وی ایچ پی نے بنگلہ دیش میں درگا پوجا پنڈالوں میں حال میں ہوئےتشدد کےخلاف ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ شمالی تریپورہ کے پانی ساگرسب ڈویژن کے رووا بازار میں مبینہ طور پر اقلیتی برادری کےتین گھروں اور کچھ دکانوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔اس سلسلے میں کیس درج کر لیا گیا ہے اور حساس علاقوں میں سیکیورٹی فورسزتعینات کیے گئے ہیں۔
(فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر/@EaliashRahaman7)
نئی دہلی: شمالی تریپورہ ضلع کے پانی ساگر سب ڈویژن میں منگل شام کو وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کی ایک ریلی کے دوران چمٹلا علاقے میں ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دو دکانوں میں آگ لگا دی گئی۔ وی ایچ پی نے بنگلہ دیش میں درگا پوجا پنڈالوں میں حال میں ہوئےتشدد کےخلاف ریلی کا انعقاد کیا تھا۔
ضلع کے ایس پی بھانوپاڑہ چکرورتی نے یہ جانکاری دی۔ انہوں نے بتایا کہ پاس کے رووا بازار میں مبینہ طور پر اقلیتی برادری کے تین گھروں اور کچھ دکانوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
ایس پی نے کہا،‘وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے حال میں بنگلہ دیش میں ہوئےتشدد کےخلاف ریلی نکالی۔لوگوں کے ایک گروپ نے ریلی کے دوران چمٹلا میں پتھراؤ کیا اور ایک مسجد کے دروازے کو تباہ کر دیا۔ سیکیورٹی فورسز موقع پر پہنچے اور حالات کو قابو میں کیا۔’
ایک دوسرےپولیس افسرنے کہا کہ توڑ پھوڑ کیے گئے گھر اور دکانیں اقلیتوں کے ہیں اور ان میں سے ایک کی شکایت پر ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں پانی ساگر سب ڈویژن کے پولیس افسر ایس ڈی پی او سوبھک ڈے نے کہا،‘پانی ساگر میں وی ایچ پی کے خلاف ریلی میں لگ بھگ 3500 شامل تھے۔اس دوران وی ایچ پی کارکنوں کےایک طبقہ نے چمٹلا علاقے میں ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔بعد میں پہلےواقعہ سے لگ بھگ 800 گز دور رووا بازار علاقے میں تین گھروں اور تین دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دو دکانوں میں آگ لگا دی گئی۔’
افسر نے کہا کہ لاء اینڈآرڈرکی حالت کو اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے آس پاس کے سبھی حساس علاقوں میں بھاری فورسز کوتعینات کیا گیا ہے۔
ریلی میں شامل پانی ساگر کے بجرنگ دل کے لیڈر نارائن داس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،‘وی ایچ پی نے پانی ساگر علاقے میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ ہم پانی ساگر موٹراسٹینڈ پر جمع ہوئے اور ہمیں چمٹلا رووا، جلی باشا وغیرہ سمیت مختلف علاقوں سے ہوکر واپس آنا تھا۔’
انہوں نے بتایا،‘رووا کے پاس ہم نے دیکھا کہ کچھ نوجوان ایک مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔وہ ہتھیاروں سے لیس تھے۔انہوں نے پاکستان زندہ باد اور مذہبی نعرے لگائے۔ان کے اکساوے کی وجہ سے کچھ چھٹ پٹ واقعات پیش آئے۔’
داس نے کہا کہ انہیں شک ہے کہ انتظامیہ کا ایک طبقہ چاہتا تھا کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو جائے اور جان بوجھ کر ریلی کے لیے خاطر خواہ فورسز کو تعینات نہیں کیا گیا تھا۔
اپوزیشن سی پی آئی(ایم) نے واقعہ کی مذمت کی ہے۔سی پی آئی (ایم)نے ایک بیان میں دکان مالکوں کو خاطرخواہ معاوضہ فراہم کرنے کی مانگ کی۔
اپوزیشن سی پی آئی(ایم) کے ریاستی رہنما پبترا کر نے کہا، ‘بنگلہ دیش میں ہوئےتشدد کے بعد تریپورہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔یہ سب باتیں بی جے پی کی جانب سے کی جارہی ہیں۔ تریپورہ فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ ریاستی سرکار کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رہے۔’
بی جے پی ترجمان نبیندو بھٹاچاریہ نے کہا کہ انہیں معاملے کی جانکاری نہیں ہے، لیکن اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو پولیس کی طرف مناسب کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔
گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں درگا پوجا پنڈالوں میں ہوئے توڑ پھوڑ کےخلاف ہندوتواتنظیم تریپورہ میں احتجاج کے طو رپر لگاتار ریلیاں نکال رہے ہیں۔
گزشتہ22 اکتوبر کو تریپورہ ریاستی جمعیۃ علماء (ہند)نے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب کے دفتر کو ایک میمورنڈم سونپ کر گزشتہ تین دنوں میں مسجدوں اور اقلیتی بستیوں پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا۔
تب تریپورہ پولیس کے ایک سینئر افسر نے کہا تھا کہ کچھ چھٹ پٹ واقعات رونماہوئے تھے، لیکن لاء اینڈ آرڈرکا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔افسر نے اگرتلا کے پاس مسجد میں توڑ پھوڑ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم لگ بھگ 150 مسجدوں کو تحفظ مہیا کرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ واقعات کی جانچ کر رہے ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف ہوئے تشدد کےخلاف دفعہ144پابندیوں کی ان دیکھی کرتے ہوئے گومتی ضلع کےادے پور میں ایک ریلی کے دوران وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)اور ہندو جاگرن منچ کے کارکنوں کے بیچ21 اکتوبر کو ہوئی جھڑپ میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 15سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
آرگنائزرس کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ریلی کی پیشگی منظوری لی تھی، لیکن جب وہ اقلیتی اکثریتی علاقوں کے پاس جانے کی کوشش کر رہے تھے تو پولیس نے انہیں روک لیا تھا، جس کے بعد یہ جھڑپ ہوئی تھی۔
اگرتلا میں21 اکتوبر کو ہونے والا تین روزہ بنگلہ دیش انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھی رد کر دیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)