انڈیا ٹوڈے کےصحافی راجدیپ سردیسائی کے ایک مہینےکی تنخواہ بھی کاٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے 26 جنوری کو کسانوں کےٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد میں ایک نوجوان کی موت پر ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ ان کی موت پولیس فائرنگ میں ہوئی ہے۔ حالانکہ پولیس کی جانب سے ویڈیو جاری کرنے کے بعد انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔
راجدیپ سردیسائی(فوٹو: ویڈیوگریب)
نئی دہلی: 26 جنوری کو کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد میں ایک نوجوان کی موت کو لےکر کیے گئے ٹوئٹ کو لےکر انڈیا ٹو ڈے نیوز چینل نے اپنے سینئر اینکر اور صلاح کار ایڈیٹر راجدیپ سردیسائی کو دو ہفتوں کے لیے آف ایئر (یعنی دو ہفتوں تک ان کے کسی پروگرام کو نشر نہیں کیا جائےگا)کر دیا ہے۔ ساتھ میں ان کے ایک مہینے کی تنخواہ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔
دراصل سردیسائی نے تشدد کے دوران ایک نوجوان کی موت کو لےکر ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ نوجوان کی موت آئی ٹی او کے پاس پولیس کی فائرنگ کی وجہ سے ہوئی۔سردیسائی نے اس معاملے پر تبصرہ نہیں کیا، لیکن چینل کے ذرائع نے اس کی تصدیق کی تھی۔
مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں نے 26 جنوری کو کسان رہنما راکیش ٹکیت، درشن پال اور گرنام سنگھ چڈھونی سمیت کئی کسان رہنماؤں کی قیادت میں ٹریکٹر ریلی نکالی تھی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی، جس میں تقریباً 400 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس نے بعد میں ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کے سلسلے میں37 کسان رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ یوم جمہوریہ پر ہوئے اس واقعہ کی وجہ سے مبینہ طور پر دو کسان یونین تحریک سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔صحافی راجدیپ سردیسائی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا، ‘آئی ٹی اوپر مبینہ طورپر پولیس کی گولی باری میں نونیت سنگھ نام کے 45 سال کے ایک شخص کی موت ہو گئی۔ کسانوں نے مجھے بتایا کہ قربانی رائیگاں نہیں جائےگی۔’
دی وائر نے پہلے بتایا تھا کہ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ کسان کی حادثے میں موت ہوئی ہے، جبکہ دیگر مظاہرین کا کہنا تھا کہ کسان کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ٹریکٹر پلٹنے سے کسان کی موت ہوئی۔ بعد میں دہلی پولیس نے ویڈیو جاری کیا، جس میں ایک ٹریکٹر کا توازن بگڑتے اور پلٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ ابھی بھی اندازہ لگا رہے ہیں کہ
کیا پولیس کی جانب سےچھوڑے جا رہے آنسو گیس کے گولوں کی وجہ سے کسان یا اس کے ٹریکٹر کا توازن بگڑا، جس سے وہ پلٹ گیا۔
حالانکہ،پولیس کی جانب سے ویڈیو ریلیز ہونے کے منٹوں بعد ہی سردیسائی نے اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہا، ‘کسان مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ نونیت سنگھ ٹریکٹر پر تھا اور دہلی پولیس نے اسے گولی ماری۔ ویڈیو میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ پولیس بیریکیڈ توڑنے کی کوشش کرتے وقت ٹریکٹر پلٹ گیا۔ مظاہرین کا دعویٰ اب نہیں ٹھہرتا، پوسٹ مارٹم کا انتظار ہے۔’
انہوں نے پولیس کی تعریف کرتے ہوئے بھی ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ پولیس نے لال قلعہ اور آئی ٹی اوپر غضب کا صبر وتحمل دکھایا۔
اس کے علاوہ ٹوئٹ کرنے کے فوراً بعد سردیسائی نے انڈیا ٹو ڈے پر 26 جنوری کو شام 5:47 بجے لائیو کوریج کے دوران کہا تھا، ‘ہمیں جو پتہ چلا ہے کہ وہ یہ ہے کہ جن کسان مظاہرین سے ہم ملے، انہوں نے زور دیکر کہا تھا کہ جس نوجوان کی موت ہوئی ہے، اس کا نام نونیت سنگھ ہے اور اسے گولی لگی تھی، لیکن اب پولیس نے جو ویڈیودستیاب کرایا ہے، اس سے صاف ہے کہ ٹریکٹر پلٹ گیا تھا۔’
حالانکہ اس کے بعد بھی بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے مانگ کی تھی کہ سردیسائی کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے اور فیک نیوز پھیلانے کے لیے انہیں برخاست کیا جانا چاہیے۔
بی جے پی رہنما کپل مشرا نے ایک ٹوئٹ میں پولیس پر حملے کے لیے اکسانے کے لیے سردیسائی پر الزام لگایا اور ان کی گرفتاری کی مانگ کی، جبکہ بی جے پی آئی ٹی سیل کےچیف
امت مالویہ نے سردیسائی کو برخاست کرنے کی مانگ کی تھی۔
بہرحال راجدیپ کو دو ہفتے کے لیے چینل سے آف ایئر کرنے پر ان کی بیوی صحافی ساگریکا گھوش نے کہا ہیں کہ ہم نے ان سب آپادھاپی میں اصلی مدعے کو ہی کھو دیا ہے۔
ساگریکا نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘تیزی سے بدلتی کہانیوں میں ہر وقت کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس اسٹوری کو منٹوں میں ہی ٹھیک کر دیا گیا تھا، لیکن افسوس ناک یہ ہے کہ تشویشناک بات ہے کہ ہم نے ان سب کے دوران حقیقی مدعوں کو ہی کھو دیا اور 24 سال کے کسان کی موت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا۔میسنجر کو مت مارو۔’
دہلی پولیس نے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں کسان رہنماؤں کے خلاف جمعرات کو ‘لک آؤٹ’ نوٹس جاری کیا اور یواے پی اے کے تحت ایک معاملہ درج کیا۔
اس کے ساتھ ہی اپنی جانچ تیز کرتے ہوئے پولیس نے لال قلعے پر ہوئےتشدد کے سلسلے میں سیڈیشن کا معاملہ بھی درج کیا ہے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ ان واقعات کے پیچھے‘سازش’اور ‘مجرمانہ منصوبوں’ کی جانچ اس کی اسپیشل سیل کرےگی۔
وہیں، سردیسائی سے جڑے اس معاملے پر انڈیا ٹو ڈے گروپ نے بیان جاری کر کہا، ‘ہمارے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے لیےتادیبی کارروائی ایک خفیہ معاملہ ہے اور ہم اس پر تبصرہ کرنے سے بچنا چاہیں گے۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)