یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی اتر پردیش حکومت نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کو منظوری دی ہے، جس کے تحت حکومت ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی حوصلہ افزائی کرے گی، جو ان کے کام کو مثبت کوریج دیں گے۔
یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/MYogiAdityanath)
نئی دہلی: یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی اتر پردیش حکومت نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کو منظوری دے دی ہے۔ اس پالیسی کے تحت یوپی سرکار ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی حوصلہ افزائی کرے گی، جو ان کے کام کو مثبت کوریج دیں گے۔
وہیں، ریاستی حکومت اس پالیسی کا استعمال ایسے مواد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے بھی کرے گی ، جو اس کی رائے میں ‘قابل اعتراض ‘ یا ‘اینٹی نیشنل’ ہوگا ۔
ایک بیان میں ریاستی محکمہ اطلاعات کے پرنسپل سکریٹری سنجے پرساد نے لکھا ہے ، ‘کسی بھی حالت میں مواد غیر مہذب ، فحش یا اینٹی نیشنل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘
حکومت کا کہنا ہے کہ ، ‘ریاست کی مختلف ترقیاتی ، عوامی بہبود / فلاحی اسکیموں / حصولیابیوں کے بارے میں معلومات اور اس کے فوائد کو لوگوں تک ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز اور اسی طرح کے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے توسط سے پہنچانے کے لیے اترپردیش ڈیجیٹل میڈیا پالیسی ، 2024 تیار کی گئی ہے۔‘
ریاستی کابینہ نے منگل 27 اگست کو اتر پردیش نیو ڈیجیٹل میڈیا پالیسی 2024 کو منظوری دی ہے۔
ایک طرف، نئی پالیسی میں فیس بک ، انسٹاگرام ، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور یوٹیوب جیسی سائٹس پر ‘قابل اعتراض مواد ‘ اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ وہیں دوسری طرف ، یہ پالیسی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کےساتھ ساتھ’انفلوئنسرز’ کو ریاستی حکومت کی ‘حصولیابیوں’ کی تشہیر کرنے پر انہیں اشتہارات دینے کا وعدہ کرتی ہے ۔
معلوم ہو کہ سوشل میڈیا صارفین جن کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد ہے، اورجوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں ڈیجیٹل انفلوئنسرز کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی رسائی کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعات ، نظریات یا سیاسی عقائد کی توثیق کرنے یا ان سے پیسہ کمانے کے لیےکرتے ہیں ۔
حالیہ برسوں میں ، حکمران بی جے پی نے اپنے سیاسی اہداف کے مطابق ان مواد بنانے والوں (کنٹینٹ کریئٹرس)کے ایک بڑے حصے کو چینلائز کیا ہے۔ تاہم ، اب بھی بی جے پی کو کچھ آزاد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور افراد کی جانب سے تنقیدی کوریج کا سامنا لرنا پڑتاہے۔
کتنی کمائی ؟
اب ، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم اور انفلوئنسرز سرکار کےترقیاتی کاموں اور اسکیموں کی ‘حصولیابیوں’ کو فروغ دینے والی ویڈیوز بنا کر ماہانہ 8 لاکھ روپے تک کما سکتے ہیں ۔
سنجے پرساد نے کہا ہے ، ‘ڈیجیٹل میڈیم جیسےایکس(سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک ، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بھی ریاستی حکومت کی اسکیموں / حصولیابیوں پر مبنی مواد / ویڈیوز / ٹوئٹ / پوسٹ / ریلیز کو مشتہر کرنے کے لیے متعلقہ ایجنسی/ فرم کو اشتہارات جاری کرنے کی غرض سے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ‘
حکومت کا خیال ہے کہ اس پالیسی سے ملک کے مختلف حصوں یا بیرون ملک مقیم ریاست کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کس کو کتنی رقم ملے گی ، حکومت نے ایکس ( سابقہ ٹوئٹر )، فیس بک ، انسٹاگرام اور یوٹیوب میں ہر ایک کوسبسکرائبرز / فالورز کی بنیاد پر 04 کیٹیگریز میں تقسیم کیا ہے ۔
سنجے پرساد نے پریس نوٹ میں لکھا ہے ، ‘ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک ، انسٹاگرام کے اکاؤنٹ ہولڈرز / آپریٹرز /انفلوئنسرز کو ادائیگی کے لیے زمرہ کے لحاظ سے ادائیگی کی حد بالترتیب 5.00 لاکھ ، 4.00 لاکھ ، 3.00 لاکھ اور 2.00 لاکھ فی ماہ طے کی گئی ہے۔ یوٹیوب پر ویڈیو / شارٹس / پوڈ کاسٹ ادائیگی کے لیے زمرہ وار ادائیگی کی حدیں بالترتیب 8.00 لاکھ ، 7.00 لاکھ ، 6.00 لاکھ روپے اور 4.00 لاکھ روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہیں ۔ ‘
اپوزیشن کا احتجاج
کانگریس نے بی جے پی حکومت پر اپنی نئی پالیسی کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا پر ’قبضہ‘ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یوپی کانگریس نے فیس بک پر لکھا ہے ، ‘یو پی حکومت سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے ایک نئی اسکیم لے کر آئی ہے۔ اس کے مطابق حکومت کے کام کی تشہیر کرنے والوں کو ماہانہ 8 لاکھ روپے تک مل سکتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ، ڈیجیٹل میڈیا پر سرعام قبضہ۔ حکومت اب بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے میڈیا کو کھلے عام گود لینے کو آمادہ ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں تو کیا ہے ؟‘
وہیں بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کا جواز پیش کرتے ہوئےکہا کہ یہ سماج میں ہونے والی تبدیلیوں پر توجہ دینے کے پارٹی کے ہدف کے مطابق ہے۔
ترپاٹھی نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے مقصد کو دہراتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ‘اچھا کام ‘ کر رہے ہیں انہیں روزگار کے وسیلے کے طور پر اشتہارات دیے جائیں گے ، جبکہ وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلاتے ہیں ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑتے ہیں’امن و امان کے حوالے سے خطرہ پیدا کرتے ہیں’ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
ترپاٹھی نے کہا کہ یوپی کی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی باقی ملک کے لیے ایک مثال قائم کرے گی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )