بجٹ 2023-24 کا پاپولزم یہ ہے کہ اس میں بظاہر سماج کے ہر طبقے کو کچھ نہ کچھ دینے کی بات کی گئی ہے، خواہ وہ خواتین ہوں، آدی واسی ہوں، دلت ہوں، کسان ہوں یا پھر مائیکرو، اسمال، میڈیم انٹرپرائزز۔لیکن اعلانات کا تبھی کوئی مطلب ہوتا ہے، جب ہر ایک کے لیے مناسب فنڈز بھی مختص کیے جائیں۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
مرکزی بجٹ 2023-24 ایسے وقت میں آیا ہے، جب ہندوستانی معیشت بظاہر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن درحقیقت اسے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے ان آرگنائزڈ سیکٹر کچھ عرصے سے بحران کا شکار ہے۔ بیرونی محاذ پر یوکرین کی جنگ اور ‘نئی سرد جنگ’ کا آغاز اورمسئلے پیدا کر رہا ہے۔
ان مسائل کا حل بجٹ میں تلاش کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بجٹ میں اس کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔
بیرونی چیلنجز سے نمٹنا قدرے مشکل ہے، کیونکہ ہندوستان کا عالمی معیشت میں اس طرح کا اثر و رسوخ نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے مفاد کے مطابق موڑ سکے۔ زیادہ سے زیادہ یہ اپنے سامنے آنے والے چیلنجز کو، بالخصوص اگر یوکرین کی جنگ جاری رہتی ہے، کم سے کم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا۔
اندرونی چیلنجز ترقی کی نوعیت اور اس کے پھیلاؤ،بلند ترین بے روزگاری، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور مسلسل مہنگائی کے باعث ہیں۔ بجٹ میں ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔
ایک الگ طریقے کا پاپولسٹ بجٹ
آرگنائزڈ سیکٹرکا فروغ ان آرگنائزڈ سیکٹر کی قیمت پر ہوا ہے، اور یہ زوال پذیر ہے۔ دراصل ان آرگنائزڈ سیکٹر،آرگنائزڈ سیکٹر کو اپنی کالونی بنا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس کا نتیجہ ‘وکاس’ کے سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں کم شرح نمو کے طور پر برآمد ہورہا ہے۔
حکومت اس بات سے خوش ہے کہ ہندوستان کی اقتصادی ترقی کی شرح بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اور وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اورطور– طریقوں کو جاری رکھ سکتی ہے۔ درحقیقت، ایک گہرے صدمے سے نکل رہی معیشت میں اقتصادی شرح بہت معنی نہیں رکھتی، بلکہ جی ڈی پی کی سطح معنی رکھتی ہے۔
ہندوستان کی سرکاری جی ڈی پی 20-2019 (کورونا وبا سے پہلے کے سال) کے مقابلے میں صرف 8 فیصد زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو معیشت سالانہ اوسطاً صرف 2.8 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے۔ یعنی معیشت ابھی تک وبائی مرض سے پہلے کی سطح پر نہیں آئی ہے۔ چونکہ ترقی کی یہ شرح صرف آرگنائزڈ سیکٹر کے زور پر حاصل کی گئی ہے اور ان آرگنائزڈ سیکٹر زوال کی طرف گامزن ہے، اس لیے معیشت نے حقیقی معنوں میں بالکل ترقی نہیں کی ہے۔
بلند ترین بے روزگاری اور کھپت اور سرمایہ کاری کی پہلے کی سطح کو چھونے کے قابل نہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔ بجٹ میں ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے تھا۔ بجٹ ان باتوں کا جواب نہیں دیتا ہے۔
یہ ایک پاپولسٹ بجٹ ہے، تجزیہ کار اس کا جو مطلب نکالتے ہیں، ان معنوں میں نہیں ، بلکہ حقیقی معنوں میں۔ تجزیہ کاروں کے لیے پاپولسٹ بجٹ وہ ہے، جو غریبوں کے لیے فنڈز مختص کرتا ہے اور انھیں سبسڈی دیتا ہے۔
اس بجٹ کا پاپولزم یہ ہے کہ یہ بظاہر سماج کے ہر طبقے کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے، خواہ وہ خواتین ہوں، آدی واسی ہوں، دلت ہوں یا کسان ہوں یا مائیکرو،اسمال، میڈیم انٹرپرائزز۔ لیکن اعلانات کا تبھی کوئی مطلب ہوتا ہے، جب ہر ایک کے لیے مناسب فنڈز بھی مختص ہوں۔
گروتھ کا مسئلہ
اگر یہ اعلانات صدق دل سے کیے جاتے توکل بجٹ اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہوتا۔ لیکن 4503097 کروڑ روپے کے ساتھ
کل خرچ موجودہ سال کے نظر ثانی شدہ اخراجات سے صرف 7 فیصد زیادہ ہے۔ یہ برائے نام جی ڈی پی میں 10.5 فیصد کی متوقع نمو سے کم ہے۔ لہذا اگر کچھ اسکیموں کو زیادہ بجٹ ملتا ہے، تو یہ کسی اور اسکیم کی قیمت پر ہوگا۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
اس کے علاوہ بجٹ کو معاشی ترقی کی سست رفتار گاڑی کی رفتار کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن بجٹ مختص میں اتنے معمولی اضافے سے یہ ممکن نہیں ہو گا۔ مختص میں 10.5 فیصد سے کہیں زیادہ اضافہ کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ، بنیادی خسارہ مانگ کو جنم دیتا ہے اور معیشت کو آگے بڑھانے کا کام کرتا ہے، لیکن یہ جی ڈی پی کے 3 فیصد سے گر کر 2.3 فیصدی رہ جانے والا ہے۔
ماہرین نے بجٹ میں سرمائے کے اخراجات میں اضافے کے منصوبے کو بہت اہمیت دی۔ یہ مددگار ہوگا، لیکن اتنا نہیں جتنا کہ ضرورت ہے۔ اس اضافے کا زیادہ تر حصہ بڑے منصوبوں یعنی ہائی ویز، ریلوے وغیرہ پر جائے گا۔ ان میں سے زیادہ تر سرمایہ دارانہ شعبے ہیں اور بہت زیادہ روزگار پیدا نہیں کرتے ہیں۔ اس سے آرگنائزڈ سیکٹر کے لیے مانگ میں اضافہ ہوگا، جس سے یقیناً بڑے کاروباریوں کو مدد ملے گی۔ اس کے بجائے ضرورت اس امر کی تھی کہ دیہی شعبے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔
بدقسمتی سے منریگا کو 894000 کروڑ روپے کے نظرثانی شدہ تخمینہ سے کم کر کے اگلے سال
60000 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی ترقی کے لیے مختص رقم کو 243317 کے نظرثانی شدہ تخمینہ سے گھٹا کر 238204 کروڑ کردیا گیا ہے۔ بجٹ کے کل اخراجات کا صرف 5 فیصد اس کے کھاتے میں جا رہا ہے، جو حکومت کے لیے دیہی شعبے کی کم ترجیح کو ظاہر کرتا ہے۔
اسے اس طرح دیکھا جائے تو بجٹ معیشت کو کوئی رفتار دینے نہیں جا رہا ہے اور اس کے بغیر معیشت کے مختلف امراض کا علاج نہیں ہوسکتا ہے۔
عدم مساوات بڑھے گی
اگر ان آرگنائزڈ سیکٹر کے لیے ترقی منفی رہتی ہے تو اسے آمدنی میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ اس وقت اعلان کردہ کسی بھی اسکیم کے لیے مختص فنڈسے کہیں زیادہ ہوگا۔ ان کی فلاح و بہبود کی فکر کرنے والی حکومت کی باتیں محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوں گی۔ مسلسل مہنگائی ان پر ایک اور ٹیکس ہے جو کہ ان کے معیار زندگی کو گھٹا دے گا، کیونکہ وہ زیادہ اجرت کا مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
امیروں کے لیے بجٹ میں ڈائریکٹ ٹیکس کم کیا گیا ہے، جبکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی آمدنی بڑھ رہی ہے کیونکہ آرگنائزڈ سیکٹر–ان آرگنائزڈ سیکٹر کی قیمت پر ترقی کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر معیشت بہتر نہ ہونے کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں
ان کا سرمایہ بڑھ رہا ہے۔ اس نے اس طبقے کو زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کے مزید پروگرام چلائے جا سکیں اور اس سے حاشیے کے طبقات کو فائدہ ہو۔
اس نقطہ نظر سے ویلتھ ٹیکس متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار اس طرح کے مشورے پر طنز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متمول طبقہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پیسہ کما رہاہے اور اس پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ وہ یہ کہہ کر بھی اپنی دلیل کو مضبوط کرتے ہیں کہ ماضی میں اس طرح کے ٹیکس کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ بڑی تعداد میں رعایتیں دینے کی وجہ سے یہ ٹیکس مؤثر نہیں رہا۔ عمودی (نیچے سے اوپر تک) ایکویٹی کا تقاضہ ہے کہ معیشت میں ایک ویلتھ ٹیکس لگایا جائے۔ اس کے علاوہ یہ ٹیکس وصولی بڑھانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
اس کا استعمال بالواسطہ ٹیکسوں کی حصہ داری کو کم کرنے کے لیے کیا جا سکتا تھا، جو کہ رجعت پسندی کے ساتھ ساتھ مہنگائی بڑھانے کا کام بھی کرتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس، ٹیکس وصولی کا سب سے غیر مؤثر طریقہ ہے، کیونکہ یہ جمود کا شکار ہے۔ امیروں پر کوئی نیا بوجھ نہ ڈالنے سے،ٹیکس/جی ڈی پی کا تناسب کم ہو جاتا ہے، جو تعلیم اور صحت جیسے عوامی فلاحی کاموں کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات کا راستہ بند کر دیتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ شعبے روزگار پیدا کرنے والے بھی ہیں۔
مختصر یہ کہ یہ بجٹ 2023 میں ہونے والے 9 اسمبلی انتخابات اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ بہت کچھ کیے بغیر حکومت حاشیے کے تمام طبقات کا خیال رکھنے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اس نے عوامی بہبود کا ایک مکھوٹا تیار کیا ہے تاکہ وہ متمول طبقوں کو دیے جانے والے فوائد کو چھپا سکے۔
(ارون کمارجے این یو میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔)
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)