کنڑزبان میں ٹیپو سلطان پر مبنی کتاب ‘ٹیپو نجا کنسوگالو’ کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی مانگ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کا مواد مسلم کمیونٹی کے خلاف ہے اور اس کی اشاعت سے بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلنے اور فرقہ وارانہ تشدد کا خدشہ ہے۔
نئی دہلی: کرناٹک کی ایک عدالت نے ٹیپو سلطان پر مبنی کتاب کے ڈسٹری بیوشن اور فروخت پر عبوری روک لگا دی ہے۔
بنگلور کی ایڈیشنل سٹی سول اینڈ سیشن کورٹ نے منگل کو یہ فیصلہ ضلع وقف بورڈ کمیٹی کے سابق چیئرمین بی ایس رفیع اللہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیا۔ عرضی میں اس کتاب کے تعلق سے ٹیپو سلطان کے بارے میں غلط معلومات دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عدالت نے رنگاین کے ڈائریکٹر اڈانڈا سی کریپا کی لکھی ہوئی کتاب ‘ٹیپو نجا کنسوگالو’ کی فروخت پر 3 دسمبر تک روک لگانے کے لیے اس کے مصنف اور پبلشر ایودھیا پرکاشن اور پرنٹر راشٹراتھان مدرانالیہ کو عارضی حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، مدعا علیہان1، 2، 3 اور ان کے توسط سے یا ان کے تحت دعویٰ کرنے والے افراد اور ایجنٹوں کو عارضی حکم نامہ کے ذریعے کنڑ زبان میں لکھی گئی کتاب ‘ٹیپو نجا کنسوگالو’ (ٹیپو کے حقیقی خواب) کو آن لائن پلیٹ فارم سمیت کسی بھی دوسرے میڈیم پر فروخت کرنے اور اس کے ڈسٹری بیوشن سے روکا جاتاہے۔
تاہم، عدالت نے کہا، یہ یہ پابندی مذکورہ کتاب کو اپنے جوکھم پرچھاپنے اور پہلے سے ہی شائع شدہ کاپیاں کو محفوظ رکھنے میں مدعا علیہان 1، 2، 3 کے آڑے نہیں آئے گی۔
بی ایس رفیع اللہ نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ کتاب میں ٹیپو سلطان کے بارے میں غلط معلومات شائع کی گئی ہیں جس کی نہ تو تاریخ تائید کرتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے۔
رفیع اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ کتاب میں استعمال کیا گیا لفظ ‘تورکارو’ مسلم کمیونٹی کے لیے توہین آمیز اصطلاح ہے۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ اس کتاب کی اشاعت سے بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
لائیو لاء کے مطابق، مدعی نے عدالت کو بتایا، ‘اذان، جو کہ مسلم کمیونٹی کا مذہبی عمل ہے، اس کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کتاب میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔’
تاہم مصنف نے
دعویٰ کیا ہے کہ یہ کتاب ‘حقیقی تاریخ’ پر مبنی ہے اور جو کچھ بھی تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے اور اسکول کی کتابوں میں پڑھایاجاتا ہے وہ غلط ہے۔
رفیع اللہ کی دلیلوں کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ‘اگر کتاب کے مندرجات غلط ہیں اور اس میں ٹیپو سلطان کے بارے میں غلط معلومات ہیں اور اگر اسے تقسیم کیا جاتا ہے تو اس سے مدعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کے متاثر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔
عدالت نے کہا، اگر معاملے میں مدعا علیہان کی پیشی کے بغیر کتاب کو تقسیم کیا جاتا ہے، تو عرضی گزار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ متنازعہ کتابیں کتنی تیزی سے بکتی ہیں۔ اس لیے اس مرحلے پر حکم امتناعی جاری کرنے میں سہولت کا توازن مدعی کے حق میں ہے۔
عدالت نے تینوں مدعا علیہان کو ہنگامی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)