بھکتوں کی کو رونا وائرس سے حفاظت کریں گے۔ 24 مارچ کو مودی کے ذریعے کرفیو جیسا ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کئے جانے کے ایک دن بعد آدتیہ ناتھ نے سرکاری ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درجنوں دوسرے لوگوں کے ساتھ ایودھیا میں مذہبی تقریب میں حصہ لیا۔’
حالانکہ، اس میں مدیر کے نام کا ذکر نہیں تھا۔ ایف آئی آر میں مذکوربیان کے حقائق پر مبنی ہونے اور میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کئے جانے کے باوجود پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ اس کی جانکاری آدتیہ ناتھ کے میڈیا صلاح کار نے ٹوئٹر پر شیئر کی تھی جس میں ایف آئی آر کی دو کاپیاں بھی شامل تھیں۔
حالانکہ، ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے، لیکن اس میں جن لفظوں کاذکر کیا گیا ہے وہ گزشتہ31
مارچ کو ‘دی وائر’ پر شائع ایک خبر کی ہے جس میں دہلی میں تبلیغی جماعت کے کیمپس کو سیل کئے جانے کی اسٹوری تھی۔اس خبر میں پہلے پرم ہنس کے غلط بیان کا ذکرکیا گیا لیکن بعد میں خبر میں اصلاح کی گئی تھی اور خبر میں اس کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ وردراجن نے اس بارے میں سوشل میڈیا پر عوامی طور پر ایک صفائی بھی دی تھی۔
دہلی یونیورسٹ ی میں سوشل سائنس کی پروفیسر اور وردراجن کی بیوی نندنی سندر نے جمعہ دوپہر کو ان کے گھر پر جب پولیس پہنچی تو کیا ہوا،
یہ بتاتے ہوئے کئی ٹوئٹ کئے:انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ کے وقت بھی اتر پردیش کی آدتیہ ناتھ سرکار پولیس کی طاقت کا غلط استعمال کرنے سے بازنہیں آ رہی ہے اور پریس فریڈم پر حملہ کر رہی ہے۔
نندنی نے کہا، ’10 اپریل کو دو بجے سادہ لباس میں دو لوگ ہمارے گھر آئے کہا کہ وہ سدھارتھ وردراجن کو نوٹس دینے کے لیے ایودھیاانتظامیہ سے آئے ہیں۔ اس نے اپنا نام نہیں بتایا۔ میں نے اس سے نوٹس میل باکس میں چھوڑنے کو کہا تو اس نے منع کر دیا۔ 3.20 بجے وہ 7-8 وردی پہنے لوگوں کے ساتھ آیا جس میں سے دو لوگوں نے ماسک نہیں لگایا تھا۔ وہ کالے رنگ کی ایس یووی میں آئے جس پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھا۔ بہت زور دینے پر سادہ لباس والے شخص کا نام چندر بھان یادو بتایا گیا لیکن اس کاعہدہ نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بے حد ضروری کام کے لیے ایودھیا سے آئے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘انہوں نے مجھے یہ کہتے ہوئے نوٹس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ خواتین اور نابالغوں نے دستخط کرانے کا ہمارا اصول نہیں ہے۔ حالانکہ، جب اصول دکھانے کا کہا گیا تب انہوں نے فون پر بات کرنے کے بعد مجھے دستخط کرنے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے باس کو فون کر کےکہا کہ نوٹس لے لیا گیا ہے۔’
بتا دیں کہ، گزشتہ 3 اپریل کو ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے وردراجن کے خلاف
درج ایف آئی آر کو غیر ضروری اور دھمکی قرار دیا تھا۔د ی نیویارک واقع کمیٹی فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ، ساؤتھ ایشیا میڈیا ڈفینڈرس نیٹ ورک اور دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یوجے) نے ‘دی وائر’ اور اس کے بانی مدیر کے خلاف معاملوں کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کئے ہیں اور مانگ کی ہے کہ انہیں واپس لے لیا جائے۔