ملک کےسابق چیف الیکشن کمشنرایس وائی قریشی نے اپنی نئی کتاب‘دی پاپولیشن متھ:اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پالیٹکس ان انڈیا’ میں کہا ہے کہ مسلمانوں نے آبادی کے معاملے میں ہندوؤں سے آگے نکلنے کے لیے کوئی سازش نہیں کی ہے اور ا ن کی تعداد ملک میں ہندوؤں کی تعداد کو کبھی چیلنج نہیں دے سکتی۔
نئی دہلی: ملک کےسابق چیف الیکشن کمشنرایس وائی قریشی نے کہا کہ مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھانے کے لیے‘ہندوتواگروپوں کے ذریعے پیدا کیے گئے متھ’ کو توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کے تصورکی مخالف نہیں کرتا اور مسلمان ہندوستان میں سب سے کم کثرت ازدواج والاطبقہ ہے۔
قریشی نے اپنی نئی کتاب ‘دی پاپولیشن متھ:اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پالیٹکس ان انڈیا’میں دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے آبادی کے معاملے میں ہندوؤں سے آگے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ بند سازش نہیں کی اور ان کی تعداد ملک میں ہندوؤں کی تعداد کو کبھی چیلنج نہیں دے سکتی۔
قریشی نے اپنی اس کتاب کے سلسلے میں فون پر دیےانٹرویو میں کہا، ‘اگر آپ کوئی جھوٹ سو بار بولیں، تو وہ سچ بن جاتا ہے۔’انہوں نے کہا کہ یہ پروپیگنڈہ‘بہت مضبوط’ہو گیا ہے اور سالوں سے اس کمیونٹی کے خلاف مشتہر اس بات کو چیلنج دینے کاوقت آ گیا ہے۔
قریشی نے کہا کہ ایک متھ یہ ہے کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف ہے اور اکثر مسلمان بھی اس پر یقین کرتے ہیں، لیکن یہ بات قطعی درست نہیں ہے۔انہوں نے کہا، ‘اسلامی فقہ کو اگرتوجہ سے پڑھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام خا ندانی منصوبہ بندی کے خلاف قطعی نہیں ہے۔ اس کےبرعکس یہ اس تصورکاعلمبردار ہے، لیکن قرآن اور حدیث کی مسخ شدہ تشریحات کی وجہ سےیہ سچائی دب گئی ۔’
قریشی نے کہا، ‘میں نے دلیل دی ہے کہ قرآن نے خاندانہ منصوبہ بندی پر کہیں بھی پابندی عائد نہیں کی ہے۔’انہوں نے کہا کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کے نظریےکا حامی ہے، کیونکہ یہ نوجوانوں سے تبھی شاد ی کرنے کی امید کرتا ہے، جب وہ اپنے کنبہ کی پرورش کے اہل ہو جائیں۔
جولائی 2010 سے جون 2012 تک چیف الیکشن کمشنر رہے قریشی نے کہا، ‘اسلام ماں اور بچہ کی صحت اورصحیح پرورش وپراخت پر زور دیتا ہے۔’
قریشی نے اپنی کتاب میں استدلال کیا ہےکہ خاندانی منصوبہ بندی ہندو بنام مسلمان کا معاملہ نہیں ہے، کیونکہ دونوں کمیونٹی خاندانی منصوبہ بندی کو متاثر کرنے والے سماجی واقتصادی انڈیکس میں‘کندھے سے کندھا’ملاکر کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں ہندو- مسلم افزائش نسل سے متعلق فرق بنا ہوا ہے، لیکن اس کی بنیادی وجہ خواندگی، آمدنی اور خدمات تک رسا ئی جیسے معاملوں میں مسلمانوں کا قدرے پسماندہ ہونا ہے۔
قریشی نے اپنی کتاب میں کثرت ازدواج جیسے متھ کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہنداتواگروپوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا ہے کہ مسلمان چارعورتوں سے شادی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی آبادی بڑھا سکیں، جو بے بنیادہے۔انہوں نے کہا،‘1931 سے 1960 تک کی مردم شماری سےتصدیق ہوتی ہے کہ تمام برادریوں میں کثرت ازدواج کا معاملہ کم ہوا ہے اور اس معاملے پرموجود واحدر سرکاری رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں اس کا چلن سب سے کم ہے۔’
قریشی نے کہا کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ اسلام میں خواتین کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے 14صدی پہلے ہی خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے برابر درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان خواتین کو 1400سال پہلے ہی جائیداد کے حق مل گئے تھے، جبکہ باقی دنیا میں ایسا 20ویں صدی میں ہوا۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کے ووٹ بینک ہونے کے تصورکو غلط ٹھہرایا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ سیاسی طور پر طاقتور ہوتے۔
انہوں نے کہا، ‘انہیں اقتدار کے نام پر فریب ملتا ہے۔ اگر وہ ووٹ بینک تھے پھر بھی بنگال اور کیرل میں 30 فیصدی اور یوپی اور بہار میں20 فیصدی ہونے کے باوجود وہ سیاسی قوت بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے بجائے انہیں اقلیتی وزیر بننے کا جھن جھنا دے دیا جاتا ہے۔ مسلم ووٹ تقسیم ہوجاتا ہے اور وہ گروپ میں ووٹ نہیں دیتے ہیں۔’
قریشی اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ آبادی میں استحکام اب 29 میں سے 24 ریاستوں میں 2.1 کی تبدیلی کی شرح سے نیچے ہے۔انہوں نے کہا،‘ہمیں ہندی بیلٹ کی چار سب سے بڑی ریاستوں پر توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں نیچے کھینچ رہے ہیں۔ اگر آبادی میں استحکام کے ترجیحی مقصد کے لیے اجتماعی ترقی بلاروک ٹوک جاری رہی تو ملک آبادی منافع کو حاصل کرنے اور بہت جلدعالمی اقتصادی سپر پاور بننے کی امید کر سکتا ہے۔’
انہوں نے مسلمانوں سے نفرت پھیلانے والے پروپیگنڈہ اورجنگ کے لیے اکساوے میں نہ پڑنے کی بھی اپیل کی، اس کے بجائے کمیونٹی اورملک کے مفاد میں خاندانی منصوبہ بندی اپنانے کے لیے کہا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)