دی وائر کے بانی مدیران نے بدھ کو ایک بیان جاری کر کے کہا کہ یوپی پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر جائز اظہار اور حقائق پر مبنی جانکاری پر حملہ کرنے کی کوشش ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ بدھ کو اتر پردیش پولیس نے ایک شخص کی شکایت پر دی وائر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188 اور 505(2) کے تحت کیس درج کیا ہے۔دفعہ 188 کے تحت سرکاری حکم کی خلاف ورزی اور دفعہ 505(2) کے تحت مختلف کمیونٹی کے بیچ دشمنی اورنفرت کے پیدا کرنے کے مقصد سے جانکاری کی اشاعت کے الزام میں سزا کااہتمام ہے۔
ایف آئی آر میں خبر کے ایک پیراگراف کا ذکر کیا گیا، جس کی بنیاد پر یہ الزام لگائے گئے ہیں۔ حالانکہ ایف آئی آر میں خبر کی ہیڈ لائن اور ڈیٹ لائن کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔
دی وائر کےبانی مدیران نے اس کو لےکر ایک بیان جاری کیا ہے جو یہاں دیا جا رہا ہے۔
Statement by the Founding Editors of The Wire: pic.twitter.com/frw5oRxw18
— The Wire (@thewire_in) April 1, 2020
دی وائر کے بانی مدیران کا بیان
ہمیں سوشل میڈیا کےتوسط سے پتہ چلا ہے کہ فیض آباد میں یوپی پولیس نے دی وائر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188 اور 505 (2) کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔
ایف آئی آر میں دی گئیں دلیلیں دکھاتی ہیں کہ ان الزامات سے دوردور تک ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ حقائق پر مبنی جانکاری اور جائز اظہار پر حملہ کرنے کی کوشش ہے۔
ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یوپی پولیس کا کام وزیر اعلیٰ کی تنقید کرنے والوں کے پیچھے پڑنا ہی رہ گیا ہے۔ ایف آئی آر درج کرنا پریس کی آزادی پر سیدھا حملہ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے پچھلے سال جون 2019 میں سپریم کورٹ کی ان ہدایات سے کچھ سیکھا نہیں ہے جس میں کورٹ نے ایک ٹوئٹ کی وجہ سے یوپی پولیس کے ذریعے کی گئی ایک صحافی کی گرفتاری کو خارج کیا تھا اورفوراًہا کرنے کاحکم دیا تھا۔
کورٹ نے کہا تھا کہ آزادی کا حق ایک بنیادی حق ہے اور اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ایف آئی آر میں جو کہا گیا ہے کہ ہم نے کہا ہے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے 25 مارچ کو، وزیر اعظم کے ذریعے کوروناوائرس سے نپٹنے کے لیے کئے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد ایودھیا میں ایک عوامی مذہبی تقریب میں حصہ لیا تھا ایک مصدقہ بات ہے۔