گورکھپور کے گورکھ ناتھ مندر کے گیٹ پر مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے ایک نوجوان نے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور دو سیکورٹی گارڈز پر تیز دھار ہتھیار سے حملہ کر دیا۔ نوجوان کی شناخت احمد مرتضیٰ عباسی کے طور پر کی گئی ہے جس نے آئی آئی ٹی ممبئی سے انجینئرنگ کی ہے۔
نئی دہلی: اتوار کی شام گورکھپور کے گورکھ ناتھ مندر کے جنوبی دروازے پر ایک نوجوان نے مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور سیکورٹی میں تعینات پی اے سی کے دو کانسٹبلوں کو تیز دھاردار ہتھیار سے زخمی کر دیا۔
سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے پکڑنے کی کوشش میں یہ شخص بھی زخمی ہوگیا۔ ملزم کی شناخت 29 سالہ احمد مرتضیٰ عباسی کے طور پر ہوئی ہے۔ اس نے 2015 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) ممبئی سے کیمیکل انجینئرنگ کی ہے۔
واقعے کے بعد عباسی کو اسپتال میں داخل کرایا گیا، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ اسے کوئی چوٹ آئی ہے۔
تاہم اتر پردیش حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے جبکہ نوجوان کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے اس لیے اسے ممبئی سے واپس لانا پڑا۔
قابل ذکر ہے کہ گورکھ ناتھ مندر ناتھ فرقہ کا سب سے اونچا پیٹھ ہے اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس پیٹھ کے مہنت ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، واقعے کےویڈیو میں نوجوان کو مندر کے باہر تیز دھار دارہتھیار لہراتے ہوئے اور چیختے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سی سی ٹی وی کے زیادہ تر زاویوں سے دیکھنے پر وہ واضح طور پر نظر نہیں آتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے لوگوں کے ہجوم میں غائب ہو جاتا ہے۔ ہجوم میں ایک آدمی ہاتھوں میں لاٹھی لیے نظر آتا ہے، دوسرے اس پر پتھر پھینکتے نظر آرہے ہیں۔
اس واقعہ کے تعلق سے گورکھپور زون کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی) اکھل کمار نے بتایا کہ ایک تیز دھار دار ہتھیار سے لیس شخص نے مذہبی نعرے لگاتے ہوئے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پی اے سی کے دو کانسٹبلوں کو زخمی کردیا۔ وہ گیٹ کے قریب پی اے سی چوکی پر بھی گیااور پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
تاہم پولیس نے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پکڑ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے حملے میں کانسٹبل گوپال کمار گوڑ اور انل پاسوان زخمی ہو گئے۔ انہیں گرو گورکھ ناتھ اسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد بی آر ڈی میڈیکل کالج اسپتال ریفر کردیا گیا۔
اے ڈی جی نے بتایا کہ اس دوران وہ شخص بھی زخمی ہوا اور وہ بھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس شخص کا نام مرتضیٰ ہے اور وہ گورکھپور کا رہنے والا ہے۔
کمار نے کہا کہ یہ ایک سنگین واقعہ ہے اور ہر پہلو پر تحقیقات کے بعد سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اکثر یہاں آتے ہیں اور اس نقطہ نظر سے بھی اس معاملے کے ہر پہلوکی جانچ کی جا رہی ہے۔
مندر کے گیٹ کے قریب تعینات ٹریفک کانسٹبل رمیش سنگھ نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ اچانک کیوں آیا اور مندر کے گیٹ پر تعینات پی اے سی کےنسٹیبل پر حملہ کردیا۔
گورکھ ناتھ مندر کے ملازم ونے کمار گوتم نے بتایا کہ ایک شخص نے مندر کے گیٹ پر مذہبی نعرے بازی کی اور پی اے سی کے دو کانسٹبلوں کو تیز دھار دارہتھیار سے زخمی کر دیا اور وہ ہتھیار کو گمچھے میں چھپا رہا تھا۔
اس واقعہ کے بعد سوموار کو ہی ایڈیشنل چیف سکریٹری ہوم اونیش اوستھی اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پرشانت کمار نے لکھنؤ میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ پولیس اہلکاروں پر حملہ ایک سنگین سازش کا حصہ ہے اور دستیاب حقائق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہےکہ یہ دہشت گردانہ واقعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ، حملہ آور دہشت گردی کے واقعے کو انجام دینے کی نیت سے مندر کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا جسے پی اے سی اور پولیس اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔
حکام نے بتایا کہ حملہ آور نے اس واقعے میں پی اے سی کے دو اہلکاروں کو شدید طور پرزخمی کر دیا ہے۔
اوستھی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس واقعہ کی تحقیقات یوپی اے ٹی ایس کو سونپنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی اے ٹی ایس اور یوپی ایس ٹی ایف کی دونوں ایجنسیوں کو اس واقعہ کا پتہ لگانے کے لئے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور دونوں ایجنسیوں کے سینئر افسران گورکھپور پہنچ چکے ہیں۔
اوستھی نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حملے کو ناکام بنانے والے پی اے سی کے جوانوں گوپال گوڑ اور انل پاسوان اور پولیس جوان انوراگ راجپوت کو 5 لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
اوستھی نے کہا کہ ملزم کے لیپ ٹاپ اور موبائل کی سنجیدگی سے جانچ کی جائے گی اور اس بات کا پتہ لگایا جائے گا کہ اس کا تعلق کس سے ہے۔
گورکھپور میں حکام نے بتایا کہ حملہ آور کو دن میں ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے اسے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔
اس دوران وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور پہنچے اور بی آر ڈی میڈیکل کالج پہنچ کر حملے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی خیریت دریافت کی۔
وہیں، پریس کانفرنس کے دوران ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پرشانت کمار نے کہا کہ ملزم کے پاس سے کئی مشتبہ چیزیں برآمد ہوئی ہیں، جو کسی سنگین سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
کمار نے کہا کہ ملزم سے جو دستاوی برآمد ہوئے ہیں وہ کافی سنسنی خیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
کمار نے کہا کہ پولیس پر حملے کے سلسلے میں گورکھ ناتھ پولیس اسٹیشن میں ایک کیس درج کیا گیا ہے، جبکہ ایک اور کیس تیز دھار ہتھیار کے استعمال سے متعلق درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملزم مندر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے تو عقیدت مندوں کو نقصان اٹھانا پڑتا اور حالات قابو سے باہر ہو جاتے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے اتوار کو اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے مندر کے احاطے میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔
وہیں، وقت گورکھپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) وپن ٹاڈا نے کہا کہ حملہ آور کے خلاف دفعہ 307 (قتل کی کوشش) سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اسے ریمانڈ پر لے کر پانچ ٹیمیں پوچھ گچھ کریں گی۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ حملہ آور سے ملنے والی جانکاری کی تصدیق کے لیے کئی پولیس ٹیم دوسرے اضلاع میں بھیجی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کے قبضے سے برآمد ہونے والے سامان، اس کے خاندان، رشتہ داروں اور پس منظر کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے اور جانچ رپورٹ کی بنیاد پر مزید کارروائی کی جائے گی۔
اس بیچ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، نوجوان کے والد منیر مرتضیٰ کا دعویٰ ہے کہ نوجوان کالج کے وقت سے ہی ڈپریشن میں تھا اور خودکشی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا،وہ لگاتار بیمار رہتا ہے۔ وہ کام پر بلاوجہ ہی چھٹیاں لیتا تھا۔ جب میں ریٹائر ہوا تو میں اسے واپس گورکھپور لے آیا کیونکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔
مرتضیٰ گریجویشن کے بعد دو سال قبل تک ممبئی کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔
وہیں، اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے کہا ہے کہ ملک کو بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کی وجہ سے نہیں بلکہ ‘انتہا پسند ذہنیت’ کی وجہ سے خطرہ ہے جو گورکھ ناتھ مندر میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کے پیچھے تھی۔
پارلیامنٹ ہاؤس کمپلیکس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے سنگھ نے الزام لگایا کہ ،ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خطرہ انتہا پسندانہ ذہنیت ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے۔ کبھی یہ شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے، کبھی حجاب کے ساتھ احتجاج کرتی ہے، کبھی ترمیم شدہ شہریت قانون کی مخالفت کرتی ہے اور دوسری طرف ایک پڑھا لکھا شخص دہشت گرد کی طرح کام کرتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)