ان انتخابات کے نتائج نے ترکیہ کے مستقبل کی ممکنہ سمت کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ یہ انتخابات اقتصادی پالیسی میں تبدیلی اور عالمی سطح پر ترکیہ کے ایک نئے کردار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا بیانیہ صرف قیادت میں تبدیلی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں ایک گہری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
گزشتہ 31 مارچ کو موسم بہار کے سورج کی خوشگوار تپش کا مزہ لیتے ہوئے ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے ایک پولنگ بوتھ کے باہر قطار میں کھڑے ایک ریٹائرڈ بزرگ مرات اوکتائے بتا رہے تھےکہ انہوں نے 2001 سے لے کر اب تک تقریباً اٹھارہ بار صدر رجب طیب اردگان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی یعنی آق پارٹی کو وفاداری کے ساتھ ووٹ دیے ہیں۔ مگر اس بار ان کا ارادہ کچھ اور ہے۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ اوکتے بے کی یہ آواز پورے ترکیہ کی آواز بن کر رات کو ووٹوں کی گنتی کے وقت ایک ایسا ارتعاش پیدا کرے گی، جو شاید ملک کی ایک نئی سمت اور لیڈرشپ کا تعین کرے گی۔
انقرہ میں وزارت اطلاعات کے قائم کردہ پریس روم میں جب رات گئے نتائج آنا شروع ہوگئے تھے، تو تمام تر انتخابی جائزوں کے برعکس وہ اقتدار پر اردگان کی دیرینہ گرفت کے کمزور ہونے کا اشارہ کر رہے تھے۔
ویسے تو دنیا میں کہیں بھی بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی کا کوئی عنصر نہیں ہوتا ہے۔ مگر ترکیہ میں جہاں ریاستی انتخابات نہیں ہوتے ہیں، یہ صدر اور پارلیامنٹ کے بعد جمہوری نظام کے اہم ستون ہیں۔
اسی لیے سیاسی اہمیت کے لحاظ سے استنبول شہر کے میئر کا موازنہ ہندوستان کے اتر پردیش یا پاکستان کے پنجاب صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اکثر وزراء شہروں کے میئر بننے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس بلدیاتی نظام میں مقامی مختار یعنی کونسلر، سٹی کونسل یا شہری پارلیامنٹ کے ممبران، ضلعی مئیر اور پھر شہر کے مئیر براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔
یعنی ایک ووٹر کو بیک وقت چار ووٹ دینے ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی اسی طرح کا نظم ہوتا ہے۔ یہ ادارے مقامی ٹیکسوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ، زمین کا استعمال، فضلہ جمع کرنے، پانی، گیس اور پارکس، سڑکوں اور دیگر تفریحی سہولیات جیسی خدمات کے ذمہ دار ہیں۔ مختار کا اپنے علاقے میں خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور اس کا باضابطہ دفتراور عملہ ہوتا ہے۔
خیر ان بلدیاتی انتخابات میں صدر اردگان کی آق پارٹی کو چونکا دینے والی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی حریف ترکیہ کے بانی مصطفےٰ کمال اتا ترک کی قائم کردہ سیکولر ری پبلیکن پیپلز پارٹی یعنی سی ایچ پی نے بلدیاتی انتخابات میں تمام اہم شہری علاقوں پر قبضہ جما لیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بس سال بھر قبل صدارتی انتخابات کے وقت سی ایچ پی کو محض 22 فیصد ووٹ لے کر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔ مگر اس بار اس نے 37.74 فیصد ووٹ لےکر 14 میٹروپولیٹن شہروں، 21 صوبوں اور 337 ضلعی کونسلوں میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔
اس کے دو بڑے لیڈران اکرم امام اولو 51.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوبارہ استنبول کے میئر کے طور پر منتخب ہوئے۔
دارالحکومت انقرہ میں بھی اس کے امیدوار اور موجودہ میئر منصور یاواس نے 60.4 فیصد ووٹ حاصل کرکے دوبارہ عہدہ حاصل کیا۔
پچھلے سال سی ایچ پی کئی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ملی اتحاد کے زیر سایہ اردگان کے خلاف صدارتی انتخابات لڑ رہی تھی، مگر یہ اتحاد اس کی ہار کے بعد پارہ پارہ ہوگیا تھا۔ سی ایچ پی میں بھی لیڈرشپ کی جنگ شروع ہوگئی تھی، اور اس کے صدر کمال کلیچ داراولو کومستعفی ہوکر عہدہ اوزگور اوزال کے لیے خالی کرنا پڑا۔ یہ بلدیاتی انتخاب اس پارٹی نے اپنے بل بوتے پر لڑا۔ اس کے لیڈروں نہ انتخابی پنڈتوں کو امید تھی کہ وہ اضافی 15فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ ترکیہ کے نقشے پر نظر ڈالیں، تو یہ چار خطوں میں بٹا ہوا ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل سے لگا ہوا اکا دانز خطہ، تھریس یا ٹریکیا خطہ، جس میں استنبول، گیلی پولی یا چنا کالے کے علاقے آتے ہیں، بحیرہ اسود کے ساحل پر آباد کارادانز خطہ اور پھر اناطولیہ یا ایشیائے کوچک کا علاقہ، جس میں انقرہ سمیت شام اور عراق کی سرحد تک کے ترکیہ کے مشرقی علاقے شامل ہیں۔
سی ایچ پی پچھلی چار دہائیوں سے صرف کارادانز علاقہ تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔مگر اس بار اس نے وسطی اناطولیہ کے وسیع و عریض علاقوں کو فتح کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی اناطولیہ کے جن علاقوں میں پچھلے سال زلزلہ نے تباہی مچا دی تھی، اور جہاں لوگ ابھی بھی خیموں اور کنٹینروں میں آباد ہیں، آق پارٹی نے کامیابی حاصل کرلی۔ جس سے یہی لگتا ہے کہ یہ متاثرہ لوگ حکومت کی باز آبادکاری کے عمل سے مطمئن ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے بتا رہے تھے کہ آق پارٹی کو انہی علاقوں سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، مگر اس علاقے اور بحیرہ اسود کے ساحلی علاقہ کارادانز اور دیہی علاقوں میں اچھی کارکردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمران آق پارٹی کسی حد تک وقار بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس نے 35.49 فیصدووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں آق پارٹی نے 42.87 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
تھریس جس میں استنبول اور اس کے متصل علاقے آتے ہیں اور کارادانز جس میں ازمیر، انطالیہ جیسے خوبصورت شہر آتے ہیں، ترکیہ کی اشرافیہ کے مسکن ہیں۔ ان علاقوں کے باسی اناطولیہ اور کارادانز کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ علاقے دو دہائی قبل تک خاصے پسماندہ ہوتے تھے۔
اردگان کی آق پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ترقی اور بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے اس نے ان علاقوں کو اشرافیہ کے علاقوں کے مقابل کھڑا کر دیا۔ ان علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ کسی بھی اشاریہ میں استبول یا ازمیر سے کم ہیں۔ یہی ایک اہم وجہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے اردگان یکے بعد دیگر انتخابات جیت رہے تھے۔
ترکیہ کے امور کے ماہر اور ترکی کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے سابق ایڈیٹر عبدالحمید چوہان کے مطابق سی ایچ پی نے پچھلی بار 1977میں وزیر اعظم بلند ایجاوت کی قیادت میں 41.38 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور اس کے بعد اس کے ووٹوں کا تناسب گھٹتا گیا اور پچھلے بیس انتخابات میں یہ 22 سے 25 فیصد کے آس پاس ہی رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پارٹی کا 15 فیصد اضافی ووٹ حاصل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ترکیہ کی سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے سی ایچ پی میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ یہ پارٹی اب کسی بھی طرح کمال اتا ترک یا ان کے دست راست عصمت انونو کے سخت گیر سیکولرازم یا بائیں بازو کے نظریات پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب یہ ایک طرح کی سینٹرسٹ پارٹی بن گئی ہیں، جس میں سبھی نظریات کو پناہ ملتی ہے۔فی الوقت اس کے دونوں بڑے لیڈر استنبول کے میئراکرام امام اولو اور انقرہ کے میئرمنصور یاواش دائیں بازو کے نظریات کے حامل رہے ہیں۔
موجودہ انتخابی مہم کے دوران منصور یاواش کو انقرہ کی کسی نہ کسی مسجد میں نمازیوں سے ملتے ہوئے اور ان کو ووٹ دینے کی یاد دہانی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ میں جس مسجد میں تراویح ادا کرنے جاتا ہوں، انتخابات سے ہفتہ بھر قبل وہاں وہ ایک رات نمازیوں کی چائے سے تواضع کررہے تھے۔اس سے قبل وہ اگلی صف میں نماز عشاء اور تراویح ادا کر رہے تھے۔
نتائج کے اعلان کے بعد استنبول میں فتح کا جشن منا رہے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اکرام امام اولو نے کہا کہ انہوں نے ترکیہ میں آمرانہ نظام اور پاور اسٹرکچر کو ایک شخص تک مرکوز رکھنے کی روایت کو چیلنج کیا ہے۔
ان کا اشارہ واضح طور پر اردگان کی طرف تھا، جو پچھلی دو دہائیوں سے ترکیہ میں طاقت کا محور بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی پارٹی میں بھی ان کے سیاسی قد کی وجہ سے ابھی تک ان کے جانشین کا تعین نہیں ہوسکا ہے، گہ کو وہ اعلان کرچکے ہیں کہ یہ ان کا آخری انتخاب تھا۔ امام اولو کا کہنا تھا کہ ترکیہ میں جمہوریت کا احیا ء ہو رہا ہے اور شخصی نظام کا خاتمہ ہورہا ہے۔
اردگان، جو وزیراعظم بننے سے قبل استنبول کے مئیر تھے، کے لیے اس شہر کو حاصل کرنا ایک وقار کا مسئلہ بنا ہو ا تھا۔ وہ اس شہر کو واپس لینے کے لیے پرعزم تھے۔ یہ شہر ترکیہ کی مجموعی جی ڈی پی کا 30.4فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ تقریباً 25 سال تک یہ آق پارٹی کے زیر اثررہا ہے۔ 2019میں ایک سخت مقابلہ کے بعد سی ایچ پی کے امام اولو نے یہ شہر آق پارٹی سے چھین لیا۔
تازہ ترین انتخابات میں آق پارٹی استنبول کے 10 اضلاع میں پچھڑ گئی۔ حتیٰ کہ استنبول کے بیوگلو ضلع، جہاں اردگان پیدا ہوئے ہیں، میں بھی سی ایچ پی کو سبقت حاصل ہوئی۔
ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ غیر سرکاری نتائج آنے کے فوراً بعد ہی اردگان نے اپنی پارٹی کے صدر دفتر کی بالکونی پر آکر شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترک عوام کی مرضی کا احترام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ میں جمہوریت جیت گئی ہے اور یہ طے ہوگیا ہے کہ جس کو اقتدار میں آنا یا جانا ہے، اس کا راستہ بیلٹ بکس یعنی عوام کی رائے سے طے ہونا ہے۔ ان کا اشارہ ترکیہ کی سیاست میں فوج کے عمل و دخل سے متعلق تھا، جس کو ختم کرنے کا سہرہ ان کے سر جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم نے بغیر کسی روک ٹوک کے بیلٹ میں اپنی مرضی کا مظاہرہ کیا اور یہ ترکیہ کے لیے ایک بڑا فائدہ ہے۔ہارنے کے بعد اکثر سیاسی رہنما کئی روز تک اپنا منہ ہی نہیں دکھاتے ہیں۔
اردگان کا فوراً ہی عوام کے روبرو ہوکر، اپنی شکست تسلیم کرنا، ان کے اعتماد کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے، خاص طور پرجب صرف نو ماہ قبل انہوں نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اردگان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے پوری شدت کے ساتھ کام کیا، خود گزشتہ ایک ماہ کے دوران انہوں نے انتخابی مہم کے دوران 52 شہروں کے دورے کرکے عوامی اجتماعات سے خطابات کیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی شکست میں معاشی پالیسیوں، ہوشربا مہنگائی، افراظ زر سے نپٹنے میں ناکامی ایک اہم عنصر رہی۔ چار سال قبل پانی کا ایک کین جو 14لیرا میں ملتا تھا، اب سو لیرا تک پہنچ چکا ہے۔ ایک اوسط درجے کے فلیٹ کا کرایہ جو ایک ہزار لیرا کے اندر ہوتا تھا، دس ہزار سے تجاوز کر گیا ہے۔2019 میں جہاں ایک ڈالر چار لیرا کا ہوتا تھا، اب یہ تیس لیرا سے تجاوز کر گیا ہے۔
انتخابات سے پہلے اردگان نے مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کم از کم آمدنی اورملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر اس میں ریٹائرڈ افراد اور ان کی پنشن شامل نہیں کی۔ جس کا معمر افراد نے خاصا برا منایا اور وہ ان کی پارٹی کو سبق سکھانے پر کمر بستہ ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ ملک میں تقریباً 15 ملین افراد پنشن پر گزارہ کرتے ہیں۔
سیاسی مبصر، مہمت اوزترک کے مطابق اگرچہ زندگی گزارنے کے لیے روز مرہ کی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں نوجوان ووٹروں کا موضوع تھا، بزرگوں کے لیے پنشن میں اضافہ نہ کرنا اردگان کو خاصا بھاری پڑ گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ آق پارٹی کے لیڈروں میں مسلسل پاور میں رہنے کی وجہ سے تکبر آگیا تھا، جس سے ان کے اپنے ورکر بھی ناراض تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ گو کہ انتخابات میں 78فیصد ووٹروں نے حصہ لیا، مگر ایک ملین ووٹ ان ویلڈ بھی قرار دیے گئے۔
ان کا کہنا ہے ان میں اکثر ووٹ آق پارٹی کے ورکروں کے تھے، جو انہوں نے جان بوجھ کر ان ویلڈ کردیے۔دوسری طرف نوجوان ووٹر بھی آق پارٹی سے اوب چکا ہے اور تبدیلی کا خواہاں ہے۔
مگر اس سے بھی ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے ترکیہ کے نئے سیاسی منظر نامہ میں ایک اہم کردار یعنی ایک نئی اسلامسٹ سیاسی طاقت کا داخل ہونا ہے۔
ترکیہ کے سابق وزیر اعظم مرحوم نجم الدین اربکان کی رفاء پارٹی کو سبھی بھول چکے تھے۔ پچھلے سال ہی ان کے فرزند علی فتح اربکان نے اس کا احیاء کرکے اس کانام نو رفاء یا نیو ویلفیئر پارٹی رکھ کر صدرارتی انتخابات میں اردگان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اردگان کو شاید ان کی اس لیے ضرورت پڑ گئی تھی، کیونکہ ترکیہ کی روایتی اسلام پسند سعادت پارٹی اپوزیشن کیمپ میں تھی۔ نجم الدین اربکان کی پارٹی کی تحلیل کے بعد ان کے اکثر رفقاء جو اب بزرگی کے مراحل میں ہیں،سعادت پارٹی اور چند آق پارٹی میں شامل ہیں۔
خود اردگان بھی ان کے ہی شاگرد رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے بینر کے تلے ہی استنبول کے مئیر منتخب ہوئے تھے۔ نو رفاء پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بعد اردگان سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے دم پر پارٹی کے احیاء کی کوشش کی۔
پچھلے نو ماہ میں اس پارٹی نے ملک بھر میں چھ لاکھ افراد کو ممبر بنا لیاہے۔ موجودہ انتخابات میں 6.19 فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ملک میں ابھری ہے۔ کردوں کی ڈیموکریٹک پارٹی 5.70فیصد ووٹ لےکر چوتھے مقام پر چلی گئی۔
نو رفاء پارٹی نے ایک میٹروپولیٹن شہر اور دو صوبوں اور 69 اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ کچھ شہروں میں پارٹی کو 20-30 فیصد ووٹ بھی ملے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کی سب سے بڑی خبر رفاء پارٹی کا احیاء ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد اربکان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی ان انتخابات کی اسٹار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے پیدائش شانلی عرفہ کے صوبہ کو جیتنے کے علاوہ ا نہوں نے یوزگات اور 24 ٹاؤن میونسپلٹیوں پر بھی قبضہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نتائج قومی وژن کی بحالی اور ویلفیئر پارٹی کے اقتدار کی طرف مارچ کی طرف ایک قدم ہے۔ پچھلے سال کے پارلیامانی انتخابات کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں انکے ووٹوں میں 100 سے 150 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے نو منتخب کونسلروں اور مئیروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ انصاف سے کا م لیں اور میرٹ کو ترجیح دیکر اپنے کام کو مثالی بنائیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ 2028 کے انتخابات میں وہ ایک اہم طاقت کے بطور میدان میں ہوں گے۔ ان کی پارٹی کی متاثر کن کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ معاشی امور کے علاوہ ترک عوام کی ایک بڑی تعداد اردگان کی حکومت سے اس بات پر بھی ناراض تھی کہ اس نے غازہ جنگ کے بعد اسرائیل کے خلاف کسی عملی قدم سے گریز کیا۔
جس طرح روہنگیا یا نگورنو کاراباخ کے حوالے سے ترکیہ نے عملی اقدامات کیے وہ غازہ کے سلسلے میں مفقود تھے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی سطح پر بھی تعلقات میں کوئی تنزلی دکھائی نہیں دی، گو کہ اردگان نے استبول میں فلسطین کے حق میں ایک ریلی کا انعقاد کیا، مگر کئی افرا د کا کہنا تھا کہ بس زبانی جمع و خرچ تک ہی محدود رہا۔ ترک عوام کا فلسطین کے حوالے سے ایک جذباتی تعلق رہا ہے، جس کا ادراک کرنے میں آق پارٹی ناکام رہی۔
عبدالحمید چوہان کے مطابق اردگان کے خلاف یہ بھی ایک اہم فیکٹر رہا، جس سے ان کے ووٹر بدک گئے۔ ان کا کہنا ہے اگر دیکھا جائے تو ترکیہ کا 60فیصد ووٹر دائیں بازو سے مطابقت رکھتا ہے، جو آق پارٹی اور دیگر قوم پرست پارٹیوں کا ووٹ بینک رہا ہے۔
اگلے انتخابات میں اگر اردگان میدان میں نہیں ہوتے ہیں، تو نو رفاء پارٹی کو اس ووٹ کو لبھانے اور ایک لمبے عرصے تک ترکیہ کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے خاصے مواقع دستیاب ہیں۔ اردگان کی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد فاتح اربکان کے ایک کرشماتی شخصیت کے بطور ابھر نے کے خاصے مواقع ہیں۔ روایتی اسلام پسند سعادت پارٹی دو دیگر الٹرا نیشنلسٹ پارٹیاں ایم ایچ پی اور گڈ پارٹی ان انتخابات میں بری طرح ناکام رہی۔یہی حال نسل پرست ظفر پارٹی کا بھی ہوا۔
خیر ان انتخابات کے نتائج نے ترکیہ کے مستقبل کی ممکنہ سمت کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ یہ انتخابات اقتصادی پالیسی میں تبدیلی اور عالمی سطح پر ترکیہ کے ایک نئے کردار کا مطالبہ کرر ہے ہیں۔ اس کا بیانیہ صرف قیادت میں تبدیلی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں ایک گہری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
اس انتخابی ہلچل کے اثرات دور رس ہیں۔ ترکیہ کی سیاست ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ یہ لمحہ محض انتخابی فتح یا جشن کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تجدید عہد، احتساب، اور زیادہ جامع اور جمہوری طرز حکمرانی کے ماڈل کی قوم کی خواہش کا عکاس ہے۔
رائے دہندگان کا پیغام واضح ہے۔ وہ تبدیلی اور ایک ایسی حکمرانی کی چاہت رکھتے ہیں، جو ان کی خواہشات اور امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرے، جو ترکیہ کی سیاسی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز کرے۔
پچھلے بیس سالوں سے ترک عوام نے اردگان کو پذیرائی بخشی، جو ایک نیا وژن لےکر میدان میں اترے تھے اور وہ ان پیمانوں پر اترنے والے کسی نئے لیڈر کو بھی پذیرائی بخشنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر سوال ہے کہ لیڈر کون ہوگا؟ امام اولو، منصور یاواش یا فاتح اربکان۔