عرضی گزاروں کی مانگ ہے کہ اس بل کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو یواے پی اے ترمیم بل 2019 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس بل کے تحت مرکز کو کسی شخص کو دہشت گرد قرار دینے کا حق مل گیا ہے۔ لائیو لاء کے مطابق؛دہلی کے سجل اوستھی اور این جی او ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے اس بل کو چیلنج دینے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ عرضی گزاروں کی مانگ ہے کہ اس بل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ (Unlawful Activities Prevention Act) 2019ترمیم بل (یو اے پی اے)آئین کے آرٹیکل 14(برابری کا حق)،آرٹیکل 19(بولنےاوراظہار رائے کی آزادی کا حق)آرٹیکل 21(جینے کا حق)کی خلاف ورزی ہے۔عرضی گزار اوستھی نے کہا،’یو اے پی اے ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت مرکزی حکومت کو کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دینے کا حق مل گیا ہے۔مرکزی حکومت کو اس طرح کاغیر منطقی ،ظالمانہ اور بےانتہا حق ملنا آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے اور اس کی وجہ سے فرد کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ، انسانی وقار کے ساتھ جینے کا حق ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت بنیادی حقوق کا ایک اندرونی حصہ ہے۔مقدمہ شروع کرنے سے پہلے کسی کو دہشت گرد قرار دینا قانونی کارروائیوں کی خلاف ورزی ہے۔اس طرح کسی فرد کو دہشت گرد کے زمرے میں رکھنا اور اس کو یو اے پی اے ایکٹ 1967 کے شیڈیول 4 میں جوڑنا اس کے عزت کے ساتھ جینے کے حق کی خلاف ورزی کرنا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ، یو اے پی اے 2019،دہشت گردی کو روکنے کے نام پر مرکز کو اختلاف رائے کے حق پر بالواسطہ پابندی لگانے کا اختیار دیتا ہے، جو کہ ہمارے ترقی پذید سماج کے لیے نقصاندہ ہے۔واضح ہوکہ مرکز نے اس بل کی بنیاد پر ملے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے حال ہی میں جیش محمد کے چیف مسعود اظہر، لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید ، 2008 ممبئی دہشت گردانہ حملے کے ملزم ذکی الرحمان لکھوی اور 1993 کے ممبئی بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ داؤد ابراہیم کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔