پوڑی سے لوک سبھا ایم پی تیرتھ سنگھ راوت کو بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ترویندر سنگھ راوت کی جگہ پر وزیر اعلیٰ چنا گیا تھا۔ اتراکھنڈ بی جے پی میں عدم اطمینان کی وجہ سے ترویندر سنگھ راوت نے گزشتہ نو مارچ کو استعفیٰ دے دیا تھا۔
نئی دہلی:اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے جمعہ کی شب کو گورنر بےبی رانی موریہ سے ملاقات کےبعد ان کو اپنا استعفیٰ سونپ دیا۔ اپنے تین روزہ دہلی کے دورے سے دہرادون لوٹنے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی تیرتھ سنگھ راوت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس دورے کے دوران وہ دو بار بی جے پی صدر جےپی نڈا اور ایک بار وزیر داخلہ امت شاہ سے ملے تھے۔
دہلی سے لوٹنے کے فوراً بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے اپنی سرکار کی کارکردگی کو گنانے کے ساتھ کچھ اعلانات کیے تھے۔ ایسی قیاس آرائیاں تھیں کہ اس پریس کانفرنس میں وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ حالانکہ آدھی رات کے قریب ان کے استعفیٰ کے ساتھ یہ قیاس آرائیاں ختم ہوگئیں۔
اب سنیچر کو دوپہر بعدبھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)مقننہ پارٹی کی بیٹھک میں موجودہ ارکان اسمبلی میں سے ہی کسی ایک کو مقننہ پارٹی کا رہنما منتخب کیا جائےگا۔دہلی سے لےکر دہرادون تک دن بھر چلی ملاقاتوں اور بیٹھکوں کے دور کے بعد راوت نے جمعہ کی شب تقریباً 11:30 بجے اپنے کابنیہ کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ گورنر کو اپنا استعفیٰ سونپا۔
استعفیٰ دینے کے بعد وزیر اعلی ٰراوت نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے استعفیٰ دینے کی بنیادی وجہ آئینی بحران ہے، جس میں الیکشن کمیشن کے لیے انتخاب کرانا مشکل تھا۔انہوں نے کہا، ‘آئینی بحران کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنا استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔’
راوت نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت مرکزی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے انہیں اعلیٰ عہدوں پر خدمت کرنے کا موقع دیا۔
تیرتھ سنگھ راوت، جو ابھی بھی پوڑی سے لوک سبھا ایم پی ہیں، کو مرکزی قیادت کی جانب سے ترویندر سنگھ راوت کی جگہ پر وزیر اعلیٰ کے طور پر چنا گیا تھا۔ اتراکھنڈ بی جے پی میں عدم اطمینان کی وجہ سے ترویندر سنگھ راوت نے گزشتہ نو مارچ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد 10 مارچ کو تیرتھ سنگھ راوت نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا اور ان کے پاس 10 ستمبر تک ایم ایل اے چنے جانے کا وقت تھا۔
اس طرح سے گزشتہ چار مہینے میں بی جے پی کی طرف سے تیسراوزیر اعلیٰ اتراکھنڈ کااقتدار سنبھالےگا۔
دراصل عوامی نمائندگی ایکٹ،1951 کی دفعہ151اے کے مطابق، الیکشن کمیشن کوپارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں اور صوبے کے قانون ساز ایوانوں میں نشستوں کے خالی ہونے کی تاریخ سے چھ ماہ کے اندرضمنی انتخابات کے ذریعےپُر کرنے کا اختیار ہے، بشرطیکہ کسی خالی نشست سے جڑے کسی ممبر کی بقیہ مدت کات ایک سال یا اس سے زیادہ ہو۔
یہی قانونی مجبوری وزیر اعلیٰ کے اسمبلی پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کےطور پر سامنے آئی، کیونکہ اسمبلی انتخاب میں ایک سال سے کم کا وقت بچا ہے۔ ویسے بھی کووڈ مہاماری کی وجہ سے فی الحال انتخاب کے حالات نہیں بن پائے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ،صوبے کے رہنما پورے معاملے میں مرکزی قیادت کی جانب سے ادا کیے گئے رول پر سوال اٹھا رہے ہیں، جس نے کچھ مہینوں کے اندروزیر اعلیٰ کی دو تبدیلیوں کے ساتھ پارٹی کو اگلے سال اسمبلی انتخاب سے پہلے ناقابل یقین حالات میں چھوڑ دیا ہے۔
بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی نے تیرتھ سنگھ راوت کو منتخب کرانے کا کم از کم ایک موقع گنوا دیا، جب اپریل میں سلٹ اسمبلی سیٹ کے لیے ضمنی انتخاب ہوا تھا۔بی جے پی ایم ایل اے سریندر سنگھ جیناکی موت کی وجہ سےیہاں ضمنی انتخاب کرانا پڑا تھا۔ راوت کے وزیر اعلیٰ بننے کے 19 دن بعد 29 مارچ کو بی جے پی نے جینا کے بڑے بھائی مہیش کو اپنا امیدواربنایا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آئینی بحران سے بچنے کے لیے صوبے میں اپریل میں ہوا سلٹ ضمنی انتخاب انہوں نے کیوں نہیں لڑا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت وہ کووڈ کی زدمیں تھے اور اس لیے انہیں اس کے لیے وقت نہیں ملا۔
ذرائع نے کہا کہ بی جے پی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تیرتھ سنگھ راوت سلٹ سے جیت پائیں گے۔ یہ سیٹ کماؤں حلقہ میں آتی ہے اور راوت کا سیاسی کریئر گڑھوال تک ہی محدود رہا ہے۔ مہیش کے امیدوار کے طورپر ہونے سے بی جے پی نےیہ سیٹ2017 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے زیادہ فرق سے جیتی تھی۔
بی جے پی کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کے پس پردہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کے ہارنے کی تاریخ بھی ہو سکتی ہے۔ 2012 میں بی جے پی کے بی سی کھنڈوری کوٹ دوار سے ہار گئے تھے اور 2017 میں کانگریس رہنما ہریش راوت کچھا اور ہری دوار دیہی دونوں سیٹوں سے ہار گئے تھے۔
وزیر اعلیٰ راوت کے ساتھ موجود ریاستی صدر مدن کوشک نے کہا، ‘الیکشن کمیشن نے کہا کہ ضمنی انتخاب نہیں کرا پائیں گے، اس لیے ہم لوگوں نے مناسب سمجھا کہ آئینی بحران کی صورتحال پیدا نہ ہو۔’
انہوں نے کہا کہ نئے رہنما کاانتخاب کرنے کے لیےسنیچر کو پارٹی کے ریاستی ہیڈکوارٹر میں مقننہ پارٹی کی اہم بیٹھک بلائی گئی ہے۔
سنیچرکو دوپہر تین بجے بلائی گئی اس بیٹھک کی صدارت خودریاستی صدرکوشک کریں گے، جبکہ مرکزی سپروائزر کےطورپر وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر اور بی جے پی جنرل سکریٹری اور اتراکھنڈ کے انچارج دشینت گوتم موجود رہیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی کی جانب سے تمام ارکان اسمبلی کوسنیچر کی بیٹھک میں موجود رہنے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔اتراکھنڈ میں قیادت کی تبدیلی کو لےکرقیاس آرائیاں اسی دن شروع ہوگئی تھیں جب راوت کو مرکزی قیادت نے دہلی طلب کیا تھا اور تمام طے شدہ پروگراموں کو چھوڑکر وہ 30 جون کو دہلی پہنچ گئے تھے۔
اپنے تین دن کے دہلی دورے پر انہوں نے ایک جولائی کی شب وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا سے مشاورت کی تھی۔ اگلے دن دو جولائی کو انہوں نے 24 گھنٹے کے اندر دوسری بار نڈا سے ملاقات کی۔
دہرادون لوٹنے کے بعد وزیر اعلیٰ راوت سکریٹریٹ پہنچے اور وہاں صحافیوں سے مخاطب ہوئے، لیکن انہوں نے اپنے استعفیٰ کے بارے میں کوئی بات نہ کرتے ہوئے نئےاعلانات کرکے سب کو حیرانی میں ڈال دیا۔ ایسے قیاس لگائے جا رہے تھے کہ وہ اس پریس کانفرنس میں اپنے استعفیٰ کا اعلان کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 مہاماری سے بری طرح متاثر ہوئے ٹرانسپورٹ اور سیاحتی شعبےکے لوگوں کو راحت دینے کے لیے کئی قدم اٹھائے گئے ہیں اور انہیں لگ بھگ 2000 کروڑ روپے کی مدد دی جائےگی۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ان کی سرکار نے کووڈ 19مہاماری سے متاثر نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے چھ ماہ میں 20000 اسامیاں بھرنے کااعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ اعلان پہلے ہی کرنا چاہتے تھے، لیکن تین دن دہلی میں رہنے کی وجہ سے اب کر رہے ہیں۔
صوبےمیں فی الحال اسمبلی کی دو سیٹیں گنگوتری اور ہلدوانی خالی ہیں۔ بی جے پی ایم ایل اے گوپال سنگھ راوت کی اس سال اپریل میں موت ہونے سے گنگوتری، جبکہ کانگریس کی سینئر رہنما اندرا ہردییش کی موت سے ہلدوانی سیٹ خالی ہوئی ہے۔
بی جے پی قیادت کی وجہ سے تیرتھ راوت مذاق بن گئے: ہریش راوت
کانگریس کے سینئر رہنما ہریش راوت نے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کے استعفیٰ کے بعد جمعہ کو حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی وجہ سے تیرتھ مذاق بن گئے۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘2017 میں اقتدار میں آئی اتراکھنڈ بی جے پی نے اپنے دو رہنماؤں کی حالت مضحکہ خیزبنا دی ہے، دونوں بھلے آدمی ہیں۔ ترویندر راوت جی کو بجٹ سیشن کے بیچ میں بدلنے کافیصلہ لے لیا، جبکہ محکمہ مالیات بھی انہی کے پاس تھا، بجٹ پر چرچہ اور بحث کا جواب انہی کو دینا تھا، بجٹ انہیں کو پاس کروانا تھا۔’
बजट उन्हीं को पारित करवाना था। सब हबड़-तबड़ में बजट भी पास हुआ और त्रिवेन्द्र सिंह जी की विदाई भी हो गई और उतने भले ही आदमी @TIRATHSRAWAT जी मुख्यमंत्री बने और तीरथ सिंह जी की स्थिति कुछ उनके बयानों ने और जितनी रही-सही कसर थी, वो #भाजपा के शीर्ष द्वारा उनके… 2/3
— Harish Rawat (@harishrawatcmuk) July 2, 2021
ہریش راوت نے کہا، ‘سب عجلت میں بجٹ بھی پاس ہوا اور ترویندر سنگھ جی کی وداعی بھی ہو گئی اور اتنے بھلے ہی آدمی تیرتھ راوت جی وزیر اعلیٰ بنے۔ تیرتھ سنگھ جی کی حالت کچھ ان کے بیانات نے اور جتنی رہی سہی کسر تھی، وہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے ذریعے ان کےانتخاب لڑنے کے سوال پر فیصلہ نہ لینےکی وجہ سے مضحکہ خیزبن گئی، وہ مذاق بن کر کے رہ گئے۔’
اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا، ‘لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے وزیر اعلیٰ کو جب اسی بات کا علم نہیں تھا کہ ان کو کب انتخاب لڑکر اسمبلی پہنچنا ہے تو یہ ہماری کیا ترقی کرےگا!’
کھلونوں کی طرح وزیر اعلیٰ بدلنے کے لیے وزیر اعظم اور بی جے پی صدرذمہ دار: کانگریس
کانگریس نے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے تیرتھ سنگھ راوت کے استعفیٰ کے بعد سنیچر کو بی جے پی پر ‘اقتدار کی بندر بانٹ’ کرنے کاالزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ ‘کھلونوں کی طرح وزیر اعلیٰ بدلنے’کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر جےپی نڈا ذمہ دار ہیں۔
پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کہا کہ اب اتراکھنڈ کی عوام انتخاب کا انتظار کر رہی ہے، تاکہ وہ مستحکم اور ترقی پسند سرکار کے لیے کانگریس کو موقع دے سکے۔انہوں نے صحافیوں سے کہا، ‘اتراکھنڈ کی دیوبھومی، بی جے پی کی اقتدار کی لالچ، اقتدار کی ملائی کے لیے ہوڑ اور بی جے پی کی ناکامی کی مثال بنتی جا رہی ہے۔’
سرجےوالا نے دعویٰ کیا،‘صوبے کے لوگوں نے مکمل اکثریت دےکر بی جے پی کو سرکار بنانے کا موقع دیا، لیکن بی جے پی نے صرف اقتدار کی ملائی بانٹنے اور اقتدار کی بندرباٹ کرنے کا کام کیا۔ بی جے پی کے لیےیہ موقع اقتدار کی ملائی چکھنے کا موقع بن گیا۔’
انہوں نے دہلی، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں ماضی کی بی جے پی سرکاروں میں کئی وزرائے اعلیٰ کو بدلے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ‘بی جے پی کی ایک ہی مدت کار میں وزیر اعلیٰ بدلنے کی تاریخ ہے۔ بی جے پی کھلونوں کی طرح وزیر اعلیٰ بدلتی ہے۔ یہی اتراکھنڈ میں ہو رہا ہے۔’
سرجےوالا نے الزام لگایا کہ اس صورتحال کے لیےوزیر اعظم نریندر مودی اور جےپی نڈا ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے بی جے پی کو طنزکا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘بی جے پی نے اتراکھنڈ میں پہلے بھی تین تین وزیر اعلیٰ بدلے تھے اور اس بار بھی تیسرا وزیر اعلیٰ بنانے کی تیاری میں ہیں۔ ہم تو کہیں گے کہ اگلے چھ مہینوں میں دو تین اور بدل دیجیے، تاکہ ملک میں سب سے زیادہ وزیر اعلیٰ بدلنے کا ریکارڈ بن جائے۔’
کانگریس کے ریاستی انچارج دیویندریادو نے الزام لگایا، ‘یہ بی جے پی قیادت کی لاپرواہی اور ناسمجھی ہے۔ ایک ایسے وزیر اعلیٰ کو اتراکھنڈ پر تھوپا گیا کہ جو اسمبلی کا ممبر نہیں ہے۔ بی جے پی نے خوشحال دیوبھومی کو بدحال کرنے کے لیے یہ سب کیا ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)