یہ واقعہ مرادآباد کا ہے، جہاں 23 دسمبر کی شام بجرنگ دل کے کارکنوں نے الزام لگایا کہ علاقے میں مسلمان ہندو کے نام پر دکان چلا رہے ہیں۔اس دوران کارکنوں نے جوس سینٹر کوبند کرواتے ہوئے ہنگامہ بھی کیا اور ‘ہر ہر مہادیو’، ‘جئے شری رام’کےنعرے لگائے۔
مراد آباد میں جوس کی دکان (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: اتر پردیش کے مراد آباد میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے 23 دسمبر کی شام کو مبینہ طور پر ایک مسلمان کی دکان بند کروا دی۔
نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق، بجرنگ دل کے کارکنوں نے ہنگامہ کیا اور ‘ہر ہر مہادیو’، ‘جئے شری رام’کےنعرے لگائے۔
ٹائمس آف انڈیا کے صحافی کنوردیپ سنگھ نے جوس کی دکان کے اس واقعے کا ویڈیو
ٹوئٹ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق،شبو خان یہاں گزشتہ 10 سے 12 سالوں سے جوس سینٹر چلا رہا تھا۔ اس دکان کا نام ‘نیو سائیں جوس سینٹر’تھا۔
خان نے بتایا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں دکان بند کرنےکے لیے مجبور کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ نونیت شرما نامی بجرنگ دل کے کارکن نے یہ دکان بند کر ائی ہے۔
شرما نے بتایا کہ مسلمان ہندو علاقے میں جوس سینٹر چلا رہا تھا اور ہندوؤں کو دھوکہ دے رہا تھا۔
ان کا الزام ہے کہ اسی دکان کا ملازم سلمان دو ماہ قبل ایک ہندو لڑکی کو ہراساں کرنے کے جرم میں پاکسو ایکٹ کے تحت جیل میں ہے۔
حالاں کہ، دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کرپایا کہ یہ الزام درست ہے یا نہیں۔
بجرنگ دل کے کارکن کا الزام ہے کہ ہندو علاقے میں جوس سینٹر کے پس پردہ’لو جہاد’کیا جا رہا ہے۔
بتادیں کہ’لو جہاد’ہندو تنظیموں کی جانب سے استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے، جس میں ہندو خواتین کو مبینہ طور پر زبردستی اسلام قبول کرنے اور مسلمان مرد سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بجرنگ دل کے کارکنوں نے مبینہ طور پر یہ دعویٰ کرتے ہوئےایک مہم شروع کی ہے کہ مسلمان اپنی دکانیں ہندو ناموں سے چلا رہے ہیں۔بجرنگ دل کےکارکنوں نے باقی مسلم دکانداروں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی دکانیں بند نہیں کیں تو بڑے پیمانے پراحتجاج شروع کیا جائے گا۔
مرادآباد پولیس نےجمعہ کو مجھولا پولیس اسٹیشن میں متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے کہا کہ دیگر قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔
حالاں کہ، پولیس کے ٹوئٹ سےیہ اشارہ نہیں ملتا کہ مقدمہ کس کے خلاف درج کیا گیا ہے اور ایف آئی آر میں ملزم کون ہے۔