بنگلورو کی ہندو جن جاگرتی سمیتی کے کوآرڈینیٹر چندرو موگر نے تین دن پہلے ہندوؤں سے صرف ہندو دکانداروں سے پھل خریدنے کی اپیل کی تھی تاکہ پھلوں کی تجارت میں مسلمانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جاسکے۔ اس کے بعد سے چار سماجی کارکن فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کو فروغ دینے کے الزام میں موگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: تین روز قبل بنگلورو کی ہندو جن جاگرتی سمیتی کے کوآرڈینیٹر چندرو موگر نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ صرف ہندو دکانداروں سے ہی پھل خریدیں تاکہ پھلوں کی تجارت میں مسلمانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا سکے، لیکن اب تک ان کے خلاف اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔
دریں اثنا، چار سماجی کارکنوں کا ایک گروپ فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کو فروغ دینے کے الزام میں موگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کارکنوں میں ایک پیشے سے وکیل، دو پیرا لیگل اور ایک انجینئر ہیں۔
موگر کی مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کرنے کی اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب معاشرے کا ایک بڑا طبقہ حلال گوشت اور اذان کے دوران مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگانے کے لیے ہندوتوا گروپوں کے مطالبے کی پہلے سے ہی تنقید کر رہا ہے۔
پھلوں کے کاروبار میں مسلمانوں کی اجارہ داری کا الزام لگانے کے علاوہ موگر نے ٹوئٹ کرکے مسلمانوں پر پھلوں کو فروخت کرنے سے پہلے ان پر تھوکنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا،میں تمام ہندوؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پھلوں کے کاروبار میں مسلمانوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں مدد کریں۔
اشیائے خوردنی پر تھوکنے کے الزامات آجکل ہندوتوا کے گلیاروں میں زوروں پر ہیں، جسے ہندوتوا عناصر ‘تھوک جہاد‘ کہتے ہیں۔
موگر کی اس اپیل کی کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی سمیت کئی رہنماؤں نے تنقید کی، جنہوں نے مسلمانوں سے پھل نہ خریدنے کی ہدایت کو ملک اور کسانوں کے خلاف غداری قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں سے مسلمانوں سے آم یا پھل نہ خریدنے کی اپیل کرنا ملک سے دشمنی اور کسان مخالف رویہ ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کے ترجمان، انجینئر نے پولیس سے رابطہ کیا
موگر کے خلاف پولیس کارروائی نہ ہونے پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) بنگلورو کے ترجمان اور بندھوآ مکتی مورچہ کے کرناٹک صدر شیخ ضیا نعمانی نے 6 اپریل کو آگے آکر سنجے نگر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی اور ایک مخصوص کمیونٹی کو بدنام کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے ہندو جن جاگرتی کے کوآرڈینیٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
Right-wing organisations in #Karnataka are now calling for boycott of #Muslim fruit vendors. #Hindujanajagruti has called for #Hindus to set up more fruit shops to break the monopoly of Muslim traders in fruit business. pic.twitter.com/Mp9KnE6eD5
— Imran Khan (@KeypadGuerilla) April 5, 2022
شکایت میں نعمانی نے فرقہ پرستی کوقومی سالمیت کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیان مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ،یہ بیان جان بوجھ کر ایک مخصوص کمیونٹی کو نقصان پہنچانے اورکمتر دکھانے کے لیے غلط ارادے سے دیے گئے۔
نعمانی نے یہ بھی الزام لگایا کہ موگر نے اپنے بیان کے ذریعے ریاست اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی نیت سے مسلم کمیونٹی پر جھوٹے الزامات لگائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ موگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ انہوں نے اپنی شکایت کی ایک کاپی بنگلورو سٹی کے پولیس کمشنر کو نشان زد کی ہے۔
تاہم پولیس نے اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
پیشہ سے انجینئرنعمانی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ مرتضیٰ علی بیگ اور پیرا لیگل خضر عالم اور وسیم راجہ نے اس معاملے پر پولیس سے رابطہ کیا۔
عالم ہیومن رائٹس اینڈ سوشل جسٹس مشن این جی او کی بنگلورو یونٹ کے سکریٹری ہیں اور راجہ ایک سماجی کارکن ہیں۔
ایف آئی آر درج کرنےکی جدوجہد
ایک فیس بک پوسٹ میں نعمانی نے اس عمل کی مکمل تفصیلات بتائی ہیں، جس کے تحت انہوں نے اور تین دیگر افراد نے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔
دی وائر سے بات چیت میں نعمانی نے کہا کہ پولیس میں شکایت درج کرانے کے بعد انہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر معاملے کو پولیس کے سامنے آگے بڑھایا۔
نعمانی نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا، ہم اس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے جوجھ رہے ہیں جس نے مسلمانوں پر تھوک جہاد کا الزام لگا کر مسلم پھل فروشوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔
نعمانی نے کہا کہ جب 6 اپریل کو سہ پہر 3 بجے سنجے نگر پولیس اسٹیشن میں پولیس انسپکٹر کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تو افسر نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔
انہوں نے کہا،ہم نے احتجاج کیا کہ اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال بائیکاٹ کی اپیل دے کر کسی مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیےنہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد انسپکٹر نے گروپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ نہیں چاہتا کہ تنازعہ بڑھے کیونکہ ملزم فریق رد عمل ظاہر کر سکتا ہے اور صورتحال پرتشدد ہو سکتی ہے۔ بعد میں انہیں بتایا گیا کہ پولیس اس پر قانونی رائے لے گی اور اس کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔
نعمانی نے بتایا کہ اگلی صبح 7 اپریل کو ایک پولیس افسر نے کہا، دیگر افسران اس معاملے پر قانونی رائے لے رہے ہیں، جس میں دو سے تین دن لگیں گے۔اگر آپ چاہیں تو اعلیٰ حکام سے رجوع کر سکتے ہیں یا ہائی کورٹ میں شکایت کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد گروپ نے بنگلورو کے پولیس کمشنر کمل پنت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنت نے انہیں ایک مہر بند لفافہ دیا اور انہیں ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ) سے ملنے کی ہدایت دی، جن سے وہ اس شام ان کے یسونت پور دفتر میں ملے۔
نعمانی نےبتایا، ڈی سی پی نے لفافہ کھولا اور کہا کہ میں اس کی جانچ کروں گا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ معاملے میں ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی،تو اس پر انہوں نے کہا کہ میں اس کی تحقیقات کروں گا اور آگے اس کے بارے میں بتاؤں گا۔
تمام پولیس والوں نے کہا – معاملے کی جانچ کرنی ہوگی
نعمانی نے دی وائر کو بتایا کہ گروپ کو 8 اپریل کو ایڈیشنل کمشنر آف پولیس سندیپ پاٹل سے ملاقات کرنی تھی لیکن ملاقات نہیں ہوئی۔
نعمانی نے کہا، جب میں نے آج (جمعہ) ایڈیشنل کمشنر کو فون کیا تو انہوں نے مجھ سے ملاقات نہ کرنے کو کہا۔ ان کے الفاظ تھے، ڈی سی پی نارتھ اس کے لیے مجاز اتھارٹی ہیں اور وہ کمشنر آف پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں، اس لیے ڈی سی پی نارتھ سے رابطے میں رہیں، وہ اپ ڈیٹ دیں گے۔
کارکن نے کہا کہ انہوں نے پاٹل کے ساتھ یہ کہہ کر استدلال کرنے کی کوشش کی کہ یہ مقدمہ قابل دستی جرم ہے اور قانون کے مطابق شکایت موصول ہونے کے 24 گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس معاملے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی معاملے کی تحقیقات کرنی ہوگی۔
نعمانی نے کہا کہ گروپ اب اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کے ساتھ ہائی کورٹ سے رجوع کرے گا۔
انہوں نے کہا، ہم نے شکایت کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور ہم سوموار کو عدالت جائیں گے۔ اس سے پہلے سنیچرکوہم نے اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ہم یہ بھی طے کریں گے کہ ہمیں اپنے مطالبے کے لیے بھوک ہڑتاک کرنا چاہیے یا نہیں۔ اگر یہ ستیہ گرہ ہوتا ہے تو یہ یا تو گاندھی کے مجسمہ پر ہوگا یا پھر پولیس کمشنر کے دفتر کے باہر۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)