ایودھیا کے ایک صحافی پاٹیشوری سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ایک بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف خبر لکھنے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں منگل شام کوپانچ چھ لوگوں نے پیٹا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی نامعلوم لوگوں کے خلاف کیس درج ہوا ہے،جانچ کے بعد ہی ایم ایل اے کا نام جوڑا جائےگا۔
نئی دہلی: ایودھیا میں ایک مقامی صحافی کی منگل کی شام شہر کےکوتوالی حلقہ میں پانچ سے چھ نامعلوم لوگوں نے مبینہ طور پر پٹائی کر دی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، صحافی نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے مارپیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا میں ایک ایم ایل اے کے خلاف خبر لکھنے کے لیے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولیس نے کہا کہ تمام حملہ آوروں کی پہچان ہو جانے اور معاملے کی مکمل جانچ ہونے کے بعد ہی ایم ایل اے کا نام جوڑا جا سکتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق، حملے کے پیچھے گوسائی گنج سے بی جے پی ایم ایل اے اندر پرتاپ تیواری عرف کھبو تیواری کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں سنگھ کے سر سے خون بہتا دکھ رہا ہے اور وہ کہتے ہوئے دکھتے ہیں کہ بی جے پی رہنما اور ان کے حامیوں کے خلاف لکھنے کی وجہ سےیہ ہوا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، ضلع اسپتال میں بھرتی صحافی کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے اور بہتر علاج کے لیے انہیں ایک نجی اسپتال میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ حملے میں ان کے سر میں چوٹ آئی تھی۔
ایڈیشنل ایس پی (سٹی)وجے پال سنگھ نے بتایا،‘پاٹیشوری سنگھ (صحافی)منگل شام کوتقریباً ساڑھے سات بجے رکاب گنج علاقے سے بائیک سے گھر جا رہے تھی۔ سریندر لان کے سامنے ایک کالی ایس یووی سڑک کنارے کھڑی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے ایس یووی کو پار کیا گاڑی بڑھ گئی اور اس نے ان کی بائیک کو ٹکر مار دی، جس سے وہ اپنی بائیک سے نیچے گر گئے۔ گاڑی میں سوار لوگ اترے اور ان کی پٹائی کرنے لگے۔ کچھ مقامی لوگ انہیں بچانے کے لیے دوڑ پڑے۔ فی الحال ان کا علاج چل رہا ہے اور نامعلوم ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ ہم مقامی لوگوں سے پوچھ تاچھ کر رہے ہیں اور سراغ کے لیے مقامی سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کر رہے ہیں۔’
متاثرہ نے خود کو ‘بھارت کنیکٹ’ اخبار کا بیورو چیف اور ‘جن سندیش ٹائمس’کے لیے ایک سٹی رپورٹر بتایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے حملہ آوروں کے خلاف لکھ رہے تھے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف پہلے بھی ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
متاثرہ نے حملے کے بعد میڈیا کو دیے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ‘جب میں نے گاڑی دیکھی تو مجھے پریشانی کا احساس ہوا لیکن میں آگے بڑھ گیا۔ 100میٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھا تھا تبھی گاڑی نے میری بائیک کو ٹکر مار دی اور میں زمین پر گر گیا۔ ایم ایل اے اور ان کے معاون کے خلاف لکھنے پر مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے تقریباً5 سے 6 لوگوں نے بینت اور راڈ سے مجھ پر حملہ کیا۔ انہوں نے میرے دو موبائل فون چھین لیے اور انہیں زمین پر پٹک دیا۔ اگر کچھ مقامی لوگ میرے بچاؤ کے لیے نہیں دوڑے ہوتے تو وہ مجھے مار دیتے۔ انہیں دیکھ وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ ایف آئی آر میں ایم ایل اے اور ان کے حامیوں کا نام کیوں نہیں لیا گیا، کوتوالی ایس ایچ او نتیش کمار نے کہا کہ حالانکہ متاثرہ نے اپنی شکایت میں اپنے حملہ آوروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایم ایل اے اور ان کے حامیوں کے خلاف بہت زیادہ لکھنے کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ معاملے میں ان کی شمولیت کو ثابت کرتا ہے۔
ایس ایچ او نے کہا، ‘اگر انہوں نے کہا ہوتا کہ وہ سیدھے طور پر شامل ہیں، تو ہم ان کا نام جوڑتے۔’
حالانکہ سٹی سرکل آفیسر(سی او)پلاش بنسل نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور مقامی لوگوں کے بیان کی بنیاد پر حملہ آوروں کی پہچان ہو جانے اور یہ ثابت ہونے کہ انہیں کس نے اور کیوں بھیجا، کے بعد ایم ایل اے کا نام (شامل کرنے)کےامکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم آس پاس کے علاقوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کر رہے ہیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ یہ لوگ کون ہیں اور انہوں نے صحافی پر حملہ کیوں کیا۔ ابھی تک یہ صرف قیاس آرائی ہے کہ ایم ایل اے نے حملہ آوروں کو بھیجا ہے۔’
بنسل نے بتایا کہ آئی پی سی کی دفعہ147(دنگا)، 148(دنگا، مہلک ہتھیار سے لیس)، 323(چوٹ پہنچانا) اور 506 (مجرمانہ طور پر دھمکی) کے تحت ایف آئی آردرج کی گئی ہے۔ متاثرہ کی میڈیکل رپورٹ کی بنیادپر اور دفعات جوڑی جا سکتی ہیں۔