اتر پردیش میں سال 2020-21 میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کے خلاف متنازعہ قانون متعارف کرائے جانے کے بعد تبدیلی مذہب کے حوالے سے سزا کا یہ پہلا بڑا معاملہ ہے۔
نئی دہلی: لکھنؤ کی ایک عدالت نے بدھ (11 ستمبر) کو مغربی اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز اسلامی اسکالر سمیت 12 لوگوں کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔وہیں ، کئی ریاستوں میں غیر قانونی طریقے سے ہندوؤں کو اسلام میں داخل کرنے کاسنڈیکیٹ چلانے کے لیےقصور وار پائے جانے کے بعد چار دیگر کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ سال 2020-21 میں ریاست میں غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کے خلاف متنازعہ قانون متعارف کرائے جانے کے بعد اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب کے حوالے سے سزا کی یہ پہلی بڑی مثال ہے۔
اس معاملے میں 16 افراد کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے ساتھ ساتھ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دیگر دفعات کے تحت مجرم ٹھہرایا گیا ہے، جو مذہب کی بنیادپر نفرت کو فروغ دینے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور بے ایمانی کرنے سے متعلق ہیں۔
ان 16 میں سے 12 افراد کو ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 121 اے کے تحت مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عمر قید کی سزا پانے والوں میں ممتاز اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی اور دہلی میں اسلامک دعوۃ سینٹر (آئی ڈی سی) انڈیا چلانے والے مولانا عمر گوتم شامل ہیں۔ گوتم فتح پور میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس معاملے میں یوپی کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے انہیں 2021 میں گرفتار کیا تھا۔ صدیقی پر مبینہ تبدیلی مذہب کے ریکیٹ کا ‘ماسٹر مائنڈ’ ہونے اور گوتم پر ‘سرغنہ’ ہونے کا الزام تھا۔ اس وقت دونوں نے جبراً یا غیر قانونی تبدیلی مذہب کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔
سال 2022 میں نچلی عدالت میں ضمانت کی درخواست کرتے ہوئے گوتم نے کہا تھا کہ قانونی عمل کے بعد اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کرنے والے لوگ ان کے ادارے میں کلمہ پڑھنے آتے تھے۔
گوتم اور ان کے بیٹے عبداللہ عمر کو بھی غیر ملکی کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ 2010 کی دفعہ 35 کے تحت مبینہ طور پر اپنے غیر ایف سی آر اے اکاؤنٹس میں غیر ملکی افراد اور اداروں سے غیر قانونی طور پر موٹی رقم حاصل کرنے کے لیے بھی مجرم قرار دیا گیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ یہ رقم مبینہ طور پر غیر قانونی تبدیلی مذہب اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔
گوتم کی تنظیم آئی ڈی سی انڈیا پر بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب اور اس کے لیے غیر ملکی پیسہ استعمال کرنے کا الزام تھا۔
سزا کا اعلان کرتے ہوئے این آئی اے اے ٹی ایس عدالت کے خصوصی جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے حکم دیا کہ غیر قانونی تبدیلی مذہب کے متاثرین – آدتیہ گپتا اور موہت چودھری – کو 2021 ایکٹ کے تحت 2 لاکھ روپیہ معاوضہ کے طور پرادا کیا جائے۔
اس معاملے میں تفصیلی فیصلے کا ابھی انتظار ہے۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف لگائے گئے الزامات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ لالچ دے کر اور مذہبی غلط بیانی کے ذریعے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو مسلمان بنا رہے تھے۔
واضح ہو کہ جون 2021 میں یوپی اے ٹی ایس نے گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی کو نوکری، پیسہ، شادی کا لالچ دےکر ذہنی دباؤ بناکر بڑے پیمانے پر اسلام قبول کروانے کے الزام میں نئی دہلی سے گرفتار کیا تھا۔
ان کے اور ان کی تنظیم آئی ڈی سی انڈیا کے خلاف غیر قانونی تبدیلی مذہب ، دھوکہ دہی، مجرمانہ سازش، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور مذاہب کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے تفتیش کے دوران اورلوگوں کو گرفتار کیا اور آخر کار 17 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔
اس معاملے میں ادریس قریشی نامی شخص کے خلاف قانونی کارروائی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے روک لگا دی ہے۔
اس کیس میں ملزم 17 افراد مختلف ریاستوں سے تھے، جن میں سات اتر پردیش (بشمول صدیقی، گوتم اور گوتم کے بیٹے عبداللہ عمر)، چار مہاراشٹر سے، تین دہلی سے اور ایک ایک گجرات، ہریانہ اور بہار سے تھے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب کے مقدمے کے کچھ ملزمان امریکی بنیاد پرست اسلامی مبلغ انور العولقی کے لٹریچر سے متاثر پائے گئے ، جن کا تعلق اسلامی دہشت گرد گروپ القاعدہ سے تھا۔ اس بنیاد پر حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے یا جنگ چھیڑنے کی کوشش کرنے یا جنگ بھڑکانے اور حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے منصوبے کو چھپانے کی سزا سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 121اے اور 123 کا اضافہ کیا گیا ہے۔
پولیس نے گوتم پر مبینہ طور پر ایک ہزار لوگوں کو اسلام قبول کروانے اور ان میں سے کئی کی شادیاں مسلمانوں سے کروانے کا الزام لگایا تھا۔ اے ٹی ایس نے بدھ (11 ستمبر) کو کہا کہ اس نے 450 لوگوں کے مذہب کی تبدیلی کے دستاویز کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے نکاح نامہ بھی برآمد کیا ہے جنہوں نے اس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں۔
گوتم کے معاون قاسمی پر الزام تھا کہ اس نے غیر قانونی طور پر مذہب تبدیل کرنے والوں کو کنورژن سرٹیفکیٹ اور شادی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ صدیقی، جو ایک معروف عالم ہیں اور ایک ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں، ان پر دوسرے مذاہب کے خلاف مذہبی پروپیگنڈہ پھیلانے اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اے ٹی ایس نے الزام لگایا کہ ملزمین نے غیر مسلموں، خصوصی طور پر خواتین، نابالغ، گونگے بہرے طلبہ، دلت اور آدی واسی جیسے کمزور طبقات کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔
اس کیس نے بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب، غیر ملکی فنڈنگ اور بنیاد پرستی سے متعلق کئی الزامات کے ساتھ کافی سرخیاں حاصل کیں۔ اتر پردیش پولیس نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ‘ڈیموگرافک تبدیلی’ لانے کے لیے کی تبدیلی کی جا رہی ہے۔
اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ آئی ڈی سی انڈیا کو مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ آئی ڈی سی جمیکا نژاد متنازعہ اسلامی مبلغ بلال فلپس کے ذریعے چلنے والی ایک نجی فاصلاتی تعلیم کی یونیورسٹی ، بین الاقوامی اوپن یونیورسٹی کا امتحانی مرکز بھی تھا۔
اے ٹی ایس نے کہا، ‘اس سنڈیکیٹ کا بنیادی مقصد غیر قانونی تبدیلی مذہب کے ذریعے ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا اور منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرکے ملک میں شرعی قانون نافذ کرنا تھا۔’
اے ٹی ایس نے گوتم اور دیگر پر بڑی تعداد میں لوگوں کو تیزی سے اسلام قبول کروانے کے لیے ‘ملٹی لیول مارکیٹنگ’ کے اصول کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا۔
ملزمان دوسرے مذاہب بالخصوص ہندومت کے خلاف تبلیغ کرتے تھے اور اسلام کی خوبیوں کے بارے میں بات کرتے تھے۔ اے ٹی ایس نے کہا، مذہبی غلط بیانی، نوکری، شادی اور پیسے کی لالچ اور ‘جہنم کی آگ میں جلنے کے خوف’ کے بارے میں بات کر کے لوگوں کو اسلام قبول کروا رہے تھے۔
اب مجرم ٹھہرائے گئے، ملزمین پر نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے گونگے بہرے طلبہ کی شناخت کرنے اور انہیں لالچ اور دھمکیوں کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کا بھی الزام ہے۔
پولیس نے کہا کہ صدیقی نے اپنے خیالات کی تشہیر کے لیے ایک ماہانہ رسالہ اور لٹریچر شائع کیا۔ اے ٹی ایس نے 2006 میں مظفر نگر میں شائع ہونے والی صدیقی کی لکھی کتاب ‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’ کو بھی قابل اعتراض قرار دیا۔
پولیس نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملزمین بیرون ممالک اور ملک کی دیگر ریاستوں سے حوالوں اور دیگر ذرائع سے کروڑوں روپے حاصل کر رہے تھے۔ اے ٹی ایس نے کہا کہ اس کے علاوہ، وہ رقم حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کرکے کئی ٹرسٹ غیر قانونی طور پر چلا رہے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ 16 ملزمان میں سے چار لوگوں محمد سلیم، راہول بھولا، منو یادو عرف عبدالمنان اور کنال اشوک چودھری کویوپی غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ 2021 کی دفعہ 3، 5 اور 8 اور دفعہ 120بی، 153اے، 153 بی 295اے، 417 اور 298 کے تحت مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
صدیقی اور تین دیگر کے وکیل مفتی اسامہ ندوی نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے، ندوی نے کہا کہ اس کیس میں ایف آئی آر اور چارج شیٹ صرف ’ قیاس آرائیوں‘ پر مبنی ہے۔
ندوی نے کہا کہ عدالت کا حکم ‘خامیوں سے بھرا ہوا’ ہے، جس میں غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کسی متاثرہ فریق یا رشتہ دار کے ذریعے درج نہیں کی گئی تھی، جیسا کہ ایکٹ کے ذریعے لازمی ہے۔
انہوں نے صدیقی کے خلاف ان الزامات کو بھی مسترد کر دیا کہ وہ یوٹیوب چینل کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے اور تبدیلی مذہب کو فروغ دے رہے تھے۔
ندوی نے پوچھا، ‘مولانا کلیم (مولانا کلیم صدیقی) کا یوٹیوب چینل ابھی بھی چل رہا ہے۔ انہوں نے ابھی تک اس پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟‘
کچھ دیگر ملزمان کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ضیا جیلانی نے عدالت کے فیصلے کو’مسخ شدہ‘، ’غیر قانونی‘ اور ’قانون کی نظر میں غیر پائیدار‘ قرار دیا۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ ساری کارروائی ایک ایف آئی آر پر مبنی تھی، جو ایک معذور شخص نے درج کروائی تھی۔
جیلانی نے کہا، ‘اے ٹی ایس کے تفتیشی افسر نے ایف آئی آر درج کی، جبکہ قانون کہتا ہے کہ غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت صرف متاثرہ یا رشتہ دار ہی شکایت درج کرا سکتا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ جیلانی نے یہ بھی کہا کہ اتر پردیش اے ٹی ایس کے ذریعہ پیش کیے گئے 24 گواہوں میں سے کسی نے بھی جبری مذہب تبدیل کرنے کی گواہی نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت، ان میں سے بہت سے لوگ قانون بننے سے بہت پہلے مذہب تبدیل کر چکے تھے۔
بہرے گونگے راہل بھولا اور منو یادو کی نمائندگی کرنے والے جیلانی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ان کے خلاف صرف ایک گواہ پیش کیا اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ انہوں نے اس شخص کے لیے تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ تیار کیا تھا۔
ملزم کی نمائندگی کرنے والے ایک اور وکیل نجم الثاقب خان نے دلیل دی کہ فنڈنگ کے ذریعے ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کے پولیس کے الزامات کے باوجود اے ٹی ایس عدالت میں پیش کیے گئے کل 24 گواہوں میں سے صرف آٹھ آزاد گواہوں کو پیش کر سکی۔
مزید یہ کہ آٹھ میں سے صرف چھ کا براہ راست تعلق تبدیلی مذہب کے الزامات سے تھا۔ خان نے کہا کہ ان میں سے کئی تبدیلی2021 کے قانون کے نافذ ہونے سے بہت پہلے کی گئی تھی۔ انہیں یہ بھی عجیب لگا کہ اے ٹی ایس نے صرف آٹھ آزاد گواہ پیش کیے، جبکہ اس معاملے میں ملزمین کی تعداد 17 تھی، جس نے ایجنسی کے ابتدائی دعووں پر سوال کھڑ کر دیے ہیں کہ تقریباً 1000 لوگ، جس کو بعد میں کم کر کے 450 کر دیا گیا غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا شکار ہوئے ہیں۔
خان نے سوال کیا کہ ‘یہ 450 لوگ کہاں ہیں اور ان کے بیانات کیوں ریکارڈ نہیں کیے گئے؟’
قابل ذکر ہے کہ گوتم اور صدیقی کی گرفتاری کو لے کر اتر پردیش پولیس کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پولیس پر نئے قانون کی آڑ میں مسلم مبلغین کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا گیاتھا۔
لکھنؤ میں این آئی اے/اے ٹی ایس عدالت کی طرف سے 16 لوگوں کو مجرم قرار دینے کے بعد اے ٹی ایس نے ایک بیان میں کہا، ‘یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے میں سرغنہ اور ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے بعد، کچھ مذہبی بنیاد پرستوں نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پراسے سیاسی طور پر محرک قرار دیا تھا اور اس کی تنقید کی تھی۔
اتر پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پرشانت کمار نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس فیصلے کو ‘تاریخی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس کی کارروائی حقائق اور شواہد پر مبنی تھی۔
کمار نے کہا، ‘اس فیصلے سے معاشرے میں ایک اچھا پیغام جائے گا کہ جو لوگ غیر قانونی تبدیلی مذہب کی سرگرمیوں میں ملوث تھے… ان کا مقصد سامنے آ گیا ہے۔ اس سے لوگوں میں یہ شعور بھی پیدا ہوگا کہ وہ ایسی غلط باتوں میں ملوث نہ ہوں۔‘
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )