اپنی ویب سائٹ پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے اپ لوڈ کیے گئے الیکٹورل بانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز، میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ، ویدانتا اور چنئی گرین ووڈس ایسی کمپنیاں ہیں جن کا کام کاج سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے اور وہ جانچ ایجنسیوں کے نشانے پر رہی ہیں۔
نئی دہلی/ممبئی: اپنی ویب سائٹ پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سےاپ لوڈ کیے گئے الیکٹورل بانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز اور میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ اپریل 2019 سے جنوری 2024 تک بانڈ کے سرفہرست خریدار رہے، جنہوں نے بالترتیب 1368 کروڑ اور 980 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ دونوں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ (آئی ٹی) کے نشانے پر رہ چکے ہیں۔
جمعرات (14 مارچ) کو، عدالتی حکم کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے 2019 سے خریدے گئے اور کیش کرائے گئے الیکٹورل بانڈ پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی ) کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا ہے۔یہ اعداد و شمار اس وقت جاری کیے گئے جب سپریم کورٹ نے اس ہفتے کے شروع میں ایس بی آئی سے 2019 کے بعد سے الیکٹورل بانڈ خریدنے والوں اور کیش کرانے والوں کی تمام تفصیلات پیش کرنے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے بھی کہا تھا کہ وہ 15 مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر ڈیٹا شائع کرے۔
کمیشن نے ڈیٹا کے دو سیٹ اپ لوڈ کیے ہیں ۔ ایک فائل میں کمپنیوں کے ذریعے بانڈ کی خریداری کی تاریخ وار فہرست ہے اور دوسری فائل میں بانڈ کو کیش کرانے والی سیاسی جماعتوں کے ذریعے جمع کی گئی رقم کی تاریخ وار فہرست ہے۔
فیوچر گیمنگ:ای ڈی کے نشانے پر
فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پی آر نے 21 اکتوبر 2020 اور 9 جنوری 2024 کے درمیان 1368 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے، یہ سب 1 کروڑ روپے کی قیمت والے الیکٹورل بانڈ میں ہے۔
کوئمبٹور میں واقع فیوچر گیمنگ ہندوستان کی سب سے بڑی لاٹری کمپنیوں میں سے ایک ہے اور اس کے بانی سینٹیاگو مارٹن خود کو ‘لاٹری کنگ’ کہتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، 23 جولائی 2019 کو ای ڈی نے منی لانڈرنگ کے ایک مبینہ گھوٹالہ میں ان کی 120 کروڑ روپے کی جائیداد قرق کی تھی ۔ ان پر بے حساب نقدی کے ذریعے دولت جمع کرنے کا بھی الزام تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند ماہ قبل ای ڈی نے ان سے جڑے 70 سے زیادہ مقامات کی تلاشی لی تھی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق،کمپنی اس کارروائی کے بعد الیکٹورل بانڈ کی خریداری کے لیے آگے آئی، اس کے ذریعے بانڈ کی پہلی خریداری 21 اکتوبر 2019 کو دکھائی گئی ہے۔
تاہم، کمپنی اب بھی ای ڈی کے نشانے پر ہے۔ ایجنسی نے حال ہی میں گزشتہ ہفتے ریت کی کان کنی کے مبینہ معاملے کے سلسلے میں تمل ناڈو میں اس کے ٹھکانے کی تلاشی لی ہے۔ ایسا خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیاتھا۔
وہیں، 2 اپریل 2022 کو خبر آئی کہ ای ڈی نے کمپنی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی ہے اور اس کی 409.92 کروڑ روپے کی جائیدار ضبط کی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، پانچ دن بعد 7 اپریل 2022 کو کمپنی نے تقریباً 100 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔
جولائی 2022 میں الیکشن واچ ڈاگ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے مالی سال 2020-21 کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو سونپی گئی انتخابی ٹرسٹ کی شراکت کی رپورٹ کا تجزیہ کیا اور پایا کہ لاٹری کمپنی نے پروڈنٹ الیکٹورل ٹرسٹ کو 100 کروڑ روپے کا چندہ دیا تھا۔ ٹرسٹ نے بی جے پی کو سب سے زیادہ چندہ دیا تھا۔
کیسٹون پارٹنرز کے وکیل ارون سری کمار نے ٹوئٹ کیا، ‘اگر یہ تحفظ یا تاوان کی رقم نہیں ہے، تو چھاپے ماری کی شکار کمپنیاں چھاپوں کے درمیان سیاسی چندہ کیوں دیں گی۔’
بتادیں کہ 2017-2018 اور 2022-2023 کے درمیان فروخت کیے گئے کل 12008 کروڑ کے الیکٹورل بانڈ میں سے بی جے پی کو تقریباً 55 فیصد یا 6564 کروڑ روپے ملے ۔
میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ
دوسرے سب سے بڑے عطیہ دہندہ میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ نے 12 اپریل 2019 سے 12 اکتوبر 2023 کے درمیان 1 کروڑ روپے کی قیمت کے 980 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے ہیں۔
میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ، جس کا صدر دفتر حیدرآباد میں ہے، اپنی ویب سائٹ پر خود کو ‘عالمی بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے میں ایک ابھرتی ہوئی کمپنی’ کے طور پر پیش کرتی ہے۔
پی وی کرشنا ریڈی اور پی پی ریڈی کی ملکیت والی کمپنی کے دائرہ کار میں آب پاشی، پانی کا انتظام، بجلی، ہائیڈرو کاربن، ٹرانسپورٹ، عمارت اور صنعتی بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہیں۔ ویب سائٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ کمپنی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) میں پیش پیش رہی ہے اور فی الحال ملک بھر میں 18 سے زیادہ ریاستوں میں پروجیکٹ چلا رہی ہے۔
انٹرنیٹ پر کمپنی کے بارے میں کھوج بین کرنےسے پتہ چلتا ہے کہ کئی اہم منصوبے اس کی جھولی میں گئے ہیں ، جن میں ستمبر میں منگولیا میں 5400 کروڑ روپے کا خام تیل کا منصوبہ (منگول ریفائنری دونوں حکومتوں کے درمیان ایک پہل ہے)، مئی میں کل 14400 کروڑ روپے کی بولی کے لیے ممبئی میں تھانے-بوری ولی ٹوئن ٹنل پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے دو الگ الگ پیکج اور جون میں اپنی کمپنی آئی کام کے لیے وزارت دفاع سے 500 کروڑ روپے کا آرڈر شامل ہے۔
اس کی ویب سائٹ کے مطابق، کمپنی جموں و کشمیر میں زوجیلا ٹنل پر بھی کام کر رہی ہے۔ ویب سائٹ پر کئی دیگر اہم منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں بنیادی طور پر چاردھام ریل ٹنل، وجئے واڑہ بائی پاس کی چھ لین، دہلی-امرتسر-کٹرا ایکسپریس وے، مہاراشٹر سمردھی مہامارگ، سولاپور-کرنول-چنئی اقتصادی راہداری جیسے بڑے منصوبے شامل ہیں۔
گروپ کی ویسٹرن یوپی پاور ٹرانسمیشن کمپنی لمیٹڈ نے بھی الیکٹورل بانڈ میں 220 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے، جو سب سے بڑے عطیہ دہندگان کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔
ہندو بزنس لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق، 12 اکتوبر 2019 کو محکمہ انکم ٹیکس نے حیدرآباد میں گروپ کے دفاتر کا ‘معائنہ’ کیا تھا۔ تاہم، کمپنی نے ایک بیان میں اس بات کی تردید کی تھی کہ یہ کوئی چھاپہ یا تلاشی تھی اور اسے ‘روٹین معائنہ’ قرار دیا تھا۔
جنوری 2024 میں دکن کرانیکل نے اپنی ایک رپورٹ میں سی اے جی کی آڈٹ رپورٹ کا ذکر کیا تھا، جس میں میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ کے خلاف تلنگانہ کے ایک بڑے آبپاشی پروجیکٹ’ کالیشورم لفٹ ایریگیشن اسکیم (کے ایل آئی ایس)’ میں کیے گئے کام کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے گئے تھے؛کہا گیا تھا کہ کمپنی نے ہزاروں کروڑ روپے کے سرکاری فنڈز کا غبن کیا۔
دکن کرانیکل نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کے ذریعے کے ایل آئی ایس پر آڈٹ رپورٹ کے مطابق، کمپنی کو صرف چار پیکج میں 5188.43 کروڑ روپے کی اضافی ادائیگی کی گئی تھی۔
کمپنی کو اس وقت کی بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس ) حکومت کی سرپرستی حاصل ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔
تاہم، دی نیوز منٹ اور نیوز لانڈری کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا تھا کہ ای ڈی اور آئی ٹی تحقیقات کا سامنا کررہی 30 کمپنیوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں بی جے پی کو 335 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے۔
چنئی گرین ووڈس
یہ غیر معروف سی مینوفیکچرنگ فرم سرفہرست 20 عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے، جس نے 105 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے ہیں۔ یہ کمپنی آندھرا پردیش میں واقع رامکی گروپ کی ملکیت ہے۔ جولائی 2021 میں رامکی پر محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپہ مارا تھا۔ محکمہ نے کہا تھا کہ آئی ٹی حکام کو کئی قابل اعتراض دستاویز اور کاغذات ملے تھے، جن سے گروپ کے بے حساب لین دین میں ملوث ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
اس کے بعد 300 کروڑ روپے کی بے حساب آمدنی کے الزامات کا سامنا کر رہی اس کمپنی نے جنوری 2022 میں چنئی گرین ووڈس کے توسط سے اپنا پہلا الیکٹورل بانڈ خریدا۔ اس کے بعد اپریل 2022 اور 2023 میں بھی اس نے بانڈ خریدے۔
کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ
ممبئی کی اس کمپنی نے 410 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے ہیں۔
زوبا کارپ پر دستیاب کمپنی کی جانکاری کے مطابق، کمپنی 23 سال قبل 2000 میں قائم ہوئی تھی۔ ای سی آئی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، ریلائنس گروپ سے وابستہ کمپنی کوئیک سپلائی چین نے 5 جنوری 2022 کو پہلی بار بانڈ خریدا۔ پانچ دن بعد 10 جنوری کو اس نے دوبارہ بانڈ خریدے۔ اس کے بعد اگلی خریداری 11 نومبر 2022 کو ہوئی اور پھر ایک سال بعد دوبارہ 17 نومبر 2023 کو ہوئی۔ خریدے گئے تمام بانڈز 1 کروڑ روپے کی قیمت کے تھے۔
کمپنی کے دو موجودہ ڈائریکٹر وپل پران لال مہتہ اور تاپس مترا ہیں۔زوبا کارپ کے مطابق، تاپس مترا ریلائنس آئل اینڈ پٹرولیم، ریلائنس ایروز پروڈکشنز، ریلائنس فوٹو فلمز، ریلائنس فائر بریگیڈز، آر اے ایل انویسٹمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ریلائنس فرسٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ریلائنس پالی ایسٹر سمیت دیگرکے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
سال2021-2022 کے درمیان کمپنی کے ‘کل وقتی ڈائریکٹر’ کے طور پر مترا کی تنخواہ 46.1 لاکھ روپے تھی، اس کے ساتھ 3.53 لاکھ روپے کے اضافی الاؤنس بھی ملتے تھے۔
زوبا کارپ پر اپ لوڈ ڈیٹا کے مطابق، کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جنوبی ممبئی کے دھوبی تالاب میں دفتر کی جگہ ہے۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق، کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ اپنے صارفین کو لاجسٹک اور دیگر سپورٹ سروس فراہم کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
مالی سال 2022-23 کے لیے کمپنی کے ریٹرن اور شیئر ہولڈر کے اہم ٹرن اوور (91.1فیصد) زمینی نقل و حمل (لینڈ ٹرانسپورٹ)کا ہے، باقی 8.3فیصد دوسری تنظیموں کو سپورٹ سروس فراہم کرنے سے اور ایک چھوٹا سا حصہ تھوک تجارت سے آیا بتایا گیا تھا۔
ویدانتا
ویدانتا الیکٹورل بانڈ کا چوتھا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہ اس وقت سرخیوں میں تھا جب الیکٹورل بانڈ پیش کرنے کے لیے فنانس بل متعارف کرانے کے متنازع طریقے کا استعمال کیا گیا تھا۔
یہ وہی وقت تھا جب فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) میں سابقہ ترمیم کے لیے ویدانتا کو شامل کرتے ہوئے منی بل لایا گیا تھا۔
مودی حکومت نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کو ویدانتا کے عطیات کو قانونی شکل دینے کے لیے ایف سی آر اے میں اہم ترامیم کی تھیں، اس طرح بی جے پی اور کانگریس کو ایکٹ کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی سے چھوٹ مل گئی تھی۔ یہ دفعہ سیاسی جماعتوں، ان کے عہدیداروں اور کسی بھی ایوان کے اراکین کو غیر ملکی کمپنیوں یا ہندوستان میں غیر ملکی کمپنیوں کے زیر کنٹرول کمپنیوں سے چندہ وصول کرنے سے منع کرتا ہے۔
ویدانتا نے 400.65 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے ہیں۔ 10 جنوری 2022 کو اس نے 1 کروڑ روپے کی قیمت کے 73 بانڈ خریدے۔ لائیو منٹ نے 14 جنوری 2022 کو اطلاع دی تھی کہ ویدانتا گروپ نے بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (بی پی سی ایل) کو خریدنے کے لیے بولی لگائی تھی اور یہ ‘اس کے حصول کے لیے 12 ارب ڈالر خرچ کرنے کوتیار تھا۔’ یہ ملکی اثاثوں کی سب سے بڑی فروخت میں سے ایک ہے اور جس کی تکمیل میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔’
ایک انٹرویو میں اس کے ارب پتی چیئرمین انل اگروال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘وہ ‘بڑھ چڑھ کر بولی نہیں لگانے جا رہے ہیں، لیکن صحیح قیمت لگائیں گے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘کمپنی کا مارکیٹ کیپ 11 بلین ڈالر سے 12 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے، لہذا وہ سرمایہ کاری کی اسی رقم کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔’
اگر یہ سودا طے پا جاتا، تو یہ نجکاری کی سب سے بڑی پیش رفت میں سے ایک ہوتی، لیکن اسے رد کر دیا گیا، کیوں کہ پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ کو حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کرنے والی تین کمپنیوں میں سے دو نے اپنی بولی واپس لے لی۔
اگروال نے 22 اپریل 2022 کو بزنس ویب سائٹ منی کنٹرول کو بتایا تھا کہ حکومت نے بی پی سی ایل میں اپنا حصہ بیچنے کی تجویز کو واپس لے لیا ہے اور وہ ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آئے گی۔ معلوم ہو کہ انڈین آئل کے بعد یہ ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی تیل کمپنی ہے۔
ویدانتا کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو کہتے ہیں، ‘دلچسپ بات یہ ہے کہ ویدانتا گروپ نے بانڈ اس وقت خریدے جب وہ 2019 سے 2022 تک ای ڈی /سی بی آئی کی جانچ کے دائرے میں تھا۔ اسی وقت گروپ کو گجرات میں پی ایم مودی کے پرعزم سیمی کنڈکٹر پروجیکٹ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، جس کے لیے حکومت نے 5 بلین ڈالر کی بڑی گرانٹ کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم، یہ منصوبہ چلا نہیں۔’
ہلدیا انرجی لمیٹڈ
الیکٹورل بانڈ کے ذریعے پانچواں سب سے بڑا عطیہ دہندہ سنجیو گوئنکا کی ہلدیا انرجی لمیٹڈ ہے، جس نے یکم اکتوبر 2019 سے 5 جنوری 2024 کے درمیان 377 کروڑ روپے کا چندہ دیا۔ کولکاتہ میں مقیم ارب پتی آر پی سنجیو گوئنکا گروپ کے مالک ہیں، جن کے پاس پاور اینڈ انرجی، ریٹیل، آئی ٹی، ایف ایم سی جی، میڈیا اور تفریح، انفراسٹرکچر اور تعلیم جیسے شعبوں میں کاروبار ہیں۔
ہلدیا انرجی لمیٹڈ مغربی بنگال کی بندرگاہ ٹاؤن شپ ہلدیا میں کوئلے سے چلنے والا تھرمل پاور پلانٹ بھی چلاتا ہے اور یہ آر بی سنجیو گوئنکا گروپ کی فلیگ شپ کمپنی کلکتہ الکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ملکیت والی ذیلی کمپنی ہے۔
کمپنی نے 1 اکتوبر 2019 کو الیکٹورل بانڈ کی خریداری شروع کی جب اس نے 1 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ تاہم، ہر آنے والے سال کے ساتھ خریداریاں بڑھتی گئیں، اور یہاں تک کہ عطیات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ کمپنی نے 2020 میں تین قسطوں میں 21 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے اور 2021 میں پانچ قسطوں میں 105 کروڑ روپے خرچ کیے۔
اسی طرح، اس نے 2022 میں 85 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے، جبکہ اس نے 2023 میں الیکٹورل بانڈ میں 115 کروڑ روپے خرچ کیے۔ اس کی آخری خریداری 5 جنوری 2024 کو ہوئی تھی، جب اس نے 35 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے تھے۔
ہلدیا نے اپنا پہلا بانڈ 7 مئی 2019 کو خریدا۔ اس نے کل 24 بانڈ خریدے جن میں 1 کروڑ روپے کی قیمت کے 14 بانڈ اور 10 لاکھ روپے کی قیمت کے 10 بانڈ شامل تھے۔
پچھلے سال، مغربی بنگال کے بی جے پی لیڈر سویندو ادھیکاری نے الیکٹورل بانڈ اور دیگر ذرائع سے ترنمول کانگریس کو فنڈ دینے کے حوالے سے سنجیو گوینکا کو نشانہ بنایا تھا ۔
گوینکا، جو آئی پی ایل ٹیم لکھنؤ سپر جائنٹس اور کولکاتہ کے آئی ایس ایل فٹ بال کلب موہن باگان سپر جائنٹس کے مالک بھی ہیں، شمال—مشرقی ریاستوں میں بھی اپنے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں، جہاں وہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی کمپنی کے عہدیداروں نے شمال—مشرقی خطے کی ترقی کے وزیر مملکت بی ایل ورما کے ساتھ میٹنگ کی تھی، جس میں انہوں نے شمال—مشرقی ریاستوں میں کچھ ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کو تیار کرنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ سی ای ایس سی کی راجستھان اور گجرات میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں دلچسپی ہے، جہاں وہ اپنے مجوزہ منصوبوں کے لیے 50000 ایکڑ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جنوری 2024 میں، سی سی ایس سی نے 10500 ٹن سالانہ گرین ہائیڈروجن پروڈکشن کی سہولت قائم کرنے کے لیے اے سی ایم ای کلین ٹیک سیمبکارپ، گرین کو، اواڈا، ریلائنس انڈسٹریز، جے ایس ڈبلیو انرجی اور اڈانی گروپ جیسی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ یہ ٹینڈر سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ نے مدعوکیا تھا۔
سنجیو گوئنکا کی سی ای ایس سی اور آر پی جی انٹرپرائزز 1993-95 کے دوران دیوچا پچامی، تارا ویسٹ، مہان اور جنوبی دادو میں کوئلہ بلاکس کی الاٹمنٹ میں بدعنوانی، دھوکہ دہی اور مجرمانہ سازش سے متعلق ایک معاملے میں 2012 سے سی بی آئی کی جانچ کے دائرے میں ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )